Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
69 - 1581
مسئلہ ۱۳۹: مرسلہ سید عبداللہ صاحب ڈاکخانہ پچھم گاؤں پڑہ بنگال ۱۵ شعبان ۱۳۳۵ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مرد گواہ کے مقابل بالغہ نو مسلمان عورت کو نکاح کیا تو درست ہے یا نہیں؟ ازروئے مہربانی جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور وعندالناس مشکور ہوویں اور مجھ کو سرفراز فرماویں۔
الجواب : نکاح کے لیے دومردوں یا ایک مرد دو عورتیں گواہ ہونالازم ہے۔ صرف ایک مرد کے سامنے ایجاب و قبول کرلینے سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ وھو تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۴۰: مسئولہ  ببراکلو از موضع کرن پورہ ڈاکخانہ سیوان ڈویژن ضلع سارن چھپرا ۱۵ شعبان ۱۳۳۵ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں
11_1.jpg
    

شادی گولاوٹ یعنی بدلین شرط پر میاں سجاد مذکور نے اپنا نکاح مسماۃ زیتون مذکور دختر غنی خاں سے کیا اور سجاد مذکور اپنے ہمشیرہ مسماۃ مولودن کا نکاح ساتھ غفار پسر غنی خاں سے کیا اور تاریخ شادی روانگی وآمد وبارات کابعدنکاح مذکورین کے تاریخ دوسرا مقرر تھا کہ اس درمیان میں جب تین روز سجا د کے کہنے سے بارات جانے کو باقی تھے تب ہی مسماۃ زیتون اپنے باپ کے گھر سے باہر نکل گئی تب بعدہ غفارمذکور کی بارات بھی سجاد کے نہیں آئی۔ اب درمیان اس گھرانے اور اس گھرانے کے تکرار رنجارنجی تطویل کلامی پیش ہوگیا، سجا د کا مقولہ ہے کہ جب  زیتون میرے گھر میں نہیں آئی تھی تب الحال بوجہ نقص شرط نکاح بد لین کے رہی اس خاندان کی بدچلنی وغیر ہ ظاہر ہوجانے سے ہرگز ہم اپنی ہمشیرہ مولودن کواس خاندان میں نہیں جانے دیا نہ اب آنے  دیں گے اورنکاح مذکورین بوجہ شرط شکنی وعہد شکنی کے باطل ہوگیا، خدانخواستہ مسماۃ مولودن کی جان کوکوئی نقصان پہنچ جاوے تو عجب نہیں ہے۔ عرض ہے صاف صاف فتوٰی اس کاحضور ارقام فرماویں، والسلام 

سجاد میاں برادر    مولودن ہمشیرہ    ان لوگ کے والدین فوت کرگئے
الجواب : نکاح میں کوئی شرط بدل کی نہ تھی اور ہوتی بھی تو نکاح شرط فاسد سے فاسد نہ ہوتا اور یہ بھی نہ سہی توشرط نکاح زیتون تھا وہ ہوگیا، بہرحال مولودن غفار خاں کی منکوحہ ہے اور سجاد کو اس کے روکنے کا کوئی حق نہیں سجاد اپنی منکوحہ زیتون کو تلاش کرکے اپنے قبضہ میں رکھے اورنہ رکھنا چاہے تو طلاق دے، مولودن کے نکاح پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۴۱: از بدایوں مولوی محلہ کونچہ مولوی انوار حسین صدر اعلٰی مکان بخش والا مرسلہ حبیب اللہ صاحب ۱۲ شوال ۱۳۳۵ھ

مسماۃ ہندہ دختر مسماۃ خالدہ بیوہ ہے۔ اس کے دو بچے نابالغٖ ہیں، زید پدر شوہر متوفی ہندہ کا بچوں کو کھانے کو دیتا ہے مگر غیر کافی، ہندہ و خالدہ اپنی محنت کرکے بشمول زید بسرکرتے ہیں زید چاہتا ہے کہ ہندہ اس کے دوسرے لڑکے سے جس کی بیوی واولاد موجود ہے عقدنکاح باندھنے پر رضامند ہوجائے مگر ہندہ وخالدہ رضامند نہیں دیگر اعزائے ہند ہ عقد ثانی کو براخیال کرتے ہیں۔ اور اگر ہندہ کی جوانی پر خیال کرکے رائے عقد کی دیتے ہیں توایسے شخص سے جس سے ہندہ وخالدہ کو اطمینان ہوتاہے اب خالدہ ایک شخص ثالث سے جس سے ہندہ بھی رضامند ہے اور ایک جگہ رہتے ہیں اس طرح عقدکرنا چاہتی ہے کہ دو ایک شخص عزیزتیسرے آدمی جس سے عقد کرنا چاہتی ہے واقف ہوں، اور خود واقف ہو تا کہ ہندہ برے خیال وافعال سے بچی رہے اور اولاد کی بابت نزاع پیدا نہ ہو، تو اس طرح عقد ہوسکتا ہے یا نہیں؟ بخیال مزید احتیاط شخص ثالث جس سے عقد نکاح پر رضامند ہے ہندہ کو خطبہ نکاح پڑھ کر ایجاب وقبول ہندہ سے کراسکتا ہے یا عقد نکاح باندھنے کے واسطے شخص غیر کی ضرورت ہے؟
الجواب : نکاح پڑھانے کے لیے دوسرے شخص کی حاجت نہیں صرف مردوزن ہوں اور ایک مرد دوعورتیں عاقل بالغ مسلم کہ معاً دونوں مرد و زن کاایجاب وقبول سنیں اور سمجھیں کہ یہ نکاح ہور ہا ہے۔ مگر ہندہ اگر ولی نہیں رکھتی یعنی دادا پر دادا کی اولاد میں کوئی مرد عاقل بالغ جب تو اسے اختیار ہے جس سے چاہے نکاح کرلے۔ ورنہ اگریہ شخص جس سے نکاح کیا چاہتا ہے ہندہ کا کفو ہے یعنی مذہب نسب چال چلن پیشے کسی بات میں ایسا کم نہیں کہ اس سے نکاح ہو ناولی ہندہ کے لیے باعث ننگ و عار ہوجب بھی ہندہ مختار ہے۔ اور اگر کفو نہیں تو جب تک ولی پیش از نکاح اسے غیر کفو جان کر صراحۃً اجازت نکاح نہ  دے گانکاح ہوگا ہی نہیں اگرچہ ہزار اعلان کیا جائے علیہ الفتوٰی درمختار وغیرہ (فتوٰی اسی پر ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
Flag Counter