Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
56 - 1581
مسئلہ ۸۹: ازمقام سیپری علاقہ راجہ ضلع بریلی تحصیل آنولہ تھا نہ سرولی روز چہار شنبہ ۲۰ ربیع لاول ۱۳۳۴ھ مسئولہ ننھے خاں صاحب

کیا فرماتے ہیں علمائے دین وشرع متین اس باب میں کہ اگر کوئی شخص کسی عورت خواہ باہر کی پھرنے والی یا طوائف سے نکاح کرلے تو وہ جائز یا ناجائز؟ اور بعد نکاح کے بے پردہ عورت باہر جاوے تو نکاح رہایا نہیں؟ یا اس فعل پر اس کو طلاق دے دے اور مہر ادا کردے تو پھر کوئی حق اس کا ذمہ زوج کے رہا یا نہیں؟ اور نکاح میں ایجاب وقبول باہم کرلے اور گواہ وکیل نہ ہو تو نکاح جائز یا ناجائز؟ اگر بعد نکاح اس عورت کا فعل ناجائز عرصہ ایک یا دو یوم  کے معلوم ہو توزوج اس کو طلاق دے دے اور مہر ادا کرے تو طلاق ہوجاوے گی یا نہیں؟ اور بر وقت نکاح تعداد مہر کم از کم کتنی ہونی چاہئے؟
الجواب: نکاح زن بے پردہ وبازاری سے بھی جائز ہے اورعورت کے بے پردہ نکلنے سے نکاح نہیں جاتا اور بعد طلاق مہر دینا لازم ہوتاہے اور عدت تک کا نفقہ، پھر عورت کاکوئی حق مرد پر نہیں رہتا۔ نکاح میں وکیل کی ضرورت نہیں۔ نہ ایسے دو شخصوں کی ضرورت ہے جن کو گواہ سے نامزد کیاجائے، ہاں یہ ضرورہے کہ دو مرد عاقل بالغ یا ایک مرد دوعورتیں عاقل بالغ (اور مسلمان عورت کے نکاح میں ان دونوں تینوں  کا مسلمان ہونا بھی شرط ہے) معاً ایجاب وقبول سنیں اور سمجھیں کہ یہ نکاح ہو رہاہے، وہی لوگ شرعاً گواہ ہیں اگرچہ وہ لو گ گواہی کے لیے نامزد نہ کئے جائیں، بغیر اس کے نکاح نہیں ہوسکتا، طلاق اس دن دیں، خواہ جب دیں واقع ہوجائے گی، مہر کم از کم د س درہم بھر چاندی ہے یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشے بھر، یا یہاں کے روپے سے دو ر وپے پونے تیرہ آنے اور ایک پیسہ کے پانچویں حصے کے برابر۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۹۰ تا ۹۱: مسئولہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب محمود آباد ی امام رسالہ پلٹن بریلی چھاؤنی ۷ ربیع الآخر ۱۳۳۴ھ

(۱) ماہ محرم الحرام وصفر المظفر میں نکاح کرنا منع ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیوں؟

(۲) زیدکی لڑکی (لے پالک) ربیبہ کانکاح زیدکے سگے بھائی بکرسے جائز ہے یا نہیں؟
الجواب

(۱) نکاح کسی مہینے میں منع نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم

(۲) جائز ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۹۲: بروز شنبہ ۷ ربیع الآخر ۱۳۳۴ھ

ایک عورت کا مرد فوت ہوگیا ہے مگر اس کی عدت پوری نہیں ہوئی اس کا نکاح پڑھناجائز ہے؟ اگر کوئی پیش امام یا قاضی عد ت کے اندرنکاح پڑھاوے تو وہ نکاح ہوگا یا نہیں؟ اور اس نکاح پڑھانے والے کے نکاح میں کچھ فساد ہوگا یا نہیں؟ یا اس کا نکاح پڑھانے والے پیش امام کے لیے کچھ کفارہ آتا ہے یا نہیں؟ اور اس کی امامت جائز ہے یا نہیں؟ صورت دیگر یعنی پیش امام نے ایک عورت کانکاح عدت کے اندر پڑھادیا اور پھر دوسرے روز اس نے دومسلمان کے روبرو اقرار کیا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی خدا کے لیے معاف کرو۔ انھوں نے اس کو کہا کہ پیش امام صاحب! آپ کا خودنکاح باطل ہوگیا ہے۔ تو اس نے کہا کہ اچھا میں نکاح دوبارہ چوری سے پڑھالوں گا مگر برائے خدا مجھ کو معاف کروآئندہ کو ایسا نہ کروں گا، مگر پھرا س کوکسی دوسرے مولوی صاحب نے کہہ دیاکہ تم کہہ دو کہ مجھ کو خبر نہ تھی میں نے بے خبری میں نکاح پڑھادیا، تو اس کے لیے شرع شریف کا  کیا حکم ہے؟ تو ایسے نکاح پڑھانے والے کی امامت جائز ہے یا نہیں؟ اور جس نے اس کو ایسا جھوٹ کہنا سکھلایا کہ تم کہہ دو کہ مجھ کو خبر نہ تھی، تو اس سکھانے والے کے واسطے کیا حکم ہے؟ اور جولوگ مجلس نکاح میں حاضر تھے ان کا نکاح درست ہے یا کچھ خلل ہوا؟ اور ایسے نکاح پڑھانے والے کی امامت جائزہے یا نہیں؟ اور ایسے نکاح پڑھانے والے کو کچھ کفارہ دینا چاہئے یا نہیں؟
الجواب: عد ت میں نکاح تو نکاح، نکاح کا پیغام دینا حرام ہے۔ جس نے دانستہ عدت میں نکاح پڑھایا اگر حرام جان کر پڑھایا سخت فاسق اور زنا کار کا دلال ہوا مگر اس کا اپنا نکاح نہ گیا، اور اگر عدت میں نکاح کو حلال جانا تو خود اس کا نکاح جاتا رہا اور وہ اسلام سے خارج ہوگیا، بہر حال ا س کو امام بنانا جائز نہیں جب تک توبہ نہ کرے، یہی حال شریک ہونے والوں کا ہے، جو نہ جانتا تھاکہ نکاح پس از عدت ہو رہا ہے اس پر کچھ الزام نہیں اور جو دانستہ شریک ہوا اگر حرام جان کر تو سخت گنہ گار ہوا۔ اور حلال جانا تو اسلام بھی گیا، اور جس شخص نے امام کو جھوٹ بولنے کی تعلیم دی وہ سخت گناہ گار ہوا، اس پر توبہ فرض ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
Flag Counter