Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
64 - 1581
مسئلہ ۱۱۹:از راجپوتانہ کوٹہ محلہ رامپور متصل مسجد مومناں عبدالصمد ملازم بینڈباجہ دو شنبہ شوال المعظم ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں غیر مقلد شافعی ہیں یا نہیں؟ اور ہندہ بالغہ نو ماہ سے بیوہ ہے اور دو بچے بھی رکھتی ہے اپنے والدین کی بلا رضامندی وعدم موجودگی کے برضامندی ورغبت خود بلا خوف وترغیب کے زید حنفی سے خود قاضی کے مکان پر جا کر بہمراہی چند آدمی نکاح پڑھ لیا، پھول وشیرنی و نئے کپڑے وغیرہ پہنے نہیں گئے، دو گواہوں اور ایک وکیل اور قاضی نے ایجاب وقبول ارکان نکاح پورے طور پر ادا کردئےکیا یہ نکاح ناجائز ہے؟ اور بعد نکاح زید ہندہ نے مثل زن وشوہر کے ہمبستری کی اور صرف تین دن ہندہ زید کے پاس رہی اور اب ہندہ نکاح سے منکر ہے اور اپنے بچاوے کے لیے کہتی ہے کہ غیر مقلد ہوں۔ اور شافعی المذہب میں بغیر ولی کے  نکاح ناجائز ہے اس کے برخلاف قاضی ودوگواہ وکیل حلفیہ نکاح ہونا بیان کرتے ہیں، قاضی حلف سے یہ بیان کرتے ہیں کہ ہندہ نے نکاح کے پیشتر اس کے دریافت کرنے پر کہا تھا کہ میں سنت جماعت یعنی حنفی ہوں، اس کا یقین ہونے پر قاضی نے نکاح پڑھایا۔ کیا ہندہ کا کہنا نکاح کے ناجوازی کے لیے صحیح ہے؟ بینوا توجروا
 الجواب : غیر مقلد شافعی نہیں بلکہ اہل بدعت واہو ا واہل نارہیں،   طحطاوی علی الدرالمختار میں ہے:
فمن کان خارجا من ھٰؤلاء الا ربعۃ فی ھذہ الزمان فھو من اھل البدعۃ والنار ۱؎.
جو ان چاروں مذاہب سے خارج ہے اس دور میں تو وہ بدعتی اور جہنمی ہے (ت)
 (۱؎ حاشیہ طحطاوی علی الدرالمختار    کتاب الذبائح    دارالمعرفۃ بیروت    ۴/۱۵۳)
ہندہ نے جس سے نکاح کیا اگر وہ ہندہ کا کفو ہے یعنی مذہب نسب چال چلن پیشہ کسی بات میں ایسا کم نہیں کہ اس سے ہندہ کا نکاح اولیائے ہندہ کے لیے باعث ننگ و عار ہو تو بیشک نکاح صحیح ولازم ہوگیا، ہندہ کے انکار سے اب مٹ نہیں سکتا اگرچہ ہندہ واقع میں شافعیہ ہوتی،
خلاصہ ودرمختار میں ہے:
اذا سئل ماقول الشافعی فی کذاوجب ان یقول قال ابوحنیفہ کذا ۲؎۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
جب حنفی سے سوال کیا جائے کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالٰی کا اس مسئلہ میں قول کیا ہے توا سکو چاہئے کہ وہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول بتائے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۲؎ درمختار  باب العدۃ    مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۲۵۶)
مسئلہ ۱۲۰: نوضلع پرتاب گڑھ مانک پور ظہور حام چہار شنبہ ۲۲ شوال ۱۳۳۴ھ

زید محض غریب  آدمی ہے جائداد وغیر ہ کچھ نہیں رکھتا صرف پیشہ طبابت وغیر ہ سے کام چلتا ہے اپنی لڑکی کی شادی کرنا چاہتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مہرسوالاکھ روپے سے کم نہ ہوگا۔ عمر و جس کو لڑکی منسوب ہے و ہ اس سے بھی زیادہ غریب ہے غربت کی وجہ سے عمرو اس قدر دین منظور نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ میں محض غریب آدمی ہوں سوالاکھ روپیہ میں نے دیکھا بھی نہیں ہے۔ اس قدر مہر میں ہر گز قبول نہ کروں گا، غرضیکہ دریافت طلب یہ امر ہے کہ زیادتی اگرچہ غیر مستحسن ہے لیکن حیثیت کا کچھ لحاظ رکھنا ضروری ہے یا نہیں؟ شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حیثیت زوج کا کچھ لحاظ کیا ہے ایسی صورت میں کہ عمرو کی حیثیت سے کہیں زیادہ ہے نکاح سوالاکھ مہر پرکیسا ہوگا اور اگر ہوگیا تو حدیث شریف میں جو آیا ہے کہ اگر مہر ادا کرنے کی نیت نہ ہوئی تو زنا ہوگا اور لٖڑکے حرامی۔ اس کے خلاف ہوگا یانہیں؟ اور نکاح جائز ہوگا یا نہیں؟ فقط
الجواب: حیثیت کا لحاظ رکھنا مناسب ہے مگر نکاح ہرطرح ہوجائے گا اگرچہ نان  شبینہ کے محتاج پر تمام خزائن دنیا کے بر ابر مہر باندھا جائے مہر نکاح میں اصل نہیں ولہذا نفی مہرکے ساتھ بھی نکاح صحیح ہے مہر مثل لازم ہوگا اور جب رقم معین کردی اگرچہ کسی قدر کثیر تووہ ضرور ذمہ پر لازم ہوگی انسان اگرچہ بادشاہ ہفت اقلیم ہو اس کی حیثیت محدود ہے ذمہ کی وسعت محدود نہیں اگر محتاج محض ہو، حدیث میں فرمایا:
المال غاد ورائح
(مال صبح وشام آنے جانے والی چیز ہے۔ ت) وہ کہ جنھیں روٹی نصیب نہ تھی آنکھوں دیکھتے والی ملک ہوگئے، البتہ یہ ضرورہے کہ طرفین اسے دین سمجھیں اور شوہر نیت ادا رکھے، ایک صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ محض مفلس تھے، نکاح کیا، مہر کثیر کی درخواست کی گئی قبول فرمالی اور فرمایا:
علی اﷲ وعلی رسولہ المعال اﷲ
اورا س کے رسول پر بھروسہ ہے یعنی وہ عطافرمادیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
خود قرآن عظیم فرماتا ہے:
ولوانھم رضوا ما اتٰھم اﷲ ورسولہ قالوا حسبنا اﷲ سیئو تینا اﷲ من فضلہ ورسولہ انا الی اﷲ راغبون ۱؎۔
اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ راضی ہوتے اللہ ورسول کے دئے پر، اور کہتے ہمیں کافی ہے اب ہمیں دیتے ہیں اللہ ورسول اپنے فضل سے،بیشک ہم اللہ ہی کی طرف روئے نیاز لاتے ہیں۔
(۱؎ القرآن      ۹/۵۹)
ایسی حالت میں کوئی الزام بھی نہیں بلکہ نکاح نیت صحیحہ اور حاجت صادقہ کے ساتھ کیا گیا ہے تو حسب وعدہ صادقہ حدیث صحیح اللہ عزوجل اس دین کا ضامن ہے۔ امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک بار خطبہ میں مغالاۃ فی المھور یعنی حیثیت سے زیادہ مہر باندھنے پر انکار شدید فرمایا، حاضرین میں سے ایک بی بی اٹھیں آیہ کریمہ
"اٰتیتم احدٰھن قنطارا" ۲؎
(تم ان عورتوں کوڈھیر مال دیتے ہو۔ ت)
(۲؎ القرآن    ۴/۲۰)
تلاوت کی جس میں سونے کا ڈھیر عورت کے مہر میں مقرر کرنا جائز فرمایا گیا فوراً امیر المومنین نے انکار سے رجوع فرمائی اور بکمال تواضع فرمایا:
اللھم کل احد افقہ من عمر حتی المخدرات فی المحال ۳؎۔
اے اللہ! عمر سے ہر ایک زیادہ فقیہ ہے حتی کہ پردہ دار عورتیں بھی۔ (ت)
(۳؎ سنن الکبرٰی للبیہقی    باب لاوقت فی الصداق الخ    دارصادر بیروت    ۷/۲۳۳)
ہاں یہ ناجائز ہے کہ مہرباندھے اور ادا کی نیت نہ ہو اگرچہ اس کی حیثیت سے کتنا ہی کم ہو، اس کو حدیث میں فرمایا ہے کہ وہ حشر میں زانی وزانیہ اٹھائے جائیں گے، یہ  اس حدیث میں بھی نہیں کہ وہ شرعاً زانی زانیہ ہیں اور اولاد حرامی۔واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter