فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۱۳۶: مرسلہ محمد اقبال و نور محمد صاحبان امام مسجد تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ ۹ ربیع الاول ۱۳۳۵ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین رحمہم اللہ تعالٰی مفصلہ ذیل میں، ایک لڑکے کی ایک جگہ منگنی ہوئی تھی نکاح سے پیشتر کچھ عرصہ کے بعد لڑکے اورلڑکی کے والدین کے درمیان کسی خانگی امر کی وجہ سے ناموافقت پیدا ہوگئی جس سے لڑکی والے نکاح دینے سے منکر ہوگئے لڑکے کے والد نے کسی طرح لڑکی کو ورغلا کر چوری بوقت رات لڑکی کو میکے سے نکال لیا اور فرار کرکے لے آیا۔ لڑکی چونکہ بالغ ہے اس نے خود بخود شہر گوجرانوالے جاکر باوجود لڑکی کے والدین کی نارضامند ی اور عدم موجودگی کے اپنے لڑکے سے نکاح کرالیا، اس سے طرفین میں بہت سافساد برپا ہوگیا، جس کی نوبت کچہری تک پہنچی، یہ امر دینی مصلحت کے برخلاف ہوتاہے۔ امید ہوسکتی ہے کہ ایسی دست درازی آئندہ بھی ایسی کارروائیوں اور فتنوں کی بانی ہو، جس کا انسداد واجب امر ہے۔ کیا ایسے رخنہ انداز آدمیوں کے لیے شریعت میں کوئی سزا مقرر ہے؟ مفصل حال سے آگاہی فرمائیں۔ فقط۔
الجواب : بلا شبہ ایسے لوگ مفسد وفتنہ پرداز اورآبرو ریز فتنہ انگیز مستحق عذاب شدید و وبال مدید ہیں، معاذاللہ اگرایسی جرأتیں روا رکھی جائیں تو ننگ وناموس کوبہت صدمہ پہنچے گا، کم سے کم اس میں شناعت یہ ہے کہ بلاوجہ شرعی ایذا ء مسلم ہے۔
اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من اٰذٰی مسلما فقد اٰذانی ومن اٰذانی فقد اٰذی اﷲ ۱؎۔
جس نے کسی مسلمان کو ناحق ایذا دی اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔
(۱؎ المعجم الکبیر حدیث ۳۶۳۲ مکتبۃ المعارف الریاض ۴/۳۷۳)
یہ نکاح جس سے ہوا اگر وہ عورت کا کفو نہیں یعنی مذہب یانسب یا چال چلن یا پیشہ میں ایسا کم ہے کہ اس سے نکاح ہونا اولیائے زن کے لیے باعث ننگ وعار ہے جب تویہ نکاح کہ زن بالغہ نے بے رضائے ولی خود کیا سرے سے ہوا ہی نہیں باطل محض ہے،
درمختار میں ہے:
ویفتی فی غیر الکفوبعدم جوازہ اصلا بہ یفتی لفساد الزمان ۲؎۔
فساد زمان کی وجہ سے غیر کفو میں نکاح کے عدم جواز کا فتوٰی دیا جائے گا۔ (ت)
(۲؎ درمختار باب الولی مجتبائی دہلی ۱/۱۹۱)
اور اگر کفو ہے تووالدین کو ناراض کرکے عورت کا بطور خود نکاح کرلینا خصوصاً وہ بھی اس طورپر جا کر عور ت کے لیے سخت محرومی وناراضی الہٰی کا باعث ہے۔ اور امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک تو اب بھی نکاح نہ ہوا کہ ان کے نزدیک بغیر ولی کے نکاح باطل ہے۔ یہ کیا تھوڑی شناعت ہے کہ ایک امام بر حق کے نزدیک عورت بے نکاح ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۳۷: بریلی خوجی محلہ مرسلہ عظیم اللہ صاحب ۴ شعبان ۱۳۳۵ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کا نکاح زید کے ساتھ بجبر کرایا گیا حالانکہ زید کی منشاء ہر گز نہ تھی جس کے چند شاہد موجود ہیں، بوقت ایجاب قبول کرنے کے زید نے ''ہوں'' مثل عورات کے کہا اور رخصت نہ ہونے پائی کہ زید اپنے مکان کو چلا گیا، اور اس سے قبل بھی تاریخ مقرر پر زید اپنے گھر سے فرار ہوگیا تھا تو اس صورت میں نکاح زید کا ہندہ کے ساتھ ہوا یا نہیں؟ مہر سے مزین فرمایا جائے۔
الجواب : نکاح ہوگیا اگرچہ قبول میں صرف ''ہوں'' جبرا کہا ہو،
فان الا کراہ ان تحقق لم یعمل فیما یستوی فیہ الجد والھزل کالنکاح والطلاق والعتاق فکیف مالیس باکراہ۔
جبر واکراہ اگر پایا گیا تو ان امور میں موثر (عذر) نہیں بنے گا جن میں قصد ومذاق مساوی ہے مثلا نکاح طلاق اور عتاق اور اگر ان امور میں جبر نہ ہو پھر کیا کہا جائے۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۳۸: محمد رحیم بخش عبدالحمید صاحبان ازقصبہ فتر انگر ضلع گوڑگانوہ ۱ ۱ شعبان ۱۳۳۵ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید جبکہ بے ریش تھا اس کی نسبت (یعنی سگائی) ہندہ سے ہوئی تھی اور زید ہندہ کے مکان پر کسی وجہ سے رہتا تھا یا پرانی رشتتہ داری کی وجہ سے رہتا تھا۔ ہندہ کی پھوپھی نے ہندہ کو گود لیا ہوا تھا یعنی ہندہ کی پھوپھی لاولد یابانجھ تھی، ہندہ کے گھر میں سوائے ہندہ کے پردہ نہیں کرتا تھا، ہندہ کی پھوپھی نے زید کے ساتھ اس قدر محبت بـڑھائی جوکہ شفقت مادری سے زیادہ تر نظر آتی تھی، آخر کار زیدسے سوال ہم بستری کا کیا، چونکہ اس زمانے میں زید بالکل بے خبر تھا یعنی خدا و رسول اور نماز و روزہ سے بالکل بے خبر تھا۔ غرض دونوں کے باہم ناجائز دوستی کئی سال تک رہی، یہاں تک کہ زید اور ہندہ کے والدین نے شادی کردی، چونکہ میاں بیوی میں کمال درجہ الفت اور محبت ہوئی اور ہندہ کی پھوپھی سے کچھ تعلق نہ رہا۔ اب چونکہ شادی کو تقریبا اٹھارہ سال گزرگئے اور تین بچے بھی ہوگئے۔ آج تک زید کو اس بات کا خیال تک نہ آیا اب زید ایک بزرگ سے شرف بیعت ہوکرخدا اور رسول کی اطاعت میں کمربستہ ہے اور اسی طرح ہندہ بھی پابند شرع ہے اور وہ بھی شرف بیعت ہو چکی ہے باوجود زید کو ہمیشہ کتب احادیث وفقہ سے کام رہتا ہے لیکن یہ مسئلہ آج تک اسکی نظر سے نہیں گزرا اور نہ کسی سے ذکر سنا نہ اس بات کا خیال تھا، اب زید کہتا ہے کہ اکسیر ہدایت کا مطالعہ کر رہاتھا اس میں باب النکاح پر نظر پڑی، اس میں یہ عبارت لکھی پائی کہ پھوپھی بھتیجی یک جانکاح میں حرام ہیں، جب سے زید نے یہ عبارت پڑھی دیوانہ اور پاگل سا ہوگیا ہے کیونکہ نہ عورت یعنی بیوی کو چھوڑنے کا یاراہے۔اور نہ خدا ورسول کے حکم کے برخلاف ہوکر رہنے کی طاقت ہے، اگراس کو چھوڑ نا چاہتا ہے یا طلاق دینا چاہے تو اس کے والدین یہ دریافت کریں گے کہ ہماری لڑکی کی کیا خطا ہے۔ اور جدائی بھی نہایت شاق گزرے گی، مبادا کوئی اور آفت پیدا ہو، زیدکی بدکرداریوں کی آج تک کسی کو خبر نہ ہوئی اب یہ رسوائی کیونکر لی جاوے، اب تمام کیفیت زید و ہندہ کی آنجناب میں ظاہر کردی ا مید وارہوں کہ آپ حکم شریعت سے بلا کسی لحاظ ومروت کے حکم فرماویں، اور اگر اس گناہ کا کفارہ ہوسکتا ہے تو وہ بھی بتلایا جائے۔ اوراگر زید وہندہ میں جدائی کرانے کا حکم ہو تو تین لڑکیاں جو پیدا ہوچکی ہیں ان کوکیا کیا جاوے اور مہر ہندہ کا مبلغ ما ؎ہ بندھا وہ ادا کرنا ہوگایا نہیں؟ حالانکہ ہندہ نے شب عروس کو اپنا مہر معاف کردیا تھا۔
الجواب : وھو الذی یقبل التوبۃ عن عبادہ ویعفو عن السیئات ۱؎۔
اللہ ہے کہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے۔
(۱؎ القرآن ۴۲/۲۵)
والحمد ﷲ رب العٰلمین، جو گناہ ہواس سے توبہ کرے استغفار کرے، باقی جو توہمات دربارہ منکوحہ پیش آئے محض بے معنٰی ہیں، کسی عورت سے زنا کرنا اس کی بھتیجی بھانجی کو حرام نہیں کرتا، نہ ان کے نکاح میں کوئی خلل آتا ہے۔
خلاصہ ودرمختار وغیرھما میں ہے:
وطی اخت امرأتہ لاتحرم علی امرأتہ ۲؎۔
سالی سے زنا کرنے کی وجہ سے بیوی حرام نہیں ہوگی۔ (ت)
(۲؎ درمختار کتاب النکاح فصل فی المحرمات مجتائی دہلی ۱/۱۸۸)
اکسیر ہدایت میں جولکھا اس کا مطلب ہے کہ پھوپھی بھتیجی دونوں ایک شخص کے نکاح میں ہونا یہ حرام ہے مثلاً بھتیجی نکاح میں ہے تو جب تک وہ نکاح میں رہے یا اگر اسے طلاق دے دے تو طلاق کی عدت جب تک نہ گزرے اس وقت تک اس کی پھوپھی سے نکاح حرام ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم