فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۶۱: از میرٹھ بازار محلہ سوتی گنج مرسلہ مولوی محمد افضل صاحب کا بلی تعلیم یافتہ مدرسہ منظر اسلام بریلی امام مسجد سوتی گنج ۲ شوال ۱۳۳۹ھ
چہ مے فرمایند دریں مسئلہ کہ در ملک ہند علماء فتوٰی دادند کہ بعد منگنی دختر دیگر جائے نکاح کردن مے تواند حقیر ناجائر پندارد چراکہ ایجاب وقبول از جانبین ثبوت شود از جانب بچہ گویند کہ ''دے دو'' از جانب دختر گویند ''دے دیا ودے چکا یاسگائی کرچکا'' ایں الفاظ برائے وضع عقدست اگرایں طور گویند کہ ''دیں گے'' تو خیر، جنا ب مولایم عجیب افسوس کہ دیوبندی خذلہم اللہ دین اوخراب ومسلمان رانیز بیخ کنی کردند اگر ایں فتوٰی غلط باشد از ایشاں ہزاراں نطفہ زنا درعالم منتشر شدہ تدارک ایں عمل بفرمایند۔
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندوستان کے علماء فتوی دیتے ہیں کہ منگنی کے بعد لڑکی کا دوسری جگہ نکاح جائز ہے لیکن یہ ناچیز ا س کو ناجائز سمجھتاہے کیونکہ ایجاب وقبول جانبین سے ثابت ہوجاتا ہے لڑکے والے ''دے دو'' کہتے ہیں اور لڑکی والے ''دے دی'' یا''دے چکا'' کہتے ہیں یا ''سگائی کرچکا'' کہتے ہیں، یہ الفاظ عقد نکاح کے لیے وضع ہیں، ہاں اگر لڑکی والے ''دیں گے'' کہیں توخیر ہے، جناب میرے آقا عجیب افسوس ہے کہ دیوبندی جن کا دین خود خراب ہے وہ مسلمانوں کی بیخ کنی کر رہے ہیں، اگر علماء کا یہ فتوٰی غلط ہو تو ان کی وجہ سے دنیامیں ہزاروں نطفہ زنا پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اس عمل کا تدارک فرمادیں (ت)
الجواب : وعیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، لفظ ''سگائی کرچکا'' خود ظاہر است سگائی نسبت و وعدہ عقد راگویند نہ عقدرا ''دے دیا'' یا ''دے چکا'' از انجا کہ مجلس مجلس وعدمی باشد نہ مجلس عقدہمیں بر وعد محمول می شود نہ بر عقد درشرح امام طحاوی وفتح و درمختار و ردالمحتار ست لوقال ھل اعطیتنیھا فقال اعطیت ان کا ن المجلس للوعد فوعد وان کان للعقدفنکاح ۱؎ وچہ گونہ نکاح شود حالانکہ شرط او حضور دوگواہ ست کہ فہمند کہ ایں نکاح ست فی التنویر والدر وشرط حضور شاہدین فاھمین انہ نکاح علی المذھب بحر۲؎ واینجا اگر ہزار حاضر باشند ہیچ کس نکاح نہ فہمد کہ منگنی نزد ایشاں چیزے ازمقدمات نکاح ست نہ نکاح واللہ تعالٰی اعلم۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ''سگائی کرچکا'' کا لفظ خود ظاہر کرتا ہے کہ ''سگائی'' نسبت اور وعدہ نکاح کو کہتے ہیں نہ کہ نکاح کو، لڑکی والوں کا دے دیا یا دے چکا کہنامجلس وعد میں وعدہ پر محمول ہوگانہ کہ عقد نکاح پر، امام طحاوی کی شرح، فتح، درمختار اور ردالمحتار میں ہے کہ اگر مر د نے کسی کو کہاکہ تو نے مجھے لڑکی دی، توا س نے جواب میں کہاکہ میں نے دی، تو اگر یہ مجلس وعدہ اور منگنی ہو تو وعدہ اور منگنی ہے اور اگر مجلس عقد ہے تو نکاح ہے، پھر مسئولہ صورت میں نکاح کیسے ہوسکتا ہے جبکہ نکاح کے لیے دوگواہوں کی موجودگی بایں طور پر شرط ہے کہ وہ اس کو نکاح سجھیں۔ تنویر اور در میں ہے نکاح میں دوگواہوں کا ہونا جویہ سمجھیں کہ یہ نکاح ہے شرط قرار دیا گیا، یہ مذہب ہے بحر۔ا ور یہاں مذکور ہ صورت میں مجلس میں ہزار بھی ہوں تو کوئی بھی اس کو نکاح نہ سمجھیں گے کیونکہ منگنی کو وہ نکاح نہیں بلکہ اس کے مقدمات میں سے سمجھتے ہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ فتح القدیر کتاب النکاح مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۳/۱۰۳) (۲؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب النکاح مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۸۶)
مسئلہ ۶۲: ا زچونیاں ضلع لاہور مسئولہ ضیاء الدین انچارج اصطبل گورنمنٹی ۸ شوال ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے حسب ہدایت والد خو د جس نے اس کی ہدایت کی تھی کہ اپنی فلاں دختر کاناطہ اپنے فلاں برادر حقیقی کو دینا تب سے راضی ہوگیا چنانچہ اپنے والد کی موجودگی اور چند مسلمانوں کی مجلس میں اپنے برادر حقیقی کو مخاطب کرکے کہا میں نے اپنی فلاں نام والی دختر بالغہ کا ناطہ تمھارے فلاں بالغ کو دے دیا، والد پسر نے قبول کرلیا، آیا ہر دو ولیوں کے ایجاب وقبول سے یہ نکاح منعقدہو گیایا نہیں؟ اگر ہوگیا تو اب والدِ دختر اس کا اور جگہ نکاح کرسکتا ہے بغیرطلاق کے، اور ولی اور گواہان ونکاح خوانِ نکاح ثانی کے واسطے حکم شرع کیا ہے؟ بینوا توجروا
الجواب : ناتا دینا عرف میں منگنی کرنے کو کہتے ہیں اور منگنی نکاح نہیں، اس صورت میں جب تک عقد نکاح نہ ہو والدِ دختر دوسری جگہ اس کا نکاح کرسکتا ہے اور نکاح خواں وغیرہ پر کوئی الزا م نہیں، اور اگرکہیں کے عرف میں ناتا کرنا نکاح کردینے کو بھی کہتے ہیں تو وہاں دیکھا جائے گا کہ وہ مجلس جس میں یہ الفاظ ادا ہوئے عقد نکاح کے لیے تھی یامنگنی کے لیے، اگر منگنی کے لیے تھی تو وہی حکم ہے کہ نکاح نہ ہوا، اور والدِ دختر کو اختیار ہے، اور اگر نکاح کے لیے تھی اور حاضرین میں سے کم از کم دو شخصوں نے اس نکاح کے گواہ ہوسکتے ہوں وہ ایجاب و قبول سنے اور سمجھے کہ یہ نکاح ہورہا ہے تو نکاح ہوگیا اب دوسری جگہ اس کا نکاح نہیں ہوسکتا، والد دختر اور نکاح خواں اور گواہان نکاح ثانی جن کو معلوم تھاکہ اس کا نکاح پہلے ہوچکا ہے سب مبتلائے حرام ہوں گے،
درمختار میں ہے:
ھل اعطیتنیھا ان المجلس للنکاح فنکاح وان للوعد فوعد ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم
اگر ایک نے دوسرے کو کہا کیا تونے مجھے دی، دوسرے نے جواب میں ''دی'' کہا تواگر یہ مجلس نکاح ہو تو نکاح ہوگا، اور اگر مجلس وعدہ ہے تو منگنی ہوگی، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)