فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۹۳: مسئولہ نور احمد ٹھیکدار از مقام پیلی بھیت چنددی لہکڑ ہ پار روز شنبہ ۱۰ ربیع الآخر ۱۳۳۴ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین وشرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو طلاق دی، دو تین روز کے بعد دوسرے شخص نے نکاح کرلیا، ابھی عدت گزری نہیں ہے۔ آیا ا س کا نکاح ہوا یا نہیں؟ اگر نکاح نہیں ہوا تو تیس برس تک اس نے حرام کیااور حرام کا مرتکب ہوا، اب ہم برادری والے اس پر جرمانہ ڈالنا چاہتے ہیں، شریعت اس میں کیا حکم لگاتی ہے اور ہم لوگ کون سی اس کو سزادیں، جو حکم شریعت کرے اس کوہم سزادے دیں، آیا اس کو برادری سے علیحدہ کردیں یا کچھ لوگوں کو کھانا کھلوادیں، اس کا حکم حضور جلد روانہ فرمادیجئے کیونکہ یہاں پر جھگڑا پڑا ہوا ہے۔ فقط
الجواب : وہ نکاح نہیں ہوا، حرام محض ہوا، ان مرد وعورت پر فرض ہے کہ فوراً جدا ہوجائیں، نہ ہوں تو برادری والے ان دونوں کو قطعاً برادری سے خارج کردیں، ان سے بول چال، میل جول۔ نشست وبرخاست سب یک لخت ترک کردیں، اس کے سوایہاں کیا سزا ہوسکتی ہے۔ اور جبراً کھا نا ڈالنا جائز نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۹۴: مسئولہ عبداللطیف خاں دکاندار پیلی بھیت محلہ ڈوری لال بروز یکشنبہ ۲۲ ربیع الآخر ۱۳۳۴ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت بیوہ جس کا ایک لڑکا تھا اس نے اپنا نکاح زید سے کیا اور جو لڑکا عورت بیوہ یعنی اب زوجہ زید اپنے ہمراہی لے کرآئی تھی ا س کانام بکر ہے، زوجہ زید فوت ہوگئی اور کوئی اولاد زید سے نہیں ہوئی اورنہ کوئی اولاد زید کی تھی، بکر مذکور نے اپنا نکاح کسی عورت کے ساتھ کیا جب بکر سے کوئی اولاد نہیں ہوئی بکر نے اپنی زوجہ کو نکال دیا اور طلاق دے دی، بعد انقضائے مدت عدت کے زید نے اس کے ساتھ نکاح کیا، آیا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب : جائز ہے۔ وہ اس کی بہو نہیں، کہ بکر اس کا بیٹانہیں، اس کی زوجہ کا بیٹا ہے۔
قال تعالٰی وحلائل ابنائکم الذین من اصلابکم ۱؎ وقال تعالٰی واحل لکم ماوراء ذٰلکم ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: اپنے حقیقی بیٹے کی بیوی بننے والیوں سے نکاح حرام ہے۔ اور اللہ تعالٰی نے فرمایا: ان مذکور ہ محرمات کے علاوہ باقی عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں (ت) واللہ تعالٰی اعلم
(۱؎ القرآن ۴/۲۳)(۲؎ القرآن ۴/۲۴)
مسئلہ ۹۵: از شاہجہاں پور بروز شنبہ بتاریخ ۶ جمادی الاولٰی ۱۳۳۴ھ بسم اللہ الرحمن الرحیم ماقولکم فی ھذہ الصورۃ ایہا العلماء الکرام، اول ہندہ کی نسبت اس کی رضا ورغبت سے زید کے ساتھ ہوئی پھرہندہ کی والدہ نے اس کا نکاح بکر کے ساتھ ہندہ کو اطلاع دئے بغیر کردیا، اور ہندہ سے یہ کہہ دیا کہ اگر تجھ سے کوئی نکاح کے متعلق دریافت کرے تویہ کہہ دیناکہ میری ماں کو اختیار ہے۔ جب ہندہ کواپنے نکاح کی اطلاع ہوئی جو بکر کے ساتھ کیا گیا تھا تو اس نے اس کو قبول نہیں کیا اور اپنی رضامندی سے اپنا نکاح زید کے ساتھ پڑھوالیا (اور اس لڑکی کے سوائے ماں اور بہنوں کے اور کوئی نہ تھا، اور عمر لڑکی کی سترہ سال کی تھی)ٌ یعنی بالغ تھی، سوال یہ ہے ان صورتوں میں ہندہ کانکاح بکر کے ساتھ صحیح ہوایا زید کے ساتھ؟ فقط
الجواب : اگر صورت واقعہ یہ ہے کہ ہندہ وقت نکاح بکر بالغہ تھی اور ماں نے بے اس کی اجازت کے اس کا نکاح کیا، جس کی خبر پاکر ا س نے قبول نہ کیا اور اپنا نکاح زید سےکرلیا تو نکاح بکر باطل ہوگیا، اور اگر ہندہ کے کوئی مرد دادا پردادا کی اولاد کا کہ ولی نکاح ہوسکے نہیں، یاز ید جس سے ہندہ بالغہ نے برضا ئے خود نکاح کرلیا ہندہ کا کفو ہے یعنی مذہب نسب، چال چلن، پیشے وغیرہ کسی بات میں ایسا کم نہیں کہ ہندہ کااس سے نکاح ولی ہندہ کے لیے باعث ننگ وعار ہو یا اگر وہ کفو نہیں توولی نے پیش ا ز نکاح اسے ایسا جان کر اس سے نکاح ہندہ کی صریح اجازت دے دی تو ان صورتوں میں زید کا ہندہ سے نکاح صحیح اور لازم ہوگیا، اور اگر زید مذکور کفونہیں اورہندہ کے ولی نے پیش از نکاح اسے غیر کفو جان کر صریح اجازت نہ دی تو ہندہ کا نکاح زید سے بھی باطل محض ہوا والمسائل کلھا منصوص علیہا فی الدر وغیرہ من الاسفاروالغر (یہ تمام مسائل در وغیر ہ کتب میں صراحۃً مذکور ہیں۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۹۶: از ڈاک خانہ سندیلہ حاجی محلہ متھوا ضلع ہردوئی مرسلہ محمد عبدالوکیل صاحب بروز شنبہ ۶ جمادی الاولٰی ۱۳۳۴ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ احدالفریقین سنی المذہب ہے اور دوسرا فریق شیعہ امامیہ طریقہ رکھتا ہے،کیا ان دو اشخاص کے باہم عقدمناکحت شرعا جائز ہے؟ اوریہ کہ ان سے پیدا شدہ اولاد ثابت النسب ہے یا نہیں؟
الجواب : نکاح اصلاً نہ ہوگا
والمسألۃ فی الھندیۃ وغیرھا وقد فصلناھاغیر مرۃ فی فتاوٰنا
(یہ مسئلہ ہندیہ وغیرہ میں ہے ہم نے کئی بار اسے اپنے فتاوٰی میں مفصل بیان کیا ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۹۷: از گونا ریاست گوالیار مقصود علی گردآور بروز شنبہ بتاریخ ۶ جمادی الاولٰی ۱۳۳۴ھ بحضور واقفانِ طریقت وعالمان نکات شریعت پیشوائے دین احمدی و رہنمائے احکامات محمدی مدظلہ بعد آداب نیاز دست بستہ گزارش ہے کہ میں عقد تزویج سلطان احمد خاں میں عرصہ ایک سال کا ہوا آئی اس کا بھائی سلیمان خاں ۷ ماہ تک میرے والدین کے پاس رہا، اس کی بدچلنی واوباشی سے میرے والدین نے اس سےکہاکہ چلن اپنا سنبھالو، کاش میں ایساچلن تمھارا خیال کرتا اپنی عورت کو تمھارے سامنے آنے کی اجاز ت نہ دیتا اس نے کہا میں ابھی جاؤں، والد نے کہا جاؤسلام، وہ چلاگیا، میری والدہ کو والد نے یہ حکم دیاکہ آج سے تم جس وقت ا س کا منہ دیکھو گی نکاح سے خارج سمجھنا، میرا شوہر ا س کو لایا، میری والدہ نے پردہ کیا، میرے شوہر نے مجھ سے کہا میرے بھائی کو تمھارے والدین نے علیحدہ کیامیں آج سے تم کو علیحدہ کرتاہوں، تمھارا مجھ سے کچھ واسطہ نہیں، میں روتی ہوئی اندر آئی وہ چلے گئے صبح کو کریم خاں کو شوہر کے پاس بھیجا، بلایا توکہا میں چھوڑ چکا اب کیا واسطہ، اب اگر کعبہ بھی اس طرف ہو توسر نہ جھکاؤں گا، گواہوں کے روبرو کہہ دیا، اس دن سے قریب چھ ماہ کے منقضی ہوئے بالکل میں متروکہ پڑی رہی، اب اس کی ہمشیرہ نے آکراول یہ تجویز کیا کہ کسی صور ت سے گھر میں لائے، پھر کہا طلاق کا قصور ہوگیا ہے اس کی تجویز اچھی طرح کرلیں گے کہ ہم اپنے دوسرے بھائی سے نکاح کر اکر طلاق دلاکر تیسرا نکاح پڑھالیویں گے، کسی کو کچھ معلوم نہ ہوگا۔ یہ میں نے منظور نہیں کیا اور نو ٹس زر مہر کا دیا، تو اب دعوٰی رخصت کا کرتا ہے، لہذا دست بستہ ملتجی ہوں کہ میرا عقد سلطان احمد خاں سے قائم رہا یا ساقط ہوا؟ زر مہر موجل کی میں حقدار ہوں یا نہیں؟ ایام عدت میرے ختم ہوچکے ہیں یا باقی ہیں؟ میں شوہر سابقہ سے اب تعلق ازدواج سابقہ رکھوں تو جائز ہے یا نہیں؟ عند اللہ جواب باصواب سےآگاہی بخشی جائے کہ جس سے دین محمد ی کے احکام میں کوئی قصور اس عاصیہ سے نہ سرزد ہو، اس کا اجر حضور کو اللہ تعالٰی دے گا، یہ ریاست ہندوستانی ہے کوئی اس قدر لیاقت نہیں رکھتا جو شرعا حکم دے ویسراج کا برتاؤ ہے۔
الجواب: بیان مذکور اگرواقعی ہے تو عورت پر بائن طلاق ہوگئی ا ور نکاح سے نکل گئی اور تین طلاقیں نہ ہوئیں کہ حلالہ کی حاجت ہو جس کے واسطے سلیمان خاں سے نکاح ہوکر طلاق لی جائے، زن وشوہر کی اگر ایک مکان تنہا میں یک جائی ہوچکی ہے توکل مہر واجب الادا ہوگیا اور عورت پر روز طلاق سے تین حیض کی عدت لازم ہوئی تین حیض اگر شروع ہوکر ختم ہوگئے تو عدت سے نکل گئی ورنہ ابھی نہیں، اور اگر ابھی صرف نکاح ہوا ہے اور ایک مکان میں زن وشوہر کی تنہائی نہ ہوئی تو نصف مہر ساقط ہوگیا ارو نصف واجب الادا، اور عدت اصلانہیں، اس طلاق کے بعد عورت اگر چاہے تو سلطان احمدخاں سے دوبارہ نکاح ہوسکتا تھا، مگر وہ کلمہ جو اس نے کہا کہ اگر ادھر کعبہ بھی ہو تو سر نہ جھکاؤں گا، اسے علماء نے کلمہ کفر لکھا ہے۔ لہذا اگر وہ اب توبہ کرے اور تجدید اسلام، تو اس کا اس سے نکاح ہوسکتا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔