Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
62 - 1581
مسئلہ ۱۰۹ تا ۱۱۱: از گونڈل کاٹھیاواڑ مسئولہ جناب سیٹھ عبدالستار بن اسمعیل رضوی تاریخ ۷ ۱ رجب المرجب ۱۳۳۴ھ روز شنبہ

(۱) یہاں پر یہ رواج ہو چلا ہے کہ وقت نکاح وکیل کے ہمراہ دو گواہ نہیں جاتے ہیں اور قاضی وکیل کی وکالت اور حاضرین کی شہادت سے نکاح پڑھادیتا ہے آیا یہ امر عند الشرع محمود ہے یا مردود؟ نیز اس ترکیب سے مذہب حنفی میں نکاح صحیح ہوجائے گا یا نہیں؟ وکیل کو اپنے ساتھ دو گواہ کا رکھنا اور ان شاہدوں کو عورت کی اجازت سننا ضروری ہے یا نہیں: اگر اس طرح نہ کرکے برطریق ان مروجہ پر مدام عمل کرنے پر سب گنہ گار ہیں یا نہیں؟
الجواب : وکیل کے ساتھ  شاہدوں کی حاجت کچھ نہیں، اگر واقع میں عورت نے وکیل کو اذن دیااور اس نے پڑھادیا نکاح ہوگیا، ہاں اگر عورت انکار کرے گی میں نے اذن نہ دیاتھا تو حاکم کے یہاں گواہوں کی حاجت ہوگی، یہ تو کوئی غلطی نہیں۔ہاں یہ ضرور غلطی ہے کہ وکیل ہوتا ہے کوئی اور۔ نکاح پڑھاتا ہے دوسرا، مذہب صحیح وظاہر الروایہ میں وکیل بالنکاح دوسرے کو وکیل نہیں بنا سکتا، اس میں بہت دقتیں ہیں جن کی تٖفصیل ہمارے فتاوی میں ہے۔ لہذا یہ چاہئے کہ جس سے نکاح پڑھوانامنظور ہے اس کے نام کی اجازت لی جائے یا اذن مطلق لے لیا جائے واللہ تعالٰی اعلم

(۲) نوشہ کا وقت نکاح سہرا باندھنا نیز باجے گاجے سے جلوس کے ساتھ نکاح کوجانا شرعا کیاحکم رکھتا ہے؟
الجواب : خالی پھولوں کا سہرا جائزہے اور یہ باجے جو شادی میں رائج ومعمول ہیں سب ناجائز وحرام۔ واللہ تعالٰی اعلم

(۳) ولیمہ شریف کا کھانا کھلانا شریعت مطہر ہ کے کس حکم میں داخل ہے۔، اس کا تارک کیسا ہے؟ نیز جس شہر کے لوگوں میں سے کوئی بھی بعد نکاح ولیمہ نہ کرتا ہو بلکہ پہلے نکاح کے اول روز جس طرح کہ رواج ہے کھلادیتا ہو تو ان سب لوگوں کے لیے شریعت نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کاحکم شریف کیا ہے؟
الجواب : ولیمہ بعدنکاح سنت ہے اس صورت میں صیغہ امر بھی وارد  ہے، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا "اولم ولو بشاۃٍ"  ولیمہ کر اگرچہ ایک ہی دنبہ یا اگرچہ ایک دنبہ، دونوں معنی محتمل ہیں، اور اول اظہر تارکان سنت ہیں۔ مگر یہ سنن مستحبہ سے ہے۔ تارک گناہ گار نہ ہوگا اگر اسے حق جانے واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ صحیح بخاری    باب الصفرۃ للمتزوج    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/۷۵ ۔۷۷۴)
مسئلہ ۱۱۲: ا ز ضلع ھزاری باغ، ڈاکخانہ چترپور مقام چتر پور، مسئولہ محمد عبدالرب صاحب روز پنجشنبہ ۲۲ رجب ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین رحمہم اللہ تعالٰی اجمعین اس مسئلہ میں کہ زید کی بی بی نے بحالت شیرخوارگی اپنے بیٹے عمرو کے اندر مدت رضاعت کے بکر کو دودھ پلایا، بعدہ زید کی بی بی سے تین لڑکے مسمیان محمد سعید و محمد فاضل ومحمد سلیم تولد ہوئے تو اب بکر کی لڑکی سے محمد سلیم جو برادر حقیقی عمر وکا ہے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ بحوالہ وبدرج عبارات کتب معتبرہ حنفیہ ار شاد ہو۔
الجواب : بکر کی لڑکی زوجہ زید کی اگلی پچھلی سب اولاد کی حقیقی بھتیجی ہے اور باہم مناکحت حرام قطعی۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۱۳: مسئولہ جناب عبدالستار بن اسمعیل صاحب از شہر گونڈل علاقہ کاٹھیا واڑ یک شنبہ ۹ شعبان ۱۳۳۴ھ

بعض لوگ اپنی لڑکیاں اس ملک میں ہزار دوہزار  روپیہ لے کر کفو یا غیر کفو سے نکاح کردیتے ہیں اس میں بعض وقت عمر کا بھی خیال نہیں رکھتے یعنی جو شخص زائد رقم دے اس سے نکاح کردتیے ہیں، آیا ایسی رقم کا لینا والدین کے حق میں مباح ہے یانہیں اگرچہ والدین غریب ہوں اور اس طرح یہ رقم لے کرغیر کفو یابڑی عمروالے کے ساتھ نکاح کردینا درست ہے یا نہیں؟
الجواب :مال کے سبب اپنی اولاد کانکاح غیر کفو سے اس کے حق میں بد خواہی ہے، اور یہ روپیہ رشوت میں داخل ہے۔ فتاوٰی خیریہ میں اس  جزئیہ پر بحث فرمائی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۴:ـ مسئولہ عابدخاں،معرفت منشی خدا بخش صاحب ٹھیکدار صدر بازار بریلی دوشنبہ ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین وشرع متین اس بارے میں کہ زید بکر کا چچا زاد بھائی ہے اور رضاعی بھی، زید کے صرف ایک حقیقی چھوٹا بھائی ہے اور بکر کے ایک چھوٹا بھائی اورایک بڑی بہن جو کہ حقیقی ہیں اور بکر کی بہن دونوں بھائیوں سے چھوٹی ہے، تو زید کے چھوٹے بھائی کا نکاح بکر کی چھوٹی بہن سے جائز ہے  یانہیں؟ چونکہ زید اور بکر آپس میں رضاعی بھائی ہیں۔
الجواب : بکرنے اگر زید کی ماں کا دودھ پیا ہے تو زید اور اس کا بھائی بکر کے بھائی ہوئے نہ کہ خواہر بکر کے اور اگر زید نے بکر کی ماں کا دودھ پیا ہے تو یہ خواہر بکر کا بھائی ہو ا نہ کہ زید کا بھائی، بہرحال زیدکے بھائی اوربکر کی بہن میں نکاح جائز ہے لقولھم تحل اخت اخیہ رضاعاً (فقہاء کے قول کے مطابق بھائی کی رضاعی بہن حلال ہے۔ ت)
Flag Counter