Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
60 - 1581
مسئلہ ۱۰۴: مرسلہ عنایت اللہ خاں صاحب موضع سسونہ ضلع رامپور ۷ رجب المرجب ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ا س مسئلہ میں کہ ایک لڑکی نابالغ کے والدین نے اپنی برادری میں ایک نابالغ لڑکے سے نبست یعنی منگنی کردی، کچھ عرصہ کے بعد لڑکی کا باپ فوت ہوگیا اس کی ماں نے بوجہ تنگی معاش بلا نکاح اس لڑکے نابالغ کے باپ کو بلاکررخصت کردیا جس کے ساتھ نسبت ہوچکی ہے۔ اس نے اپنے مکان پر لے جاکر نکاح اپنے پسر نابالغ کے ساتھ پڑھوالیا، اب کچھ عرصہ بعد اس کی ماں لڑکی کو رخصت کرالائی اوردوسری جگہ نکاح کردیا جس کو اب پانچ یا چھ سال ہوچکے ہیں اب وہ شخص جس سے  پہلے نکاح ہوا تھا دعویدار ہے کہ میرے ساتھ رخصت کرائی جاوے میری منکوحہ ہے۔ ماں لڑکی کی پہلے نکاح سے انکار کرتی ہے اورلڑکی بھی پہلے نکاح  سے بے خبری بیان کرتی ہے۔ رخصت کرنے کا اور ا س کی منگنی کا ماں اقرار کرتی ہے جس سے اس وقت اجازت نکاح قرینہ سے پائی جاتی ہے گو کہ اب انکار کرتی ہے، لہذا ایسی صورت میں بموجب شرع شریف جو حکم صادر ہو فرمائے کہ نکاح اول کاصحیح رہایا دوسرے کا؟ کیونکہ بموجودگی ولی صرف رخصت کردینا اجازت نکاح ولی کی جانب سے کسی فضولی کو نکاح کرنے کے لیے کافی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ وہ نکاح یعنی نابالغی میں ہوا تھا اور دوسرا نکاح بالغ ہونے پر۔ اس پر عورت بھی راضی ہے۔
الجواب : جس نابالغٖ کا کوئی عصبہ ہو یعنی اس کے دادا پرداد ا کی اولاد کا قریب تر مرد ہو وہ اس کے نکاح کا ولی ہے۔ اس کے ہوتے ماں کو بھی اختیار نہیں وہ نکاح کہ لڑکے کے باپ نے پڑھوالیا اجازت ولی پر موقوف تھا،عصبہ ہو تو وہ ورنہ ماں۔ اگر ولی کی اجازت ہوگئی تھی اورلڑکا اس کا کفو تھا یعنی مذہب یا نسب یاپیشہ یا چال چلن میں کسی بات میں کم نہ تھا،کہ ا س سے نکاح ولی کے لیے باعث ننگ وعار ہو نکاح پہلاصحیح ہوگیا اور دوسراباطل ہے۔ ورنہ دوسرا صحیح ہوگیا، اور پہلا باطل ہے
لان البات اذاطرء علی موقوف ابطلہ
(کیونکہ قطعی حکم جب موقوف حکم پر آجائے تو وہ موقوف کو باطل کردیتا ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم،
مسئلہ 105تا106: مرسلہ عبدالسلام صاحب پوسٹ ماسٹر ڈاکخانہ دوسہ راج جے پور ۹ رجب المرجب ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین صورہائے مندرجہ ذیل میں:

(۱) لڑکی کَے بر س کی عمر میں بالغ شمارہوتی ہے اگر بالغہ برضائے خود کسی کے ساتھ نکاح کرے تو وہ شرعا درست ہے یا نہیں؟

 (۲) زید نابالغ العمر ۱۱ سال جو ہندہ اور خالد کے حقیقی تایا کالڑکا ہے وہ بولایت بکرکے جو زید کا چارپشت کے فاصلہ سے چچا ہوتا ہے ہندہ بعمر ۱۸ سال اور حقیقی برادر ہندہ سے خالد بعمر ۱۵ سال کے ولایت کا بمقابلہ ہندہ خالد کے حقیقی نانی کے مدعی ہے۔ شرعاً زیدکا یہ دعوی  صحیح ہے یانہیں یعنی ہندہ اور خالد کی ولایت اس صورت حقیقی نانی کو پہنچتی ہے یا زید نابالغ تایا زاد بھائی کویا بکر کو جو چارپشت کے فاصلہ سے چچا ہوتا ہے؟
الجواب

(۱) لڑکی کم از کم نو بر س میں اور زیادہ سے زیادہ پندرہ بر س کی عمرمیں بالغہ ہوتی ہے اس بیچ میں جب آثار بلوغ ظاہرہوں بالغہ ہے ورنہ پندرہ سال پورے ہونے پر حکم بلوغ دیا جائے گا اگرچہ آثار بلوغ کچھ نہ ظاہر ہوں ، بالغہ بے اذن ولی خود اپنا نکاح کرسکتی ہے مگر کفو میں، یعنی جس سے نکاح کرے وہ مذہب یا نسب یا پیشہ یا چال چلن میں اس سے ایسا کم نہ ہو کہ ا س کے ساتھ نکاح ہونا اس کے ولی کے لیے باعث ننگ وعار ہو، اگر غیر کفو سے برضا ئے خود نکاح کرے گی او رولی رکھتی ہے اور اس نے پیش از نکاح غیر کفو جان کر بالتصریح اجازت نہ دی تو نکاح اصلاً نہ ہوگا ہاں اگر کوئی ولی نہیں رکھتی یا ولی نے پیش از نکاح شوہر کو غیر کفو جان کر بالتصریح اجازت دی تو اس سے بھی نکاح صحیح ہوجائے گا۔

(۲) خالد کی جب عمر پندرہ سال کامل ہے تووہ شرعا بالغ ہے اور اپنے نفس کا خود ولی ہے کسی ولی کا محتاج نہیں، اور ہندہ کہ اٹھارہ سال عمر رکھتی ہے اس پر ولایت جبر کسی کو نہیں کہ خود بالغہ ہے اور ولایت غیر مجبرہ اس کے بھائی کو ہے اس کے ہوتے نانی یابکر کوئی چیزنہیں، اور زید نابالغ کو دوسرے کا ولی بنانا جنون ہے نابالغ کسی کا ولی نہیں ہوسکتا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter