اسی طرح تسامع بھی سامعین کے نزدیک اثبات نکاح کو بس ہوتا ہے یعنی جب ان کا زوج وزوجہ ہونا لوگوں میں مشہور ہو تو انھیں یہی سمجھا جائے گا، اور زوجیت پر شہادت رواہوگی اگرچہ خود ان کی زبان سے اقرار نہ سنا ہو۔
کما فی الدرالمختار وعامۃ الاسفار وفی قرۃ العیون عن العمادیۃ کذا تجوز الشھادۃ بالشھرۃ والتسامع فی النکاح حتی لورأی رجلا یدخل علی امرأۃ وسمع من الناس ان فلانۃ زوجۃ فلان وسعہ ان یشھد انھا زوجتہ وان لم یعاین عقدالنکاح ۱؎۔
جیسا کہ درمختار اور عام کتب میں اور قرۃ العیون میں عمادیہ سے منقول کہ نکاح کے معاملہ میں شہرت کی بنا پر بغیر تحقیق شہادت جائزہے حتی کہ ایک شخص کو ایک عورت کے ہاں آتے جاتے دیکھا اور لوگوں سے معلوم ہوا کہ یہ عورت اس شخص کی بیوی ہے تو اس کو جائزہے کہ وہ اس عورت کے بارے میں اس شخص کی بیوی ہونے کی شہادت دے اگرچہ ا س نے نکاح نہ دیکھا ہو۔ (ت)
(۱؎ قرۃ عیون الاخیار کتاب الشہادات دارالکتاب العربیۃ الکبرٰی مصر ۱/۷۱)
تو ان کا باہم تصادق بدرجہ اولٰی مثبت نکاح،
فی الشامیۃ عن ابی السعود عن العلامۃ الحانوتی صرحوا بان النکاح یثبت بالتصادق والمراد منہ ان القاضی یثبتہ بہ ویحکم بہ ۲؎ اھ ملخصا۔
فتاوٰی شامی میں ہے ابی سعود کی علامہ حانوتی سے راویت ہے کہ فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ مرد وعورت کی آپس میں خاوند بیوی ہونے کی تصدیق سے نکاح ثابت ہوجائے گا اس سے مراد یہ ہے کہ قاضی اس نکاح کو ثابت قرار دے گا اور اس کو نافذ رکھے گا اھ ملخصاً (ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی ۲/۲۶۵)
پس ایسی صورت میں واجب ہے کہ انھیں زوج وزوجہ ہی تصور کیا جائے گا جو خواہی نخواہی ان کی تکذیب کرے گا اور بدگمانی کے ساتھ پیش آئے گا مرتکب حرام قطعی ہوگا باایں ہمہ حکم قضا اور ہے اور امر دیانت اور چیز، اگر وہ اپنے اظہار واخبار میں حقیقۃً سچے ہوں یعنی واقع میں ان کے باہم نکاح ہو لیا ہے تو عنداللہ بھی زوج و زوجہ ہیں ورنہ مجرد ان الفاظ سے جبکہ بطور اخبار بیان میں آئے ہوں نکاح منعقد نہ ہوگا وہ بدستور اجنبی و اجنبیہ رہیں گے، نکاح جن امور وافعال کو ثابت وحلال کرتا ہے دیانۃً ان کے لیے اصلاً ثابت وروا نہ ہوں گے کہ اس تقدیر پر یہ الفاظ کوئی عقد وانشا نہ تھے محض جھوٹی خبر تھی اور جھوٹی خبر دیانۃً باطل و بے اثر،
اقول علماء تصریح فرماتے ہیں اگر شوہر نے اقرار طلاق کیا کہ میں اسے طلاق دے چکاہوں اور واقع میں نہ دی تھی تو وہ قضاءً طلاق ہوگئی مگر دیانۃً ہر گزنہ ہوگی کہ اس کا یہ قول طلاق دینا نہ تھا بلکہ طلاق غیر واقع کی جھوٹی خبر دینا تھا،
حاشیہ علامہ طحطاوی میں ہے:
الاقرار بالطلاق کاذباً یقع بہ الطلاق قضاء لادیانۃ ۱؎۔
طلاق کا جھوٹا اقرار قاضی کے ہاں طلاق قرار پائیگا عنداللہ نہیں۔ (ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الطلاق دارالمعرفۃ بیروت ۲/۱۰۶)
فتاوٰی خیریہ میں ہے:
رجل طلق زوجتہ المدخولۃ واحدۃ رجعیۃ فسئل کیف طلقت زوجتک فقال ثلثا کاذبا لایقع فی الدیانۃ الاماکان اوقعہ من الواحدۃ الرجعیۃ فیملک مراجعتھا فی العدۃ والحال ھذہ۲؎ اھ ملخصا۔
ایک شخص نے اپنی مدخولہ بیوی کوایک رجعی طلاق دی تو اس سے پوچھا گیا کہ تونے اپنی بیوی کو کتنی طلاقیں دی ہیں، جواب میں اس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ میں نے تین طلاقیں دی ہیں۔ تو عنداللہ ایک ہی رجعی طلاق ہوگی جو اس نے دی ہے تو عنداللہ اس کوعدت کے دوران رجوع کا حق ہے۔ اھ ملخصاً۔ (ت)
تو جب اقرار خلاف واقع سے عنداللہ طلاق واقع نہیں ہوتی، نکاح بدرجہ اولٰی منعقد نہ ہوگا طلاق سبب تحریم فرج ہے اور نکاح سبب تحلیل اور امر فرج میں احتیاط جلیل، ولہذا علماء متون وشروح وفتاوٰی میں تصریح فرماتے ہیں کہ مجرد اقرار مرد وزن سے نکاح ہر گز منعقد نہیں ہوتا، اسی پر وقایہ ونقایہ واصلاح وملتقی میں کہ سب اعاظم شرح جصاص ومختارات النوازل وفتاوی خلاصہ وخزانۃ المفتین ومختار الفتاوٰی وایضاح الاصلاح و جامع الرموز میں مذہب مختار بتایا، اسی کو تنویرالابصار ودرمختار میں مقدم رکھ کر ضعفِ مخالف کی طرف اشارہ فرمایا، اسی کو فتاوی ظہیریہ وفتاوی عالمگیریہ میں صحیح کہا، اسی پر جواہر اخلاطی میں ان دونوں لفظ فتوٰی یعنی مختار و صحیح کو جمع کرکے تیسر الفظ آکد واقوی علیہ الفتوی اور زائد کیا، علامہ حانوتی وسید ابوالسعود کی عبارتیں ابھی گزریں باقی نصوص بالتلخیص یہ ہیں وقایۃ الروایہ ومختصرالوقایۃ میں ہے:
لا ینعقد بقولھا عند الشہود مازن وشوئیم ۳؎
(گواہوں کے سامنے مرد وعورت کا یہ کہنا کہ ہم بیوی خاوند ہیں، نکاح نہ ہوگا، ت)
(۳؎ نقایۃ مختصرالوقایہ کتاب النکاح نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۵۱)
شرح نقایہ قہستانی میں ہے:
لاینعقد علی المختار ۴؎
(مذہب مختار پر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ ت)
(۴؎ جامع الرموز کتاب النکاح مکتبہ الاسلامیہ گنبد قاموس ایران ۱/۴۴۵)
متن وشروح علامہ ابن کمال وزیرمیں ہے:
لابقولھما مازن وشوئیم لان النکاح اثبات وھذا اظھار والاظھار غیر الاثبات ذکرہ فی التخییر وقال فی مختارات النوازل ھو المختار ۱؎۔
نکاح منعقد نہ ہوگا جب انھوں نے کہا کہ ہم بیوی خاوند ہیں، کیونکہ نکاح، معاملہ کو قائم کرنے کا نام ہے اور مرد وعورت کا یہ اقرار، اظہار ہے اور اظہار اثبات نہیں ہے اس کو انھوں نے تخییر میں ذکر کیا ہے اور مختارات النوازل میں ہے کہ یہی مختار مذہب ہے۔ (ت)
(۱؎ ایضاح واصلاح )
متن علامہ ابراہیم حلبی میں ہے:
لوقالا عند الشھود مازن وشوئیم لاینعقد ۲؎۔
اگرا نھوں نے گواہوں کے سامنے کہاکہ ہم بیوی خاوند ہیں تو اس سے نکاح منعقد نہ ہوگا۔ (ت)
(۲؎ ملتقی الابحر کتاب النکاح موسسۃ الرسالۃ بیروت ۱/۲۳۸)