فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۱۲۸: مسئولہ عبدالعزیز صاحب جمعدار انجینئری کوٹہ راجپوتانہ نیاپور ہ چہار شنبہ ۱۹ ذوالقعدہ ۱۳۳۴ھ قاضی شہر کے علاوہ ا گر کوئی دوسرا شخص پابندشریعت شرع شریف کے مطابق نکاح پڑھاوے یا دیگر مسلمان نکاح پڑھاوے اور اس کا اندراج رجسٹر قاضی شہر میں نہ ہو تو کیا وہ ناجائز ہے ؟ اس کا جواب بھی دیجئے۔ فقط
الجواب : یہ نکاح خواں قاضی نہ شرعاً ضرور ہیں نہ ان کے رجسٹرکی شرعاً حاجت۔ ہاں اندراج میں مصلحت ہے۔ باقی جس سے چاہیں پڑھوائیں کوئی روک نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۹: ا زکوہ شملہ ولیر نگل لاج مرسلہ کفایت حسین صاحب روز یک شنبہ ۱۶ ذی الحجہ ۱۳۳۴ھ مخزن علوم، معدن فنون، علمائے دین شرع متین، جناب مولوی صاحب قبلہ دام ظلکم یہ مسئلہ حضور کی خدمت میں پیش کیا جاتاہے کہ خالہ زاد دوبھائی ہیں، ایک کی بی بی دوسرے بھائی کے لڑکے سے یعنی اپنے بھتیجے سے فعل ناجائز کرتی تھی سامنے شوہر کے، جبکہ شوہرفوت ہوگیا تو اسی بھتیجے کے ساتھ عقد کرلیا تو وہ عقد جائزہے یا ناجائز؟
الجواب : شوہر کے بھتیجے سے بعد وفات شوہر وانقضائے عدت نکاح جائز ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۳۰: از کاٹھیا واڑ مقام اڑتیاں مرسلہ امین احمدصاحب پنجشنبہ ۱۹ ذی الحجہ ۱۳۳۴ھ ایک شخص نے نکاح کیا، اس کا ارادہ یہ ہے کہ تھوڑی یا زیادہ مدت بعد اس کو طلاق دے دے گا۔ یہ نکاح ہوتاہے یا نہیں؟
الجواب : اگر نکاح میں کسی مد ت کی قید نہ لگائے صرف دل میں ارادہ ہو کہ سال بھریا ایک مہینے یا ایک ہی دن کے بعد طلاق دے دوں گا تونکاح میں کوئی حرج نہیں، ہاں بلا وجہ بے سبب محض طلاق دینا منع ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۳۱: مرسلہ حاجی سید نعیم الدین صاحب مقام امام گنج ڈاک خانہ سندر گنج ضلع رنگپور بنگال ۲ صفر ۱۳۳۵ھ کیا ارشا دفرماتے ہیں علما ئے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک لڑکی یتیمہ مظلومہ مسماۃ بہ الف بعمر صغیرہ نابالغہ ۱۱ یا ۱۲ سال کی اس کے چچا حقیقی کی عین موجودگی میں قہراً وجبراً اہل قریہ بطمع رشوت ایک عمررسیدہ شخص سے یتیمہ الف کا عقدونکاح کردیا اور چچا حقیقی یتیمہ کابخیال فتنہ منع کرنے سے قاصر رہا اور لڑکی یتیمہ سے بھی جبراًاذن لیا اورلڑکی قبل سے انکار کرتی تھی اور بوقت اذن انکار کرتی رہی لہذا آج تک انکار کرتی ہے بعد عقد نکاح پرچھ ماہ کے درمیان کئی بار مصنوعی شوہر کے مکان پر آمدورفت کیا لیکن جبراً۔ لہذا ایک وقت کچھ کھا کر مر نے پر آمادہ ہوگئی تھی اس وجہ سے وارثان مظلومہ رخصتی کراکے ا س کے نانا کے مکان مقیم کیا ہے عرصہ چار سال سے زیادہ ہوا اور اس وقت عمر لڑکی کی قریباً ۱۶ یا ۱۷ سال کی ہے اور ایک سال سے بالغ کامل ہے اب شخص عاقد وعقد وہندہ وارثان الف پر مستعد شرہے اور رخصتی چاہتا ہے۔ لڑکی جانے سے انکار کرتی ہے۔ احتمال ہے رخصتی کرنے سے لڑکی جان بہلا ک ہو، اس لیے دست بستہ عرض ہے کہ یہ ولایت واذن یتیمہ کا صحیح ہوایا نہیں، اور عقد ونکاح صحیح ہوسکتاہے یا نہیں؟ اور ایسے عاقد و عقد وہندہ وعقد پڑھانے والوں پر کچھ حد شرع ہوسکتا ہے یا نہیں؟ امیدکہ فی سبیل اللہ یتیمہ مظلومہ پر رحم فرمایا جائے، اور ان سب امور کی بشرط توفیق رفیق تحقیق حقیقی خلاصہ بیان قابل اطمینان، جواب باصواب صاف صاف مفصل بعبارت اردو مدلل بدلائل شرعیہ احمدیہ حنفیہ مزین بمہر ودستخط تحریر صحیح عنایت فرماکر ممنون ومشکور فرمایا جائے، اور کار خیر وثواب عظیم میں داخل ہوجائیے اور مجھ کو معصیت سے نجات دلائیے۔ بینوا توجروا
الجواب : حقیقت کا علم اللہ عزوجل کو ہے۔ اگر یہ بیان واقعی ہے کہ الف اس وقت نابالغہ تھی اور اس کے چچا نے نہ اس وقت اجازت دی نہ اس سے پہلے۔ نہ خبر نکاح سن کر کوئی قول وفعل دلیل اجازت اس سے صادر ہواا ور الف کی رخصت اور چند بار شوہر کے یہاں جانا، یہ بھی اس کی بلا اجازت کے ہو، اور اس وقت تک اس نے کوئی کلمہ اس نکاح کے رد کا بھی نہیں کہا، نہ الف کے ہنوز کوئی اولاد ہوئی، تو ان سب شرائط کے ساتھ وہ نکاح الف کے بالغہ ہونے تک چچا کی اجازت پر موقوف تھا اور بعد بلوغ الف خود الف کی اجازت پر موقوف ہوا، ا ب اگر یہ بیان واقعی ہے کہ بعد بلوغ الف سے کوئی قول وفعل مثبت اجازت صادر نہ ہو ابلکہ اسے نکاح پر انکار ہے تو ناراضی ظاہرکرتے ہی وہ نکاح کہ موقوف تھا رَد ہوگیا، الف کو اختیار ہے کہ بعد عدت جس سے چاہے نکاح کرلے اگر خلوت صحیحہ واقع ہوچکی ہو جیسا کہ عبارتِ سوال سے ظاہر ہے، اور اگر خالی جانا آنا ہوا اور ایک مکان میں تنہا تھوڑی دیر کے لیے بھی نہ ہوئے توعدت کی بھی حاجت نہیں، اور عاقد اسے اگر اپنے تصرف میں لایا تو شرائط مذکورہ کے ساتھ مرتکب حرام ہوا کہ نکاح موقوف میں قبل اجازت وطی حرام ہے اور وطی کہ الف کی نابالغی میں واقع ہوئی دلیل اجازت نہیں ہوسکتی اگرچہ اس کی اجازت سے ہو، عقد پڑھانے والا اگر اس بدنیتی میں شریک تھا تو وہ بھی گناہگار ہے ورنہ عقد موقوف فی نفسہٖ جرم نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم،