Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
54 - 1581
مسئلہ ۸۴: از موضع دیورنیا ضلع بریلی مسئولہ عنایت حسین صاحب ۲۹ شعبان ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یہ مضمون نکاح خوانی جائزہے یا نہیں، واجد علی خاں کی لڑکی نام اس کا تم کو معلوم ہے، بالعوض مہر موجل مبلغ دو سو روپیہ سکہ انگریزی کے بوکالت فلاں اور شہادت فلاں فلاں علاوہ نان نفقہ کے بیچ عقد نکاح تمھارے کے دی گئی تم کو قبول ہے ؟ قبول کیا میں نے۔
الجواب: جائز ہے جبکہ واجد علی خاں معروف ہو یعنی حاضرین سے دو گواہ پہچانیں کہ فلاں شخص ہے ورنہ ا س کے باپ دادا کا بھی نام لیا جائے اور بوکالت فلاں وشہادت اور علاوہ نان ونفقہ کے کہنا ایک زائد بات ہے جس کی حاجت نہیں، اور''دی گئی'' کی جگہ ''دی میں نے" کہے، اور وہ کہے جو نابالغہ کا ولی یا ولی کا وکیل یا بالغہ کا وکیل۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۸۵ تا ۸۶: مسئولہ جناب مولوی انوار الحق صاحب تحصیل چونیاں ضلع لاہور بروز یک شنبہ بتاریخ ۱۰ ربیع الاول شریف ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ:

(۱) ہندہ کے باپ کے چچاکا بیٹا جوہندہ مذکورہ کا ولی تھا وہ چونیاں میں رہتا تھا اور اس کی والدہ نے ا س مقام سے سات کوس کے فاصلہ پر ولی مذکور کی عدم موجودگی میں ہندہ کا نکاح پڑھادیا اب جب ولی مذکور نے اپنی ناراضگی ظاہر کی تو نکاح والدہ کی اجازت سے جوہوا تھا و ہ کس واسطے باطل ٹھہرا حالانکہ درمختار کی اختیار کردہ عبارت کے بعد لکھا  تھا کہ:
واختار فی الملتقی مالم ینظر الکفو الخاطب جوابہ واعتمدہ الباقانی ونقل ابن الکمال ان الفتوی علیہ ۱؎۔
ولی ابعد کا نکاح جائز ہوگا جب کفو والا رشتہ ولی اقرب کے جواب کاانتظار کرے، یہ صاحب ملتقی کا مختار اس پر باقانی نے اعتماد کیا ہے، ابن الکمال نے نقل کیا کہ فتوٰی اس پر ہے۔ (ت)
 (۱؎ درمختار    باب الولی    مطبع مجتبائی دہلی        ۱/۱۹۴)
اورصاحب بزازیہ نے اسی قول کو اقرب الی الفقہ کہا ہے، اور ردالمحتار میں ذخیرہ سے ہے کہ :
ھوالاصح فی البحر عن المجتبٰی والمبسوط انہ الاصح فی النھایۃ واختارہ اکثر المشائخ وصححہ ابن الفضل۲؎ انتھی۔
یہی اصح ہے اور بحر میں مجتبٰی اور مبسوط سے منقول ہے کہ یہی اصح ہے، اور نہایہ میں ہے کہ اکثر مشائخ نے اس کو اپنایا ہے اور ابن الفضل نے اس کی تصحیح کی ہے۔ انتہی۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار    باب الولی  داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۳۱۵)
اتنی عبارتوں سے جب معلوم ہوتا ہے کہ ولی عصبہ اقرب کی غیبت میں ولی بعید کو نکاح پڑھانے کا اختیار ہے تووالدہ کا نکاح کیا ہوا کس واسطے سے باطل کیا گیا فقط 

(۲) مجلس خطبہ میں ناکح نے رو برو گواہان کے ہندہ کے باپ عمرو کو کہا کہ تونے اپنی لڑکی بکرکے لڑکے زید کودی اس نے کہا ''دی'' پھر بکر کوکہا کہ تونے عمرو کی لڑکی ہندہ اپنے لڑکے زید کے واسطے قبول کی، ا س نے کہا ''قبول کی'' یا حضرت اس ایجاب اورقبول سے ہندہ کا نکاح ہوایا کہ نکاح کا وعدہ ہوا؟
الجواب

(۱) فی الواقع اقوال اس میں مختلف ہیں اور تصحیحیں بھی مختلف اور اصح التصحیحین یہی ہے جودرمختار میں ہے مگر درمختار کا یہ مطلب نہیں کہ سات کوس کے فاصلہ پر مالم ینظر الکفو الخاطب صادق آجائے تفقہ فقط کتاب سے عبارت دیکھ لینے اور لفظی ترجمہ سمجھ لینے کا نام نہیں بلکہ مقصد شرع کا ادراک اور احوال بلاد وعباد پر نظر رکن اعظم تفقہ ہے، 

اسی درمختار میں ہے:
من لم یکن عالماً اھل زمانہ فھو جاھل ۱؎۔
جو اپنے زمانہ والوں کے حالات نہیں جانتا وہ جاہل ہے۔ (ت)
 (۱؎ درمختار    باب الوتر والنوافل    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/۳۱۵)
ہمارے بلاد میں نکاح ابکار کی حالت معلوم ہے مہینوں پیام سلام رہتے ہیں اگر بیٹی والوں کی مرضی بھی ہو تو جلد قبول کردینے کو عیب جانتے ہیں یہ ان کے یہاں مثل دائرو سائر ہے کہ بیٹی کا معاملہ کچھ بازار کاسودا نہیں ابھی نہ جوتیاں ٹوٹیں نہ چادریں پھٹیں ابھی سے اقبال کردیا جائے اور ایسا تو کوئی بھی کفو خاطب نہیں کہ ولی اقرب سات کوس پر بیٹھا ہے اور وہ اس سے اجازت لینے تک کا انتظار نہ کرے ہاں یہ وہی کرے گا جسے معلوم ہوگا کہ ولی اقرب اس پر رضانہ دے گا ایسی تعجیل معتبر کرلینے میں ولایت قربے کا ابطال اور حکم شرع کانقض ہے بلکہ عندالانصاف یہ روایت مفتی بہاتو روایت مسافت قصرسے بھی تنگ تر ہے ریل نے مسافت قصر کو گھنٹے کی مسافت کردیا کون سا خاطب ہے کہ اتنی دیر کا انتظار نہ کرے گا وبقیۃ التفصیل فی فتاوی الفقیر (باقی تفصیل فقیر کے فتاوٰی میں ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم

(۲) اگر وہ مجلس وعدہ کی تھی اور و عدہ ہی مفہوم ہو اتو وعدہ ہی ہو ا نہ  کہ نکاح، ورنہ نکاح۔
قال ھل اعطیتنیھا قال نعم ان المجلس للوعد فوعدوان للعقد فعقد ۲؎ درمختار وغیرہ۔
اگرکہا کہ تونے مجھے لڑکی دی تو جواب میں ہاں کہا تو یہ بات مجلس وعدہ میں وعدہ اور مجلس نکاح میں نکاح ہوگی، درمختار وغیرہ (ت)
 ( ۲؎ درمختار  کتاب النکاح      مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۸۵)
اس کی بناوہاں کے رواج ومتفاہم عرف پر ہے کما اشرنا الیہ (جیسا کہ ہم نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
Flag Counter