فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
دوسرا مسئلہ ۷۸: ایک شخص نے دعائے خیر جلسہ میں کہہ دی کہ میں نے لڑکی اپنی اس شخص مثلاً زید کودی، بعدہ وہ یعنی باپ لڑکی کا مرگیا ا س کے وارثان نے اس لڑکی کا عقد نکاح دوسرے شخص کو کردیا، آیا دعاء خیر جائز ہے یا وارثان کانکاح جائز ہے؟
الجواب: دعائے خیر سے اگر وعدہ سمجھا جاتاہے تو وارثو ں نے جو یہ نکاح کیا، جائز ہے۔ اور اگر ا سی و قت نکاح کردینا مقصود ہوتاہے اور زید نے اس جلسہ میں قبول کیا اور دوگواہوں نے معاً سنا اور نکاح ہونا سمجھا تونکاح ہوگیا تھا، دوسرا نکاح باطل ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۷۹ تا ۸۰: ا ز رامہ تحصیل گوجرخاں ضلع راولپنڈی ڈاکخانہ جاتلی مسئولہ تاج محمود صاحب ۱۵ محرم ۱۳۳۹ھ (۱) کیافرماتے ہیں علمائے دین زید کے بارے میں تین افراد شہادت دیتے ہیں کہ مدعی علیہ نے والد لڑکے کو بولا ہے کہ میں نے اپنی دختر نابالغہ فلانی تمھارے فلا نے لڑکے کو دے دی ہے اس نے قبول لڑکے معلوم کے لیے کرلی ہے اور اس مجلس میں نہ نکاح کا ذکر ہوا نہ خطبہ پڑھا گیا نہ ذکر مہر کاہوا، اس کے علاوہ مدعی علیہ بھی کہتاہے کہ میں نے ارادہ ناطہ کا کیا ہے نہ نکاح کا، اب یہ نکاح ہوگا یا خطبہ یا ناطہ؟ (۲) قرینہ نکاح کاخطبہ اور ذکر مہر کا ہر دو ہوویں گے یافہم شہود نکاح کا فقط کافی ہوگا یانیت ولی دختر پر ہے؟
الجواب (۱) خطبہ پڑھا جانا یاذکر مہر ہونا کچھ شرط نکاح نہیں، وہ مجلس اگر عقد کے لیے تھی عقد ہوگیا اوراگر مجلس وعدہ تھی اورحاضرین نے اسے وعدہ ہی سمجھا تووعدہ ہوا نکاح نہ ہوا۔
فی الدر المختار ان المجلس للوعد فوعد وللعقد فعقد ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم
درمختا ر میں ہے کہ اگر یہ مجلس وعدہ (منگنی)کے لیے ہے منگنی ہے اور مجلس نکاح ہے تو نکاح ہوگا۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب النکاح مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۸۵)
(۲) نکاح بالفاظ صریحہ میں نیت شرط نہیں، الفاظ ایجاب وقبول ہونا اور دوشاہدوں کا سمجھنا کہ یہ نکاح ہورہا ہے کافی ہے۔ ذکر مہر نہ ضرور نہ قرینہ، اور خطبہ اگرچہ ضروری نہیں مگر قرینہ نکاح ہے۔واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۸۱: ا زپنڈی گھیب ڈاک خانہ خاص ضلع اٹک مسئولہ مولوی غلام محی الدین امام ومدرس جامع مسجد ۲۰محرم الحرام ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ا س مسئلہ میں کہ ایک عورت عاقلہ بالغہ بعض غیر تعلقد اروں یاکہ ان ذوی الارحاموں (جن کا ولایت نکاح میں کوئی حق نہیں) کے ورغلانے بہکانے پرکچہری میں جاکر درخواست پیش کرے کہ میں جوان ہوں اور اپنے حسب منشاء نکاح کرنا چاہتی ہوں اور میرے والی مثلا باپ یا کہ بھائی یا کہ دیگر عصبو ں سے مجھے روکتے ہیں سرکارکو اطلاع دیتی ہوں کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں جہاں طبیعت ہو نکاح کرالوں، والیوں کی رکاوٹ مجھے نہ ہو، اور کچہری گورنمنٹ اسے اجازت دے دے اور وہ جہاں چاہے نکاح کرالیوے، والی خوش ہوں یا ناراض، اگر اسی موقعہ پر ان ورغلانے والوں اور ذوی الارحاموں کوکوئی مولوی لکھے میاں! یہ تمھارا نکاح اچھا نہ ہوگا باپ یا دیگر والی کو تم ضرور مجلس نکاح میں بلاؤ تو وہ کہیں کہ لڑکی عاقلہ بالغہ جوانہ خود مختارہے کسی والی کا کوئی ایک ذرہ تک تعلق نہیں ہم ابھی کرتے ہیں، پھر جس مولوی نے توڑا تو دیکھا جائے گا مولوی کیا کرے گا جب کچہری نے اجازت دے دی۔
الجواب: یہ حالت غالباً اس صورت میں ہوتی ہے کہ عورت جس سے نکاح کرنا چاہتی ہے وہ غیر کفو ہو یعنی مذہب یا نسب یا چال چلن یا پیشہ میں ایساکم کہ اس سے اولیائے زن کے لیے باعث ننگ وعار ہو، ایسا نہ ہو تو اس درجہ بے حیائی کیوں اختیار کرے اور اس صورت میں نکاح باطل محض ہے، جب تک ولی پیش از نکاح اسے غیر کفو جان کر بالتصریح اجازت نہ دے۔
درمختار میں ہے:
(ویفتی) فی غیر الکفو (بعدم جوازہ اصلا) وھو المختار للفتوی لفساد الزمان ۱؎۔
غیر کفو میں نکاح کے عدم جوا ز کافتوٰی دیا جائے گا اور یہی فتوٰی کے لیے مختار ہے کیونکہ زمانہ میں فساد برپا ہوچکا ہے۔ (ت)
( ۱؎ درمختار کتاب النکاح باب الولی مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۱)
اولیاء پر لازم ہے کہ جب کفو پائیں تزویج میں جلدی کریں کہ ایسے وقائع سے ننگ وبے حیائی کادروازہ نہ کھلے۔ حدیث میں ہے:
یا علی! لاتؤخر ثلثۃ الصلٰوۃ اذاحانت و الجنازۃ اذا حضرت والایم اذا وجدت لھا کفوا ۱؎۔
اے علی (رضی اللہ تعالی عنہ ) !تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو نماز میں جب وقت ہو جائے ،جنازہ میں جب حاضر ہوجائے، اور غیر شادی شدہ لڑکی کے نکاح میں جب اس کا کفو مل جائے۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم
(۱؎ السنن الکبرٰی للبیہقی باب اعتبار الکفاءۃ دارصادر بیروت ۷/۱۳۳)
مسئلہ ۸۲: شیخ سلامت اللہ قصبہ تلہر محلہ عمر پور ضلع شاہجہان پو رپارچہ فروش ۱۸ جمادی الآخرٰی ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ لڑکی کی کتنی عمر تک نکاح ناجائز ہوتا ہے اور کتنی عمر ہو تو جائز ہوتاہے؟
الجواب: نکاح کسی عمر میں ناجائزنہیں، اگر اسی وقت کے پیدا ہوئے بچے کا نکاح اس کا ولی کردے گا نکاح ہوجائے گا، ہاں پیٹ کے بچے کا نکاح نہیں ہوسکتا۔
اذلاولایۃ علی الجنین لاحد کمافی غمزالعیون۔
کیونکہ پیٹ میں بچے پرکسی کو ولایت نہیں، جیساکہ غمز العیون میں ہے۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم
(۲؎ غمز عیون البصائر للحموی علی الاشباہ والنظائر اداراۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۲/۶۰۴)
مسئلہ ۸۳:ـ مسئولہ عبدالعزیز صاحب ازشہر محلہ کٹکوئیاں ۲۹ جمادی الاخرٰی ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دو لڑکیاں توام اس صورت سے پیدا ہوئیں کہ دونوں کے کولھوں کی ہڈیاں جڑی ہوئی تھیں اگر وہ ہڈی کا ٹ دی جائے تو ان کے مرجانے کا خوف تھا، اب دونوں جوان ہوئیں ان کی شادی کس طرح کی جاسکتی ہے؟ بینوا توجروا
الجواب :جھوٹ اور بے اصل بات قائم کرکے شریعت کو تکلیف دینی سخت بیہودگی ہوتی ہے کیا سائل ان لڑکیوں کو پیش کرسکتا ہے۔