Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
61 - 1581
مسئلہ ۱۰۷: مرسلہ جناب ولی محمد صاحب بیتاب مدرس سرشتہ تعلیم ریاست ہلکراندور بمبئی بازار

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کہ ہندہ ایک کمسن لڑکی کا نکاح اس کے دادا نے ایک نہایت ہی کمسن لڑکے زید سے کردیا، ہندہ اس وقت بالکل بالغہ ہے مگرزید نابالغ، کم از کم پانچ بر س اس کی بلوغت کو درکار ہیں، ہندہ اور زید میں زن وشوہر کا تعلق ہونا کیامعنی بلکہ ہندہ کی آج تک اپنے میکہ سے رخصتی ہی نہیں ہوئی، زید کے یہاں زید کے والد کی حین حیات سے جس کا انتقال یکایک ہوگیا اور گومشتبہ مگر اب تک نامعلوم کسی نہ کسی وجہ سے اس سانحہ کی خبر زید کے چچاتک کونہ دی گئی تھی ایک پردیسی نوجوان ملازم چلا آتا ہے زید کے والدمشتبہ جوانا مر گ کے بعد اس ملازم نے زیدکے مکان میں وہ رسوخ حاصل کیا کہ ہر سیاہ وسفید وہی کرتاہے اورا س کے چوبیس گھنٹہ اس مکان میں رہنے سے جہاں کوئی دوسرا بالغ مرد بطور رکن خاندان کے نہیں رہتاہے زید کے خاندان کو ایک زمانہ حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور درپردہ مورد  اتہام ہے۔ زید کے چچا نے سانحہ مذکورہ بالا سے متعجب ہوکر اس ملازم کے گز شتہ چال چلن کی نسبت جو تحقیقات کی تومعلوم ہو اکہ ابتداء سے یہ ایک آوارہ چلن شخص ہے حتی کہ ا سے والدین نے بھی اس کو مکان سے نکال دیاتھا اس کے بعد وہ عرصہ تک ناٹکوں میں ناچتا رہا گاتا رہابجاتا رہا، اس تحقیق کے بعدمتاثر ہو کر زید کے چچا نے جو زید کاجائز طور سے سرپرست ہے زیدکی والدہ سے درخواست کی کہ اس  ملازم کو مکان سے علیحدہ کر دیا جائے۔ مگر زید کی والدہ نے یہ جواب دیا کہ ہرگزنہیں ہوسکتا چاہے کچھ بھی ہو، نہ ملازم مجھ سے نہ میں ملازم سے جدا ہوسکتی ہوں، ان تمام وقوعات سے ہندہ بخوبی واقف ہے، وہ سسرال جانے سے خودکی عصمت دری اورآبرو ریز ی کے خوف کے علاوہ اپنی جان معرض خطرہ میں سمجھتی ہے اس لیے سسرال ہرگز نہیں جانا چاہتی بلکہ اپنے خاندان کے حفظ آبرو کے لحاظ سے تفریق کے بعد دوسرا نکاح کرلینا چاہتی ہے۔ اس صورت میں ہندہ کے  لیے کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا
الجواب : ہندہ کا باپ اگر نہیں اوردادا نے نکاح کردیا اور ہندہ وقت نکاح نابالغہ تھی گوا ب بالغہ ہے یا بالغہ تھی اس سے اذن لے کرنکاح کیا یا بے اس کی اجازت کے نکاح کیا مگر بعد وصول خبراس نے اجازت دی یا دادا آپ اذن لینے آیا تھا اور ہندہ نے سکوت کیا، تو ان سب صورتوں میں نکاح منجانب ہندہ لازم ہوگیا، اس کافسخ ناممکن ہے۔ تفریق ہوتو موت یا طلاق سے، اور نابالغ کی طلاق باطل ہے۔ نہ اس کی طرف سے اس کا کوئی ولی طلاق دے سکے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۰۸: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متن اس مسئلہ میں کہ بارہ برس ہوئے کہ زید کا نکاح ہندہ سے ہوا لیکن ہندہ نے بوقت نکاح زبان سے ایجاب نہیں کیا تھا، نہ انکار کیا بلکہ سکوت اختیار کیا، ایک دوسری عورت نے جو عروس کے پاس موجود تھی وکیل سے یہ کہہ دیاتھا کہ ہندہ منظور کرتی ہے۔ ہندہ کا بیان ہے کہ اس وقت میں بالکل خالی الذہن تھی نہ میرے دل میں اقرار تھا نہ انکار کا خیال بلکہ دوسرے خیالات رنج وغم ونئی زندگی شروع ہونے کے ترددات میں مبتلا تھی، دریافت طلب یہ ہے کہ آیا یہ نکاح شرعاً درست ہو ا یا نہیں، تو زید وہندہ کو مواخذہ و عقبٰی سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہئے؟بینوا توجروا مزید عرض ہے کہ جواب جلد مرحمت ہو کیونکہ ہندہ مواخذہ عقبی کے خیال سے نہایت خائف وترساں ہے۔ فقط
الجواب : ہندہ سے اذن لینے کون آیا تھا وہ سب سے قریب تر ہندہ کا ولی یا اس ولی کا بھیجا ہوا یا کون تھا؟ ہندہ کی رخصت ہوئی یا نہیں؟ قبل رخصت ہندہ کے کسی قول یافعل سے اس نکاح کی خبر سن کر اظہار ر غبت یانفرت ہوا یا نہیں؟ ان تمام باتوں کی تفصیل پر جواب دیاجائے گا ان شاء اللہ تعالٰی۔
جوابات امور مستفسرہ
ہندہ کے والد کے چچا زاد بھائی یعنی ہندہ کے رشتہ کے تایا اذن لینے گئے تھے، یہ یاد نہیں کہ اس وقت کس نے

انھیں اس کام پر متعین کیا تھا، بالعموم ایسے بزرگ خاندان جن سے لڑکی پر دہ نہ کرتی ہو بھیجے جاتے ہیں۔چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا، ہندہ کاباپ ا س شہر میں موجود نہ تھا، اس نے ہندہ کے ماموں کو اس نکاح کے مراسم وتقریبات ادا کرنے کے لیے بذریعہ خط مامور کیاتھا یہ کہا جاسکتا ہے اذن لینے کے لیے ہندہ کے ماموں ہی نے وکیل کو متعین کیا ہوگا درحقیقت یہ یاد نہیں، رخصت اس ہفتہ میں ہوگئی کوئی امر ہندہ کی رغبت ورضامندی کے خلاف نہ اس وقت نہ آج تک بارہ برس گزرنے کے بعد تک کوئی امر ایسا ظہور پذیر نہ ہوا جس سے ہندہ کی نارضامندی ظاہر ہو بلکہ ایسا کمال اتحاد سے زن وشوبسر کرتے ہیں یہ سوال صرف ہندہ کے اس توہم کی بناپر پیداہوتاہے کہ مباد انکاح صحیح نہ ہوا ہو اور عنداللہ مواخذہ باقی رہے اس کا اطمینان مقصود ہے۔
الجواب : اگر صورت واقعہ یہ ہے کہ اگر چہ ازانجاکہ اذن لینے والا ولی اقرب نہ تھا ہندہ کا سکوت اذن نہ ٹھہرے اور وہ نکاح نکاح فضولی ہوااور ہندہ کی اجازت پرموقوف رہا، مگر جبکہ پیش از رخصت ہندہ سے کوئی قول وفعل ایسا واقع نہ ہوا جس سے ہندہ کا اس نکاح سے ناراض ہونا سمجھا جاتا اور ہندہ برضا ورغبت ہو کر شوہر کے یہاں آتی تووہ نکاح موقوف نافذ و تام ہوگیا، ا س میں کوئی اندیشہ مواخذہ کا نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter