فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
اور شک نہیں کہ ظاہراً اعوام ان الفاظ سے ارادہ انشاء کو جانتے بھی نہ ہوں گے بلکہ جو ان کا مفہوم متبادر ہے یعنی اخبار وہی ان کا مراد ومقصود ہوگا اور سامعین بھی انھیں سن کر یہی سمجھیں گے تو جبکہ واقع میں اس سے پہلے نکاح نہ ہوا تو صرف یہ سوال وجواب واخبار غلط کیونکر انھیں عنداللہ زوج وزوجہ بنا سکتے ہیں،
ھذا مما لایعقل ولایستاھل ان یقبل :
یہ غیر معقول ہے اور قبول کرلینے کے قابل نہیں،
اقول فقد بان بحمد اﷲ ضعف مانقل فی التنویر والدر عن الذخیرۃ بعد ماقدما عدم الانعقاد بالاقرار علی المختار کما سمعت حیث قال عقیبہ وقیل ان کان بمحضر من الشھود صح وجعل الاقرار انشاء وھو الاصح ذخیرۃ ۱؎ اھ فاعلم اولاً ان المولیین المحققین رحمھما اﷲ تعالٰی قد اشارا الی تضیعف ھذا بوجوہ، اماالمصنف فبتقدیمہ الاول وتعبیرہ ھذا بقیل واما المؤلف فبتقریرہ علی الامرین وتعلیلہ للاول فان التعلیل دلیل التعویل کما نص علیہ فی العقود الدریۃ وغیرھا فافھم،
اقول بحمداللہ تعالٰی تنویر اوردُر میں جو ذخیرہ سے نقل کیا گیا جہاں انھوں نے اقرار انکاح کو مختار قول کے مطابق نکاح قراردیا جیسا کہ تو نے سنا اور اس کے بعد یہ کہا (کہ بعض نے کہا ہے کہ یہ اقرار گواہوں کے سامنے ہو تو نکاح صحیح ہے اور اقرار کو انھوں نے انشاء قرار دیا ہے اور ذخیرہ کے حوالے سے اس کو اصح کہا) اس نقل کا ضعف واضح ہوگیا تو غور کرو اولاً اس لیے کہ (شامی اور طحطاوی رحمہما اللہ دونوں قابل احترام حضرات نے اس کے ضعف پر کئی وجوہ سے اشارہ فرمایا، اور بیشک مصنف (صاحب در) نے پہلے قول یعنی عدم انعقاد کو پہلے ذکر اور دوسرے کو ''قیل'' کے ساتھ ذکر کیا ہے اور مؤلف یعنی صاحب ذخیرہ نے اگرچہ دونوں قولوں کو ذکر کیا لیکن وجہ اور دلیل صرف پہلے قول کی ذکر کی جو کہ قابل اعتماد ہونے کی دلیل ہے جیسا کہ یہ قاعدہ عقود الدریہ وغیرہ میں بیان ہے، غور کرو ___
(۱؎ درمختار کتاب النکاح مجتبائی دہلی ۱/۸۶۔ ۱۸۵)
وثانیاً ان تاملت ماالقینا علیک فوجوہ ضعفہ لاتخفی لدیک اما اولاً فلما تقدم فی کلامی وکلمات العلماء الکرام علی عدم الانعقاد بالاقرار من دلائل لاترد ولاترام ولاشک ان الاقوی دلیلااحق تعویلاواما ثانیا فلما لہ من کثرۃ الترجیحات وقد تقرران العمل بما علیہ الاکثر کمافی العقود وغیرھا واما ثالثا فلان مالہ من علامۃ الافتاء اشد قوۃ واعظم وقعۃ مما لھذا فقد نصوا ان علیہ الفتوی وبہ یفتی، اکد مایکون من الفاظ الفتوی واما رابعا فلان ماعلیہ المتون وھی العمدۃ والیھا الرکون فھذہ والاربعۃ فقد ظھرت من قبل،
دوسرا اس لیے کہ میں نے جو وجوہِ ضعف آپ کو بیان کئے ہیں اگر آپ نے غور کیا ہو تو اس نقل کے ضعف کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں مثلا اول یہ کہ میں نے اور دیگر علماء کرام نے جو کلمات ذکر کئے ہیں کہ اقرار سے نکاح نہیں ہوتا اور اس پر جو دلائل پیش کئے گئے وہ ناقابل تردید ہیں اور بلاشک وشبہہ جو دلائل وزنی ہوں گے وہ زیادہ قابل اعتماد ہونگے ثانیاً اس لیے کہ اس پر کثیر ترجیحات ذکر کی گئی ہیں اوریہ بات مسلمہ ہے کہ جس پر اکثریت ہو وہ عمل کے لیے قابل قبول ہے جیساکہ عقود وغیرہ میں ہے ثالثاً اس لیے کہ جس میں فتوٰی کی قوی علامت پائی جائے وہ قوت اور وقعت کے لحاظ سے پختہ اور وزنی ہوتا ہے، چنانچہ فقہاء کرام نے اس پر تصریح کی ہے ''علیہ الفتٰوی'' اور ''بہ یفتی'' کے الفاظ فتوٰی کے باب میں سب سے زیادہ پختہ الفاظ ہیں۔ رابعاً اس لیے کہ کتب متون جس کو معتمد علیہ قرار دیں اس کی طرف ہی رجوع کرنا ہوتا ہے، یہ چاروں امورپہلے واضح ہوچکے ہیں،
واماخامسا فلما تسمع اٰنفا،قد اظھر لنا المولی الامام برھان الدین محمود بن الصدر السعید تاج الدین احمد قدس سرھما فی ذخیرتہ مأخذ خیرتہ اذبنی ذلک انہ ذکر محرر المذھب محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ فی صلح الاصل ادعی رجل علی امرأۃ نکاحا فجحدت فصا لحھا بما ئۃ علی ان تقربھذا فاقرت فھذا الاقرار جائز والمال لازم ۱؎ اھ فظن المولی البرھان ان محمدا اجاز النکاح بالاقرار وقد علم ان ھذا لایصح الابمحضر من الشھود ففرع علیہ ان الاصح الصحۃ لوالشھود حضورا،
خامساً اس لیے جو آپ ابھی سنیں گے کہ امام برہان الدین محمود بن الصدر السعید تاج الدین احمد قدس سرہمانے اپنے ذخیرہ میں جس کو اپنے پسندیدہ امور کا ماخذ ہمارے لیے ظاہر کیا ہے اس کی بنیاد محرر مذہب امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ذکر کردہ مسئلہ پر ہے جس کو انھوں نے اصل یعنی مبسوط کے ''باب الصلح'' میں بیان کیا ہے وہ یہ کہ ایک شخص نے ایک عورت کے بارے میں دعوٰی بیان کیا کہ یہ میری منکوحہ ہے جبکہ عورت نکاح سے انکاری ہے تو اس نے عورت سے سوروپے کے بدلے صلح کرکے اس سے نکاح کا اقرار کرالیا تو عورت کا اقرار جائزاور مال لازم ہوجائے گا اھ اس سے محترم برہان الدین کو گمان ہواکہ امام محمد نے عورت کے اقرار سے نکاح کو جائز قراردیا اور علامہ برہان الدین نے یقین کرلیا کہ یہ اقرار گواہوں کی موجود گی میں ہوا تو صحیح ہوگا،اسی لیے انھوں نے اس کے بعد یہ تفریع قائم کی کہ اصح بات یہ ہے کہ گواہ موجود ہو تو اقرار سے نکاح صحیح ہوگا،
(۱؎ ردالمحتار بحوالہ صلح الاصل کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی ۲/۶۶۔ ۲۶۵)
قال العبد الضعیف لطف بہ المولٰی اللطیف وای شیئ اکون انا حتی اتکلم بین یدی ھذا الامام الجلیل قدس سرہ الجمیل ولکن کثرۃ تصحیحات الائمۃ وجزمھم فی الجانب الاٰخر بما تجرؤنی ان اقول وباﷲ التوفیق لامساس لما فی الاصل بھٰذا الفصل فان محمدا انما اجاز الاقرار والزم المال فانما افاد جواز الصلح وانقطاع الجدال بحیث لوعادت المرأ ۃ بعد ذلک الی الجحود لم یسمعہ القاضی امالو لم یجز الصلح لم یلزم المال واقرت المرأۃ علی انکارھا ھذا ھو حاصل جواز الصلح وعدم جوازہ کمالایخفی واین ھذا من انعقاد العقد فی الواقع فیما بینھم وبین ربھم العلیم الخبیر تبارک وتعالٰی الیس قد صرحوا انہ لایطیب لہ البدل ان کان کاذ باولو ادعی رجل علٰی اٰخربیع دارہ مثلاً فاقربہ افتداءًعن یمینہ اوفرارا عن ذل الجثوبین یدی القاضی ثبت البیع قضاء وجرت الاحکام من وجوب التسلیم ولزوم الشفعۃ وغیر ذلک لکن ھذا المدعی الکاذب انما یأخذ جمرۃ نار ثم السران المصالحین ارادا عقد الصلح وھو انما یصور بارجاعہ الی عقدمن العقود الشرعیۃ فلابد من حملہ علی اشبہ عقد بہ ضرورۃ تصحیح الکلام وقطع الخصام اما ھھنا اعنی فیما نحن فیہ فلم یریدا عقداوانما اخبرا خبرا کذبا والکذب وان یرج علی الناس فلایصحح عنداﷲ اصلافوضح الفرق وزال الاشتباہ والحمد ﷲ،
یہ عبد ضعیف(اللہ تعالٰی مہربان ا س پر مہربانی فرمائے) میں کون ہوں جوا س عظیم امام کے سامنے بات کروں لیکن تصحیح کی کثرت اور ائمہ کرام کا جزم اس کے خلاف ہے جس کی وجہ سے مجھے جرأت ہو رہی ہے کہ میں بات کروں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ اصل کے بیان کا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی نے صرف اقرار کو جائزا ور مال کو لازم فرمایا ہے جس کا مفاد صرف صلح کا جواز اور جھگڑا ختم کرنا ہے حتی کہ اگر عورت ا س کے بعد دوبارہ انکار کرے تو قاضی اس کی سماعت نہیں کرے گا لیکن اگر صلح کو جائز نہ مانا جائے تو مال لازم نہیں ہوگا اور عورت کا انکار باقی رہے گا، صلح کے جواز اور عدم جوازکا حاصل صرف یہی ہے جیسا کہ واضح ہے، اس کافی الواقع عند اللہ نکاح کے منعقد ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیا ایسی صورت میں مدعی کے جھوٹا ہونے پر معاوضہ کے اس کے لیے طیب نہ ہونے پر فقہاء نے تصریح نہیں کی، ایک شخص دوسرے کے خلاف ا س کے مکان کی فروختگی کا جھوٹا دعوٰی کرے اور مدعی علیہ قسم سے بچنے کے لیے فروختگی کا اقرار کرلے یا قاضی کے ہاں پیشی کی رسوائی سے بچتے ہوئے اقرار کرلے تو اس صورت قضاء بیع ثابت ہوجائےگی اور اس پر مکان کا قبضہ دینا اور شفعہ وغیرہ جیسے احکام جاری ہوں گے اس کے باوجود جھوٹے مدعی کی وصولی اس کے لیے جہنم کا انگارا ہے، پھر دو صلح کرنے والوں نےجب صلح کا عہد کر لیا تو حکمت کا تقاضا ہے کہ اس معاہدہ کو کسی شرعی عقد کی صورت دینے کے لیے اس کے قریب ترین عقد پر محمول کیا جائے تاکہ ان دونوں کی کلام کو صحیح بنایا جائے اور ان کے جھگڑے کو ختم کیاجاسکے، لیکن یہاں ہمارے زیر بحث مسئلہ میں تو مرد وعورت نے کوئی عقد نہیں کیا بلکہ دونوں نے جھوٹی خبر دی، جھوٹ اگرچہ لوگوں پر اثر انداز ہوجاتا ہے لیکن عنداللہ موثر نہیں ہوسکتا، پس فرق واضح اور اشتباہ ختم ہوا، للہ الحمد،