فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۱۱۵تا116: مسئولہ عنایت حسین خاں محرر تھانہ دوسہ علاقہ ریاست جے پور ملک راجپوتانہ ۲ ۱شعبان ۱۳۳۴ھ (۱) کیا نابالغ لڑکی برضامندی خود اور خلاف مرضی ولی جائز کے اپنا نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟ (۲) بالغہ برضامندی خود اور خلاف مرضی ولی جائز کے اپنا نکاح غیر کفو میں کرے تو وہ نکاح درست ہے یا نہیں؟ اور اگر ولی نے قبل از نکاح غیر کفو میں نکاح کرنے سے منع کردیا ہو اور پھر بھی کسی طرح پوشیدہ یا زبردستی کسی غیر کفو کے ساتھ لڑکی نے نکاح کرلیا ہو تو اس کے ولی کو اس نکاح کے تنسیخ کا اختیار ہے یا نہیں؟
الجواب (۱) ہرگز نہیں،ہاں ولی کے اذن سے کرسکتی ہے جبکہ سمجھ وال ہو یابطور خود کرے اور ولی بعد اطلاع اسے جائز کردے تو جائز ہوجائے گا، رد کردے تو باطل ہوجائے گا،
درمختار میں ہے:
الولی شرط صحۃ نکاح صغیر ۱؎ا لخ اقول الوجہ تقدیر النفاذ فان الموقوف من الصحیح غیر انہ اراد بالصحۃ النفاذ علی التبادر۔ واﷲ تعالٰی اعلم
نابالغ کے صحت نکاح کے لیے ولی شرط ہے الخ اقول اس کو درست کرنے کے لیے لفظ ''نفاذ'' مقدر ہے کیونکہ ولی کے بغیر نکاح موقوف ہوتا ہے جو کہ صحیح نکاح ہے مگر یہاں صحت سے مراد نفاذ ہے کیونکہ یہی متبادر ہے۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم
(۱؎ درمختار باب الولی مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۱)
(۲) شرع میں غیر کفو وہ ہے کہ نسب یا مذہب یا پیشے یا چال چلن میں ایسا کم ہو کہ اس کے ساتھ عورت کا نکاح اولیائے زن کے لیے باعث ننگ وعار ہو، ایسے شخص سے اگر بالغہ بطورخودنکاح کرے گی نکاح ہوگا ہی نہیں اگرچہ نہ ولی نے منع کیا ہو نہ اس کے خلاف مرضی ہو۔ یہ نکاح اس صورت میں جائز ہوسکے گاکہ ولی نے پیش از نکاح اس غیر کفو بمعنٰی مذکور کی حالت مذکورہ پر مطلع ہوکر دیدہ ودانستہ صراحۃً بالغہ کو اس کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت دے دی ہو، ان میں سے ایک شرط بھی کم ہو تو بالغہ کا کیا ہوا وہ نکاح باطل محض ہوگا اور ولی کو اس کے فسخ کرنے یا اس کا فسخ چاہنے کی کیا حاجت کہ فسخ تو جب ہو کہ نکاح ہولیا ہو، یہ تو سرے سے ہوا ہی نہیں۔
درمختار میں ہے :
یفتی فی غیر الکفو بعد م جوازہ اصلا ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم .
غیر کفو میں اصلا نکاح کے ناجائز ہونے کا فتوٰی دیا جائے گا۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم
(۱؎ درمختار باب الولی مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۱)
ہاں عوام کے محاورہ میں غیر کفو اسے کہتے ہیں جو اپنا ہم قوم نہ ہو مثلا سید و شیخ یا شیخ اور پٹھان یا پٹھان اور مغل، ایسا غیر کفو اگر اس شرعی معنی پرغیر کفو نہ ہو تو بالغہ کا بے اذن ولی بلکہ بناراضی ولی اس سے نکاح کرلینا جائز ہے اور ولی کو اس پر کوئی حق اعتراض نہیں۔ درمختار میں ہے:
نفذنکاح حرۃ مکلفۃ بلار ضی ولی ۲؎ واﷲ تعالٰی اعلم
عاقلہ بالغہ حرہ عورت کا نکاح ولی کی رضا کے بغیر بھی نافذ ہوتا ہے۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم
( ۲؎ درمختار باب الولی مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۱)
مسئلہ۱۱۷: آگر ہ چھاؤنی انجن گودام جی، آئی، پی، ریلوے بابو محمد نیاز خاں اسٹورس کلرک روز چہار شنبہ ۳ رمضان المبارک ۱۳۳۴ھ جنا ب مولوی احمد رضا خاں صاحب کو بعد سلام سنت اسلام ومحبت مشام آن کہ معلوم ہو کہ حضور کو میں تکلیف دیتا ہوں کہ اس مسئلہ میں علماء کیا فرماتے ہیں میرے ایک عزیز کا عقد ایک مسماۃ کے ساتھ ہوا اور اس مسماۃ کے والدین نے لڑکی کی رخصت ۵ ماہ کے بعد کی مگر اس درمیان میں ایک نقص مسماۃ کے بعد ۳ ماہ کے، خفیہ ظاہر ہوا ہے کہ مسماۃ کو سفید کوڑھ و برص کہتے ہیں وہ ہے۔ اور اس مسماۃ کے والدین سے دریافت کرنے پر اب ظاہر کیا ہے کہ کچھ شکم کا داغ ہے۔ اول نکاح کے ظاہر نہ کیا، اگر مسماۃ کو رخصت کرکے نہ لایا جائے اپنے گھر پر تو وہ مہر کی مستحق ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اور لڑکا اپنا خرچہ اس کے والدین سے لے سکتا ہے یا نہیں؟ فقط
الجواب: نکاح صحیح وتام ہوگیا، دو باتوں سے ایک فرض ہے یا بھلائی کے ساتھ رکھنا یا اچھی طرح چھوڑدینا، اگر قبل خلوت طلاق دی جائے گی آدھا مہر ساقط ہوجائے گا نصف واجب الادا ہوگا، شادی میں جو اٹھادیا، خرچ کردیا، اس کا تاوان کسی پرنہیں۔ ہاں جو زیور اور کپڑے چڑھاوے میں دئے ہوں اور عورت کو ان کا مالک کردینے کی وہاں رسم نہ ہو یہ تملیک نہ سمجھی جاتی ہو نہ تملیک کی ہو تو ان اشیاء کے واپس لینے کا شوہر کو اختیار ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۱۸: از جبلپور پریس انجمن محمد یوسف یکشنبہ ۱۹ شوال ۱۳۳۴ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین کہ ایک شخص حنفی المذہب نے اپنا نکاح قاضی شافعی المذہب یا اہلحدیث غیر مقلد سے بموجب قاعدہ احناف پڑھوایا، پس اس کا نکاح جائز ہوا یا نہیں؟ اور بصورت ناجائز ہونے نکاح حسب خیال مؤلف فتح المبین تجدید نکاح کی ضرورت ہے۔ بینوا توجروا۔
الجواب : اگر کوئی واقعی شافعی المذہب ہے تو شافعیہ مثل ہمارے اہلسنت ہیں اس میں توکوئی حرج ہی نہیں جبکہ اس نے نکاح ایسے طور پر نہ پڑھا یا ہو کہ وہ مذہب حنفی میں صحیح نہیں اور غیر مقلدین صرف تارک تقلید نہیں بلکہ ان کا مذہب بہت عقائد کفریہ پرمشتمل ہے جس کی قدرے تفصیل الکوکبۃ الشھابیۃ میں ہے۔ نکاح پڑھوانا ایک تو بطور رسم ہوتا ہے جیسے نکاح خواں قاضی مقرر ہوتے ہیں یوں پڑھوایا اور اس نے حنفی مذہب کے طورپر صحیح پڑھایا تو تجدید نکاح کی حاجت نہیں۔ اورایک نکاح پڑھوانا بطور تعظیم ہوتا ہے کہ اس کو معظم اور متبرک سمجھ کر اس سے پڑھواتے ہیں، اگر یوں پڑھوایا اور اس کو غیرمقلد نہ جانتا تھا کہ وہابیہ میں تقیہ بکثرت ہے تو یوں بھی تجدیدنکاح کی ضرورت نہیں جبکہ اس نے صحیح طورپر پڑھایا ہو، اور اگر غیر مقلد جان کراسے معظم ومتبرک سمجھا اور اس سے نکاح پڑھوایا تو نہ فقط تجدید نکاح بلکہ تجدید اسلام کی بھی حاجت ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔