Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
51 - 1581
مسئلہ ۶۵: ا زرامہ تحصیل گوجرخاں ضلع روالپنڈی ڈاکخانہ جاتلی مرسلہ محمد جی صاحب ۱۸ ذی قعدہ ۱۳۳۹ھ

باپ نے برادر کو خط لکھا کہ میری دختر نابالغہ کا ناتا یا نکاح جہاں تمھاری مرضی ہو کردو، مکتوب الیہ نے باجازت باپ کے ایک جگہ اس نابالغہ کا نکاح کردیا، ایجاب کے لفظ یہ ہیں ''دختر معلومہ فلاں لڑکے کو میں نے دی ہے'' اور نابالغ لڑکے کی جانب سے قبول اس کے ماموں نے کیا ہے اور تین گواہ کہتے ہیں کہ وہ خط ہم نے خود سنا ہے کہ باپ نے برادر کو اجازت  نکاح دختر نابالغہ معلومہ دی ہے اور ہم نے مجلس میں ذکر نکاح کا سنا ہے اور نکاح کے وقت باپ سفر میں تھا اور خط بھی گم ہوگیا ہے اور بعد نکاح چند روز بعدمکتوب الیہ فوت ہوگیا، اب باپ سفر سے آیا  وہ کہتاہے میں نے برادر کو کوئی اجازت نہیں دی اوراس کے گواہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل نہیں ہوئی لیکن یہ گواہ باپ کے بہت فاسق ہیں اورتین گواہ جو بالا مذکورہیں وہ فاسق نہیں ہیں،
الجواب : جبکہ باپ ا س خط کے لکھنے سے منکر ہے تو اسے کسی شہادت کی حاجت نہیں، شہادت ا س کی ہوناچاہئے تھی کہ ہمارے سامنے اس نے یہ خط لکھا ہے اس پر کوئی شہادت نہیں، گواہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے خط سنا یہ شہادت کچھ معتبرنہیں لہذا اجازت دینا ثابت نہیں، باپ کے انکار سے وہ نکاح باطل ہوگیا جبکہ وہ حلف سے کہہ دے کہ وہ خط میں نے نہ لکھاتھا نہ میں نے بھائی کو اجازت دی تھی
لان الخط یشبہ الخط ولا حجۃ الاالبینۃ اوالا قرار اوالنکول
(کیونکہ خط، خط کے مشابہ ہوتاہے، گواہی، اقرار اور قسم سے انکار کے علاوہ کوئی حجت نہیں۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۶۶ تا ۷۲: از بنارس محلہ پتر کندہ مرسلہ جناب مولانا مولوی عبدالحمید صاحب پانی پتی زید کرمہ ۲۷ شعبان ۱۳۳۸ھ

علمائے دین ان مسائل میں کیا فرماتے ہیں:

(۱) نابالغ لڑکے اور لڑکی سے ایجاب وقبول کرانے سے نکاح صحیح ہوتا ہے یا نہیں؟

(۲) یہاں دستور ہے کہ نکاح خواں نابالغ کے باپ یا کسی اورولی سے اجازت لے کر دو گواہوں کے ساتھ نابالغہ دلھن کے پاس آتے ہیں اور اس کو کلمہ شہادت وآمنت باللہ پڑھا کر کہتے ہیں کہ تمھارا نکاح بعوض عہ/۸ مہر کے فلاں لڑکے مسمی فلاں سے ہوتا ہے تم نے قبول کیا کہو ہاں قبول کیا، اسی طرح تین بار کہلاتے ہیں اس کے بعد نابالغ دولھا کے پاس آتے ہیں اور وہی سب کلمات پڑھا کر کہتے ہیں کہ فلاں  کی لڑکی مسماۃ فلاں بعوض عہ/۸ مہر کے تمھارے نکاح میں آتی ہے تم نے قبول کیا، کہو ہاں قبول کیا۔ اسی طرح تین بار کہتے ہیں غرض دونوں جانب قبولیت ہوتی ہے ایجاب کا پتا نہیں، شرعاً یہ نکاح صحیح ہوجاتاہے اور اس مجلس میں بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ دلھن یا دولھا نابالغان کے وہ سب یا اور ولی موجو دنہیں رہتے بلکہ وہ اپنے اور کاموں میں مشغول رہتے ہیں اس طریقہ میں شرعاً جو خرابی اورنقص ہو اس کی تصریح فرمائیں، اور شرعاً جو طریقہ نکاح مسنون ہو ارشاد فرمائیں۔

(۳) اگر ولی خطبہ مسنون نہ پڑھنے یاصرف ایجاب وقبول کرنے پر قادر ہو توغیر سے ایجاب وقبول کرانا کیسا ہے؟

(۴) نکاح خواں کو اُجرت لینا اور دینا کیسا ہے؟

(۵) اگر اُجرت نکاح اپنے مصر ف میں نہ لائے بلکہ مسجد کے تیل اور چٹائی میں صرف کرے تو جائز ہے یا نہیں؟

(۶) نوشہ کے سرپر پگڑی رکھنے کے واسطے اس کے پھوپھا یا بہنوئی کوبلاتے ہیں جب تک یہ نہیں آتے دوسرا پگڑی نہیں رکھ سکتے، جب یہ آتے ہیں تو بغیر دس پانچ روپے لیے نہیں رکھتے، جب کم ہو تا ہے تولینے پر انکار اور زیادتی پر اصرارکرتے ہیں، جب حسب مرضی پالیتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں، اور بعض پھوپھا داماد قبل لینے کے رکھ دیتے ہیں، اس کے بعد جو ملالے لیا، اور بعض کچھ اصرار کرکے اور زیادہ لیتے ہیں آیا شرعا یہ لینا دینا کیسا ہے؟ اور اس کو ضروری حق سمجھنا اور اس پر اہتمام واصرار کرنا کیسا ہے؟

(۷) شرعاً ولیمہ کی تعریف کیا ہے اور اس کی مدت کَے روز تک ہے؟

(الف) پہلے دعوت کرناپھر بارات اور رخصتی کرکے دلھن لانا یہ ولیمہ ہے یانہیں؟

(ب) نابالغ کی رخصتی کے بعد چونکہ زفاف نہیں ہوتا تو بعد دلھن لانے کے دعوت کرنا ولیمہ مسنون ہے

یا نہیں؟

(ج) اگر ولیمہ بارادہ سنت نہ کرے بلکہ خیال نام آوری وبرادری سے سرخ روئی مقصود  ہواور یہ کہتا رہے کہ چونکہ دس دفعہ بھائی لوگ کے یہاں کھاآئے ہیں لہذا برادری کو کھلانا ضرورہے چاہے ہمارے پاس ہو یا نہ ہو، یہ دعوت کیسی ہے؟ اور مستطیع غیر مستطیع دونوں کاحکم فرمائے۔
الجواب

(۱) نابالغ لڑکے اور لڑ کی جن کاتلفظ کلام سمجھاجائے اور وہ الفاظ ومعنٰی کا قصد کرسکیں ان کا ایجاب و قبول خود ہو یا دوسرے کی تلقین سے صحیح ہے، پھر اگر باجازت ولی ہے نافذ بھی ہے ورنہ اجازت ولی پر موقوف جبکہ کوئی مانع شرعی نہ ہو، واللہ تعالٰی اعلم

(۲) ا س کا جواب جواب سوال اول میں آگیا اور ان عقود میں جو کلام پہلے ہے  وہ ایجاب ہے اگرچہ بلفظ قبول ہو اورجو بعد کو ہو وہ قبول، اور جب باذن ولی ہو تو ولی کا وہاں موجودہونا ضروری نہیں، اور بلااذن ہو تو اس کی اجازت پر موقوف رہے گا، اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ اولیاء خود ایجاب وقبول کریں یا ان کی اجازت سے ان کے وکیل نابالغوں سے کہلوانے کی کوئی حاجت نہیں۔

(۳) کوئی حرج نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم

(۴) جائز ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم

(۵) جب جائز ہے تو مسجد میں دینا اور بہتر ہے۔واللہ تعالٰی اعلم۔

(۶) یہ ایک مخترع رسم ہے، اسے ضروری سمجھنا ناجائز، اور اگر اصرار حدناگواری تک ہو توحرام ورنہ آپس کے معاملات ہیں جن پر  شرع سے منع وارد نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

(۷) شب زفاف کی صبح کو احباب کی دعوت ولیمہ ہے، رخصت سے پہلے جو دعوت کی جائے ولیمہ نہیں، یونہی بعد رخصت قبل زفاف اور ریا وناموری کے قصد سے جو کچھ  ہو حرام ہے۔ اور جہاں اسے قرض سمجھتے ہیں وہاں قرض اتارنے کی نیت میں حرج نہیں اگرچہ ابتداءً یہ نیت محمود نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter