ذکر البیھقی رحمہ اﷲ تعالٰی فی کتابہ رجل وامرأۃ لیس بینھما نکاح اتفقا ان یقرا بالنکاح فاقرا لم یلزمھما قال لان الاقرار اخبار عن امرمتقدم ولم یتقدم وکذالک فی البیع اذا اقرا ببیع لم یکن ثم اجاز لم یجز ۳؎۔
بیہقی رحمہ اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ کسی مرد و عورت میں پہلے نکاح نہیں ہے اب انھوں نے بالاتفاق نکاح کا اقرار کرلیا توا س اقرار سے نکاح نہ ہوگا کیونکہ اقرار پہلے ثابت شدہ چیز کی خبر ہوتی ہے جبکہ اقرار سے قبل ان کا نکاح نہیں تھا، اس طرح خرید وفروخت کامعاملہ ہے کہ دو فریقوں نے بیع کا اقرار کیا حالانکہ پہلے بیع نہ تھی تو اس اقرار سے بیع منعقد نہ ہوگی۔ (ت)
نوازل میں مذکور ہے کہ مرد وعورت نے گواہوں کے سامنے یہ اقرار فارسی میں کیا کہ ''ہم بیوی خاوند ہیں'' تو اس سے نکاح منعقد نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر مرد نےایک عورت کے بارے میں کہا کہ یہ میری بیوی ہے اور اس عورت نے بھی کہا کہ یہ میرا خاوند ہے تو اس سے نکاح منعقد نہ ہوگا۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی خانیہ کتاب النکاح نولکشور لکھنؤ ۱/۱۴۹)
فتاوٰی امام علامہ حسین بن محمد سمعانی میں ہے:
اقرا بالنکاح بین یدی الشہود فقال مازن وشوئیم لاینعقد ھوالمختار لان النکاح اثبات والاظھار غیر الاثبات ولھذا لواقربالمال لانسان کاذبا لایصیر ملکا خ (یعنی الخلاصۃ) ولو قال الرجل ھذہ امرأتی وقالت المرأۃ ھذا زوجی بمحضر من الشہود لایکون نکاحا لان الاقرار اخبار عن امر متقدم ولم یتقدم ۲؎ (س) (ای فتاوٰی اھل سمر قند)۔ (ملخصاً)
مرد وعورت نے گواہوں کے سامنے کہا کہ ہم بیوی خاوند ہیں تونکاح نہ ہوگا، یہی مختار ہے، کیونکہ نکاح اثبات کا نام ہے، اور اقرار اثبات نہیں ہوتا بلکہ اظہار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی نے کسی دوسرے کے لیے اپنے مال کا جھوٹا اقرار کیا تو دوسرے کے لیے ملکیت ثابت نہ ہوگی، خ (یعنی خلاصہ) اگر کسی مرد نے کسی عورت کے متعلق کہا یہ میری بیوی ہے اور عورت نے کہا یہ میرا خاوند ہے، تو گواہوں کے سامنے اس اقرار سے نکاح نہ ہوگا کیونکہ اقرار پہلے سے موجود چیز کے بارے میں خبر ہوتی ہے جبکہ یہاں نکاح موجود نہیں ہے، س (فتاوٰی سمرقند)۔ (ت)
(۲؎ خزانۃ المفتین کتاب النکاح قلمی نسخہ ۱/۷۶)
متن مولٰی غزی وشرح محقق علائی میں ہے:
لاینعقد بالاقرار علی المختار خلاصۃ کقولہ ھی امرأتی الاقرار اظھار لما ھو ثابت ولیس بانشاء۳؎ الخ وسیأتی تمامہ۔
محض اقرار سے نکاح نہ ہوگا مختار قول پر، خلاصہ۔جیسا کہ کوئی شخص کہے کہ یہ میری عورت ہے، تو اس اقرار سے نکاح نہ ہوگا کیونکہ اقرار ثابت شدہ چیز کے اظہار کا نام ہے اور یہ انشاء نہیں ہوتا الخ یہ مکمل آئندہ آئے گا۔ (ت)
(۳؎ درمختار کتاب النکاح مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۸۵)
فتاوٰی ہندیہ میں عبارت خلاصہ ھوالمختار (یہی مختار ہے۔ ت) تک نقل کی، پھر لکھا:
لوقال این زنِ من ست بمحضر من الشہودو قالت المرأۃ ایں شوئی من است ولم یکن بینھما نکاح سابق اختلف المشائخ فیہ والصحیح انہ لایکون نکاحا کذا فی الظھیریۃ وفی شرح الجصاص المختار انہ ینعقد اذا قضی بالنکاح اوقال الشھود لھما جعلتما ھذانکاحا فقال نعم ینعقد ھکذا فی مختار الفتاوی۱؎ اھ۔
اگر کسی نے گواہوں کے سامنے کہا یہ میری بیوی ہےاور عورت نے کہا کہ یہ میرا خاوند ہے حالانکہ ان کا پہلے نکاح نہیں تھا، تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے جبکہ صحیح یہی ہے کہ نکاح نہ ہوگا، ظہیریہ میں اسی طرح ہے۔ اور جصاص کی شرح میں ہے کہ اگر قاضی نے نکاح کا فیصلہ دیا یا مردوعورت کو گواہوں نے کہا کہ تم نے ان الفاظ کو نکاح بنادیا تو ا نھوں نے جواب میں ہاں کہہ دیا تو مختار یہ ہے کہ نکاح منعقد ہو جائیگا، مختار الفتاوٰی میں ایسے ہی ہے۔ اھ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب النکاح الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۷۲)
اقول وجہ الانعقاد فی الاول ان القضاء یرفع الخلاف او انہ ینفذ ظاھراوباطنا وفی الثانی ان السؤال معاد فی الجواب والجعل انشاء کمافی الفتح والدر وغیرھا۔
اقول (میں کہتا ہوں۔ ت) قاضی کے فیصلے کی صورت میں نکاح ہوجانے کی وجہ یہ ہے کہ حکم قاضی رافع خلاف ہے اور قضا ظاہراً اور باطناً نافذ ہوتی ہے اور دوسری صورت میں انعقاد کی وجہ سے کہ جواب، سوال پر مشتمل ہوتا ہے تو سوال میں نکاح بنانے کا ذکر ہے توجواب میں بھی بنانے کے ذکر سے نکاح کا انشاء ہوگیا، جیسا کہ فتح اور دُر وغیرہ میں ہے۔ (ت)
فتاوٰی علامہ برہان الدین بن ابی بکر بن محمد اخلاطی حسینی میں ہے:
اقرا بالنکاح بین یدی الشہود بقولھما مازن وشوئیم لاینعقد، ھوالمختار، قال بحضور الشھود ھذہ المرأۃ زوجی فقالت ھذاالرجل زوجی ولم یکن بینھما نکاح سابق لاینعقد ھوالصحیح وعلیہ الفتوی ۲؎۔
دونوں نے گواہوں کے سامنے اقرار کیا کہ ہم بیوی خاوند ہیں تو اس سے نکاح نہ ہوگا یہی مختار ہے مرد نے گواہوں کے سامنے کہا یہ میری بیوی ہے اورعورت نے بھی گواہوں کے سامنے کہا یہ میرا خاوند ہے تو اس سے نکاح نہ ہوگا جبکہ پہلے نکاح نہ تھا یہی صحیح ہے اور اس پر فتوٰی ہے۔ (ت)
(۲؎ جواہر اخلاطی کتاب النکاح فصل فیما ینعقد النکاح من الالفاظ قلمی نسخہ ص۴۸)
بالجملہ اخبار وانشا کا تبائن بدیہی تو ارادہ اخبار ارادہ منافی اور ارادہ منافی عقد کا نافی۔
اقول وبتقریری ھذا اندفع ماعسٰی ان یتوھم من ان النکاح مما یستوی فیہ الھزل والجد فلایحتاج الی نیۃ وقصد حتی لو تکلما بالایجاب والقبول ھازلین اومکرھین ینعقد فکان المناط مجرد التلفظ وان عدم القصد وذلک لان بوناً بیناً بین عدم القصد وقصد العدم بارادۃ شیئ اٰخرغیرہ مما یحتملہ اللفظ ومالایحتاج الی القصد یصح مع الاول دون الاٰخرا لاتری انہ لوقال انت طالق ولم ینو شیأ طلقت وان نوی الطلاق عن الوثاق اوالاخبار عن طلاق سابق صادقا او کاذبالم تطلق دیانۃ کما نصوا علیہ اتقن ھذا فانہ ھو التحقیق الحقیق بالقبول وان خفی بعضہ علی بعض الفحول، علی ان ھذا انما ھو فی اللفظ الصریح اما الکنایات فلاشک فی توقفھا علی النیۃ کما فی الطلاق والعتاق۔
اقول (میں کہتا ہوں۔ ت) میری اس تقریر سے اس شبہ کا ازالہ ہوگیا جس میں کہا گیا کہ نکاح تو ان امور میں سے ہے جن میں مذاق اور قصد برابر ہیں لہذا اس میں قصد اور ارادہ کی ضرورت نہیں حتی کہ جب مرد و عورت نے ایجاب قبول کے کلمات بول دئیے اگرچہ مذاق یا جبر سے کہے ہوں تونکاح ہوجا ئے گا اس کی صحت کے لیے صرف الفاظ کی ادائیگی کافی ہے اگرچہ قصد نہ بھی ہو (لہذا بصورت اقرار نکاح صحیح ہونا چاہئے) اس شبہہ کے ازالہ کی وجہ یہ ہے کہ قصد نہ ہونا اور بات ہے اور نکاح کے خلاف کسی محتمل لفظ کا قصد کرنا اور بات ہے، ان دونوں میں بڑا فرق ہے، وہ امور جو قصد کے بغیر ہوجاتے ہیں وہ پہلی صورت یعنی قصد نہ ہونے کی صورت میں صحیح ہوجاتے ہیں۔ مگر کسی مخالف چیز کے قصد سے وہ صحیح نہیں ہوتے ۔ آپ دیکھئے کہ طلاق کا لفظ بغیر ارادہ کے بولا جائے توطلاق ہوجاتی ہے لیکن اگر یہی لفظ طلاق بول کر کسی دوسرے معنٰی کا ارادہ کیا جائے مثلاً طلاق بول کر باندھے ہوئے کو کھولنا مراد لیا جائے یا انت طالق کہہ کر پہلی دی ہوئی طلاق کو سچی یا جھوٹی خبر اور حکایت کا قصد وارادہ کیا جائے تو دیانۃً یعنی عنداللہ طلاق نہ ہوگی جیسا کہ فقہاء کرام نے اس کو واضح بیان کیا ہے۔ اس فرق کو محفوظ کرو کیونکہ یہ تحقیق قابل قبول ہے۔ اگرچہ یہ قدرے بعض بڑی شخصیات پر مخفی رہا ہے، تاہم یہ بیان صریح الفاظ کے متعلق ہے لیکن کنایہ کے الفاظ بہر حال نیت کے محتاج ہیں، جیسا کہ طلاق وعتاق میں صریح وکنایہ کا فرق موجود ہے۔ (ت)