Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
67 - 1581
مسئلہ ۱۳۲: مرسلہ حاجی ولد میاں صاحب از ضلع گونڈا ریاست بلرام پور بازار چوک ۸صفر ۱۳۳۵ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مثلا زید نے ہندہ سے جوزنا سے حاملہ تھی دیدہ ودانستہ حالت حمل میں نکاح کیا بعد اس کے چند آدمیوں نے مجبور کرکے ایک جلسہ میں تین طلاقیں دلوادیں، یہ نکاح اور طلاق جائز ودرست ہوایا نہیں؟ بر تقدیر اول وضع حمل کے بعد جدید نکاح ہوسکتاہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : جو عورت معاذا للہ زنا سے حاملہ ہو اس سے نکاح صحیح ہے خواہ اس زانی سے ہو یا اس کے غیر سے، فرق اتنا ہے کہ زانی جس کا حمل ہے وہ اس سے قربت بھی کرسکتاہے اور غیر زانی اگر نکاح کرے تو تاوضع حمل قربت نہیں کرسکتا۔
لئلا یسقی ماءہ زرع غیرہ ۱؎ درمختار ، وصحح نکاح حبلی من زنا ۲؂تنویر الابصار۔
تاکہ دوسرے کی کھیتی کو اپنے پانی سے سے سیراب نہ کرے۔ درمختار، زنا سے حاملہ کا نکاح صحیح ہے۔ تنویر الابصار (ت)
 ( ۱؎ درمختار شرح تنویرا لابصار    فصل فی المحرمات    مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۸۹)

(۲؎ درمختار شرح تنویرا لابصار    فصل فی المحرمات    مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۸۹)
عدت زن شوہر دارپر ہوتی ہے، جب شوہر مرے طلاق دے اور ذات زوج کا حمل زوج ہی کا ٹھہرتا ہے قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: الولد للفراش وللعاھر الحجر ۳؎ (بچے کا نسب نکاح والے کے لیے ہے زانی کو محرومی ہے۔ ت)
 (۳؎ صحیح مسلم         باب الولد للفراش الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۴۷۰)
آیہ کریمہ میں "اولات الاحمال" سے یہی مراد ہے صدر کلام خاص صورت طلاق ارشاد ہوئی ہے اور اسی کی تفصیل فرمائی گئی۔
یا یھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن واحصوا العدۃ ۴؎۔
اے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عورتو ں کو طلاق دیتے وقت ان کی عدت کا پا س کر و اور عدت کا شمار کرو۔ (ت)
 (۴؎ القرآن                        ۶۵ /۱)
حدیث مذکورہ بطلان نکاح حبلی من زنا پر ہر گز دلیل نہیں بلکہ اگر دلیل ہے تو صحت نکاح پر کہ فرمایا "فرق بینھما" معہذا ممکن ہے کہ وہ تفریق ارشادی ہو یعنی ایسی عورت رکھنے کے قابل نہیں، غرض صورت مستفسرہ میں عورت  کا نکاح بیشک صحیح تھا اب اگریہ شخص اس سے قربت کرچکا ا س کے بعد طلاق دی، یاقربت نہ کی تھی تو ایک لفظ میں تین طلاقیں دیں، مثلاً یہ کہ تو تین طلاق سے مطلقہ ہے، تو ان دو نوں صورتوں میں طلاق مغلظہ ہوگئی اور بغیر حلالہ اس سے نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگر ہنوز قربت نہ کی تھی اور متفرق لفظوں میں تین طلاقیں دیں مثلاً تجھ پر طلاق ہے طلاق ہے تو طلاق بائن ہوئی مغلظہ نہ ہوئی بے حلالہ اس سے دوبارہ نکاح کرسکتاہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۳۳ تا ۱۳۴: مرسلہ الف خاں صاحب مہتمم مدرسہ انجمن اسلامیہ سانگو ریاست کوٹہ راجپوتانہ ۲۳ صفر ۱۳۳۵ھ

(۱) یہ کہ بیوگان کا عقد مابین ایام عدت سہواً ہوجائے تو یہ درست ہے کہ نہیں یا بعد گزرجانے ایام مذکورہ نکاح کیا جائے توا س میں کسی کی اجازت درکارہوگی، عورت خود اپنے اختیار سے نکاح پڑھ سکتی ہے یااس کے رشتہ دار یا کسی اور شخص موجودہ کی اجازت درکار ہوگی

(۲) ایسی عورت جس کا خاوند مرجائے اس کا نکاح اس کے جیٹھ سے ہوسکتاہے یا نہیں اور وہ کیسی حالت میں اور کس وقت کن شرائط پر۔
الجواب : عدت میں نکاح باطل وحرام محض ہے سہواً ہو خواہ اقصداً رہا، بعد عدت اگرعورت نابالغہ ہے تو اجازت ولی مطلقاً درکارہے۔ اور اگر بالغہ ہے تو دو صورتیں ہیں جس سے نکاح کیا چاہتی ہے اگر وہ اس کاکفو ہے یعنی مذہب نسب وچال چلن پیشہ کسی با ت میں ایسا  کم نہیں کہ اس سے اس کا نکاح اس کے اولیاء کے لیےباعث ننگ و عار ہو جب تو یہ خود اختیار رکھتی ہے اجازت ولی کی حاجت نہیں، اور اگر غیر کفو ہے اور عورت کا کوئی ولی شرعی نہیں جب بھی اپنے نفس کااختیار ہے اور اگرولی شرعی ہے مثلا بیٹا یاباپ یا دادا پردادا کی اولاد کا کوئی مر د بترتیب فرائض تو جب تک وہ پیش ازنکاح اسے غیر کفو جان کر اس نکاح کی اجازت صراحۃً نہ دے گا عورت کے کئے نکاح نہ ہوسکے گا باطل محض ہوگا۔
یفتی فی غیر الکفو بعد م جوازہ اصلا بہ یفتی لفساد الزمان۱؎ درمختار۔
فساد زمان کی وجہ سے غیر کفو میں اصلا نکاح نہ ہونے کا فتوٰی دیا جائے گا۔ درمختار (ت)
 (۱؎ درمختار         باب الولی        مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۹۱)
 (۲) بعدعدت جیٹھ سے نکاح جائز ہے جبکہ کوئی مانع مثل رضاعت یا مصاہرت یا جمع محارم نہ ہو اور نکاح کی وہی شرطیں ہیں جوابتدائے نکاح میں ہوتی ہیں کوئی نئی شرط نہیں۔، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۳۵: از بلاسپور سی پی، مرسلہ جناب حاجی آدم  جی حاجی یعقوب صاحبان ۱۶ شعبان ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں بعض علماء کہتے ہیں اگر جلسہ منگنی میں ایجاب وقبول ہوں تو بھی نکاح ہوگا اور شرط نکاح پائی گئی تو وہی جلسہ جلسہ نکاح ہوگا جیساکہ درمختا ر عہ و غایۃ الاوطار میں ہے، اور بعض مولوی کہتے ہیں وہ جلسہ جلسہ نکاح نہ ٹھہرے گا
عہ:درمختار میں ہے:
کذاانا متزوجک اوجئتک خاطبا ۲؎
(یوں ہی اگرکہا، میں تجھ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں یا میں تجھے نکاح کا پیغام دینے آیاہوں۔ ت)
 ( ۲؎ درمختار        کتاب النکاح        مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۸۵)
غایۃ الاوطار میں ہے:
''اس واسطے نکاح صحیح ہوجائے گاکہ مول چکانا نکاح میں رائج نہیں ۳؎'' ۱۲ (م)
 ( ۳؎ غایۃ الاوطار ترجمہ درمختار  کتاب النکاح        مطبع مجتبائی دہلی  نولکشور لکھنؤ        ۲/۴)
اورالفاظ ایجاب وقبول وشواہد اس جلسہ منگنی میں غیر معتبرہوگا، کون فریق حق پر ہے اور بر تقدیر قول بعض مولوی صاحب اس عبارت عہ خلاصہ کے کیا معنٰی ہوں گے۔
عہ: عبارت خلاصہ کی یہ ہے:
ابوالصغیر اذا قال زوجت بنتی فلانۃ من ابن فلان بکذا وقال فلان قبلت لابنی ولم یسم الابن ان کان لہ ابنان اواکثر لایجوز وان کان لہ ابن واحد صح ۲؎ ۱۲ (م)
نابالغہ کے باپ نے جب کہا میں نے اپنی بیٹی فلانی، فلاں کے بیٹے کو اتنے مہر میں دی، اس کے جوا ب میں دوسرے نے کہا میں نے اپنے بیٹے کے لیے قبول کی اور بیٹے کانام ذکر نہ کیا، تو اگر اسکے بیٹے زیادہ ہوں تو نکاح نہ ہوگا اور اگر ایک ہی بیٹا ہو تو نکاح صحیح ہوگا ۱۲ (ت)
 (۲؂خلاصۃ الفتاوٰی        کتاب النکاح    مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۲/۵)
الجواب: عبارت خلاصہ کو اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں وہ اس امر میں ہے کہ ایجاب اگر نا متعین کے لیے واقع ہوا تو وہ نکاح صحیح نہیں اور متعین کے لیے واقع ہوا تو صحیح۔ اور اس مسئلہ میں حکم یہ ہے کہ ان الفاظ کودیکھا جائے اگر وہ ایجاب قبول کے لیے متعین ہیں تو نکاح ہوجائے گا اگرچہ جلسہ منگنی کا ہو اورا گر خطبہ وعقد میں متردد ہیں تو جلسہ کا اعتبار رہے گا۔ جلسہ منگنی کا ہے تو منگنی ٹھہرائیں گے، اور نکاح کاہے تو نکاح۔
درمختارمیں ہے:
وکذا ھل اعطیتنیھا ان المجلس للنکاح فنکاح وان للوعد فوعد ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
یوں ہی کہا ''کیا تونے اپنی لڑکی مجھے دی'' نکاح کی مجلس میں نکاح اور وعدہ کی مجلس میں وعدہ ہوگا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 ( ۱؎ درمختار         کتاب النکاح    مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۸۵)
Flag Counter