فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۱۲۱: از بریلی محلہ ذخیرہ چہار شنبہ ۲۲ شوال ۱۳۳۴ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید وعمرو آپس میں حقیقی بھائی ہیں زید کے لڑکے نے زوجہ عمر کی چھاتی اتفاقیہ درآنحالیکہ وہ سورہی تھی اور چار پانچ ماہ کی نوحاملہ بھی تھی یعنی پہلا حمل تھا اپنے منہ میں لے لی، زوجہ عمرو کا بیان ہے کہ جس وقت میری آنکھ کھلی تو میں نے لڑکے کو دیکھا کہ میری چھاتی اپنے منہ میں لئے ہوئے اس طرح منہ چلا رہا ہے جیسے بچے دودھ پیتے ہیں مجھ کونہیں معلوم کہ میرے اس وقت دودھ تھا یا نہیں۔ یا مجھ کو کوئی اثر دودھ کا معلوم ہوا یانہیں میں نے لڑکے کو فوراً اپنی چھاتی سے علیحدہ کردیا اس واقعہ کو عرصہ قریباً سترہ اٹھا رہ سال کا ہوا اس صورت میں ازروئے شرع زید کے لڑکے مذکور کا عمرو کی کسی لڑکی کے ساتھ نکاح درست ہے یا نہیں؟ اور نیز یہ کہ یہ مدت قلیل حمل کی عورت حاملہ کے اترآنے دودھ کی ہے یا نہیں؟ زوجہ عمرو کی عمر اس وقت چود ہ سال اور زید کے لڑکے کی عمر ایک سال کی تھی۔بینوا توجروا
الجواب: جب تک دودھ کا کوئی قطرہ جوف میں جانا معلوم وثابت نہ ہو حرمت ثابت نہ ہوگی،
درمختار میں ہے:
یثبت بہ ان علم وصولہ بجوفہ من فمہ او انفہ لاغیر فلو التقم الحلمۃ ولم یدر دخل اللبن فی حلقہ ام لالم یحرم لان فی المانع شکا ولوالجیۃ ۱؎۔
اس سے ثابت ہو اکہ دودھ کا حلق یاناک کے ذریعہ پیٹ میں پہنچنے کا علم ہو، اس کے بغیر نہیں، اور اگر بچے نے پستان کا سرمنہ میں ڈالا اوریہ معلوم نہ ہوسکا کہ بچے کے حلق سے دودھ اتر ایا نہیں تو حرمت ثابت نہ ہوگی کیونکہ نکاح سے مانع میں شک پایا گیا، ولوالجیہ (ت)
( ۱؎ درمختار باب الرضاع مطبع مجتبائی دہلی ۱/۲۱۲)
دودھ اتر آنے کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں، عورت کے مزاج کی قوت اور خون کی کثرت پر ہے۔ کبھی بعد ولادت بھی نہیں اترتا اور کبھی کنواری کے اتر آتاہے،
درمختار میں ہے:
الرضاع المص من ثدی اٰدمیۃ ولوبکرا ۲؎۔
عورت خواہ باکرہ ہو، کے پستان کو چوسنا رضاع کہلاتا ہے۔ (ت)
(۲؎ درمختار باب الرضاع مطبع مجتبائی دہلی ۱/۲۱۲)
یہ معاملہ عمر بھرکے حلال اور اولاد کے حلالی اور حرامی ہونے کا ہے۔ عورت پر فرض ہے کہ جو بات واقعی ہو ظاہر کردے اخفاء نہ کرے، واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۲ تا ۱۲۷: مسئولہ محمد اسحاق صاحب برمکان قادر بخش دفعدار محلہ شاگرد پیشہ ریاست جاورہ ملک مالوہ چہار شنبہ ۲۹ شوال ۱۳۳۴ھ مخدوم ومکرم جنا ب مولٰنا مفتی احمد رضاخاں صاحب دام مجدہم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، التماس ہے کہ میں حضور عالی کو امور ذیل کے لیے تکلیف دیتا ہوں امید ہے کہ معاف فرماویں گے۔ مسماۃ ہندہ کا نکاح بعمر گیارہ سال سوتیلے والد کی اجازت سے زید کے ہمراہ ہوا، بعد نکاح ہندہ چند یوم زید کے گھر رہ کر والدین کے گھر چلی آئی اور وہاں سے بغیر اجازت زید ہندہ والدین کے ہمراہ چالیس کو س دور جاکر سکونت اختیار کی اور قریباً ایک سال ہندہ کو اپنے والدین کے گھر رہتے ہوئے ہوگیا زید نے اب آن کر رخصت زوجہ کا دعوٰی کیا چونکہ اب ہندہ تیرھویں سال میں ہے اور اپنا بالغہ ہونا کہتی ہے اور بوقت نکاح نابالغہ تھی نکاح فسخ کرنا چاہتی ہے کہ میں نابالغہ تھی اورمیرا نکاح سوتیلے والد کی اجازت سے ہو ا میں فسخ کراؤں گی ایسی صورت میں شرع شریف کیا حکم دیتی ہے؟
الجواب سائل کو چند امور کا جواب دینا چاہئے: (۱) ہندہ کا کوئی ولی ہے یا نہیں؟ مثلاٍ جوان بھائی یا چچا یا چچا کابیٹا یا دادا پردادا کی اولاد میں کوئی مرد؟ (۲) اگر ہے تو وہ وقت پر موجود تھا یا نہ تھا، اگر تھا تو خبر نکاح سن کر کچھ بات کی یا نہیں؟ اور اگر کی تو کیا کہا؟ (۳) ہندہ کس مہینے اور وقت میں بالغہ ہوئی، کیا گھنٹہ منٹ تھا؟ (۴) وہ کب سے دعوی فسخ کرتی ہے۔ اس کو کتنے دن ہوئے، کس مہینے تاریخ وقت میں اس دعوٰی کا لفظ منہ سے نکلا؟ (۵) جس سے نکاح ہوا وہ مذہب، نسل، چال چلن، پیشہ میں موافق ہے یا کم وبیش ہے تو کیا اور کس قدر؟ (۶) ہندہ کا نکاح یا رخصت اس کی ماں کی مرضی سے ہوئی یا بلا مرضی؟ ان سوالوں کا جواب آنے پرجوا ب دیا جائے گا۔
جواب سوالات (۱) ہندہ کا کوئی ولی مرد جیسا ارشاد ہوا زندہ نہیں۔ ازواج میں ماں ہندہ کی حیات ہے۔ (۲) اس وقت کوئی زندہ نہ تھا۔ (۳) ہندہ یکم شوال ۱۳۳۴ھ روزشنبہ کو بالغہ ہوئی بوقت ظہر قریب ڈھائی بجے کے گھڑی نہ تھی منٹ دیکھے جاتے۔ (۴) بالغہ ہونے کے دن یعنی یکم شوال ۱۳۳۴ھ روز شنبہ تین بجے دعوے کا لفظ منہ سے نکلا۔ (۵) زید مذہب میں اہل سنت حنفی مسلمان ہے۔ نسب اچھا ہے، پٹھان، اور چال چلن اور پیشہ میں بھی موافق۔ (۶) ہندہ کا نکاح سوتیلے والد کی اجازت سے ہوا ونیز رخصت، حالانکہ ماں کی مرضی نہ تھی مگر خاوند کے کہنے سے اور زبردستی سے۔
الجواب : اگر یہ بیانات واقعی ہیں اور ہندہ کی ماں نے کہ صورت مذکورہ میں وہی ولی شرعی ہے اس کے نکاح کی اجازت نہ دی، نہ بعد کو جائز کرنے کا کوئی لفظ کہا، نہ کوئی فعل ایسا کیا کہ دلیل اجازت ہو تو یہ نکاح نکاح فضولی ہوا، اور والدہ ہندہ کی اجازت پر موقوف تھا، اگرقبل بلوغ ہندہ ا س کی والدہ نے اس نکاح سے ناراضی اور اس پر انکار ظاہر کردیا توجبھی وہ نکاح باطل ہوگیا، اب ہندہ کو طلب فسخ کی حاجت نہیں، اور اگر والدہ ہندہ اب تک ساکت رہی تھی انکار نہ کیاتھا اگرچہ ناراض تھی تو ہندہ کے بالغہ ہوتے ہی وہ نکاح موقوف، اب خود اس کی اجازت پر موقوف ہوگیا، جب اس نے اس پر ناراضی ظاہر کی باطل ہوگیا، اور کسی دعوے کی ہندہ کو حاجت نہیں، اوراگروالدہ ہندہ قبل بلوغ ہندہ اسے قولاً یا فعلاً جائز کرچکی تھی اور وہ جائز کرنا شوہر کے جبر واکراہ شرعی سے تھا جب بھی ظاہر یہی حکم ہے کہ وہ اجازت اجاز ت نہ ہوئی، اور اگر بخاطر شوہر تھا اگرچہ وہ ناراض تھی تو اجازت یقینا صحیح ہوگئی او رنکاح نافذہوگیا، اب ہندہ کو صرف خیار بلوغ رہا اس لیے کہ حسب بیان سائل شوہر ہندہ ہندہ کا کفو ہے اس صورت میں ہندہ کو بالغ ہوتے ہی فوراً دعوٰی فسخ کرناتھا اس نے بالغہ ہونے کے آدھے گھنٹہ بعد دعوٰی کیا تو یہ دعوٰی نامسموع ہے اور نکاح لازم ہوچکا۔ اب ہندہ کے لیے اس میں کوئی چارہ کار نہیں
"وبعیدغایۃ البعد انھا لم تعلم بالنکاح الابعد البلوغ حین ادعت الفسخ"
(یہ انتہائی بعید ہے کہ کسی لڑکی کو بلو غ ہونے کے بعد دعوٰی فسخ کے وقت ہی نکاح کا علم ہوا ہو۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم