Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
48 - 1581
مسئلہ ۵۴: از شہر بریلی محلہ کٹرا گلی حکیم وزیرعلی مسئولہ ولایت احمد صاحب ۲ ذی الحجہ ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص ولایت احمد کا عقد قریشی بانو جس کی عمر قریب بیس سال سے زائد ہے اس کے ساتھ ہوا لیکن مسماۃ مذکورہ کی اجازت لینے کے لیے نہ وکیل صاحب گئے اور نہ گواہان گئے اور نہ مسماۃ مذکورہ سے اجازت باقاعدہ طورپر لی گئی صرف مسماۃ کے والد کی اجازت سے عقد پڑھا دیا گیا ایسی صورت میں عقد ہوا یا نہیں، اور مسماۃ مذکورہ ولایت احمد کی زوجیت میں رہتی ہے اور قریب ایک ماہ کے حمل بھی ہے حالانکہ والد مسماۃ سے کہا گیا کہ مسماۃ سے اجاز ت لینا چاہئے انھوں نے جواب دیاہمارے یہاں ضلع بدایوں میں یہی قاعدہ ہے۔
الجواب: بالغہ کا عقد کے بے اس کے اذن کے ہو بالغہ کی اجازت پر موقوف رہتاہے، اگر جائز کردے جائز ہوجاتا ہے، رَد کرے باطل ہوجاتاہے، رخصت ہو کر شوہر کے یہاں جانا بھی اجازت ہے اذاکان غیر مسبوق بالرد (جبکہ پہلے بالغہ کی طرف سے اس کو رد نہ کیا گیا ہو۔ ت) خصوصاً یہاں توحمل موجود ہے لہذا عقد نافذ ہوچکا اب اعتراض کی گنجائش نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم،
مسئلہ ۵۵: از ریاست رام پور محلہ زیارت حلقہ والی مرسلہ اکرام اللہ خاں صاحب عرف چندامیاں ۱۴ ذی الحجہ ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدکا نکاح اپنی برادری میں ایک عورت سے بایں صورت ہو اکہ گواہان نے مسماۃ مذکورہ کا نام ہندہ عرف خویلہ بنت عمر و جلسہ نکاح میں لے کر ادائے شہادت کی اس سے عورت مذکورہ کی تعریف وتعیین کما حقہ نزد جلسہ ہوگئی اور کوئی شبہ واشتراک نزد زید وقرابت داران زید جو موجود تھے باقی نہیں رہا اور ایجاب وقبول ہوکر نکاح ہوگیاا ور گواہان نکاح عورت مذکورہ کے قریبی رشتہ دار تھے جن کی گودوں میں عورت مذکورہ نے پرورش پائی ہے۔ اب والدہ مسماۃ کہتی ہیں کہ نکاح صحیح منعقد نہیں ہوا اس لیے کہ نام عورت کا جلسہ نکاح میں غلط لیا گیاہے اس کا نام کلثوم ہے، چنانچہ مہر میں اس کا نام کلثوم کندہ ہے حالانکہ سوائے مہر کے ہرجگہ ا س کانام ہندہ ہے حتی کہ تنخواہ جو مقررہ گورنمنٹ ہے اس کی وصول یابی کی رسید وں میں بھی یہی نام ہندہ لکھاجاتا ہے اور نیز گورنمنٹی چٹھی میں بھی یہی نام درج ہوتا ہے اور جو عرائض گورنمنٹ میں قبل اس سے دی گئی ہیں ان میں بھی یہی نام تحریر ہے اور عمرو کے انتقال کے بعد جو درخواست باستحقاق وراثت دی گئی ہیں ان میں بھی یہی نام ہے غرضیکہ عورت مذکورہ کے دونوں نام ہیں، ایسی حالت میں یہ نام غلط قرار دے کر نکاح کو غیر صحیح شرعا مانا جائے گا یا یہ کہ عورت کے  نام دونوں اور چونکہ ان دونوں میں سے ہندہ بہ نسبت کلثوم کے زیادہ مشہورہے اس لیےاس سے کافی طریق سے تعریف وتعیین عور ت مذکورہ کی بوقت نکاح سمجھی گئی، اس بنیا د پرنکاح صحیح شرعی منعقد ہوگیا۔ امید کہ جوا ب صاف مرحمت فرمائیے۔ بینوا توجروا۔
الجواب : اگر ہندہ ا س عورت کا نام ہے (نہ جس طرح عورتوں کو ہندہ سلمٰی مردوں کو زید عمرو سے تعبیر کرتے ہیں)اور اس نام اور صرف ذکر پدر بے ذکر جد سے حاضرین میں دو گواہان صالح شہادت نکاح مسلمہ نے اسے پہچان لیا تو نکاح صحیح ہوگیا اس کے دس نام اور بھی ہونا کچھ مضر نہیں لان المقصود التعریف لاتکثیر الحروف (کیونکہ مقصود پہچان ہے الفاظ کی کثرت مقصد نہیں۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۶: از پچھم گاؤں ضلع پٹرا بنگال مرسلہ سید عبدالاغفر صاحب ۱۰ ربیع الاول شریف ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ معتمد و معتبر ایک گواہ مذکورسے بالغہ عورت کا نکاح درست ہوگا یا نہیں یعنی ایک گواہ سے نکاح درست ہوگا یانہیں۔ بینوا توجروا۔
الجواب : نکاح ایک گواہ سے نہیں ہوسکتا جب تک دو مرد یا ایک مرد دوعورتیں عاقل بالغ مسلم نہ ہوں واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۷: از گوپال ناگر پرگنہ پیلی بھیت مسئولہ نثار احمد صاحب ۳ ۱ربیع الآخر ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدنے اپنے بھائی مرحوم عمر کی بی بی ہندہ سے بعد انقضائے میعاد عدت نکاح کی درخواست کی اس نے انکار کیا اور نہایت ناخوشی ظاہر کی تو زید کے رشتہ داران نے جبراً اذن لینا چاہا ہندہ نے رونا شروع کیا اور کہاکہ میں ہرگز رضامند نہیں تم جبر کرتے ہو اس وجہ سے کہ میرا کوئی عزیز ہمدرد یہاں موجود نہیں، ان لوگوں نے کہا کہ رونا بھی اذن میں شامل، نکاح پڑھا کر مٹھائی تقسیم کردی، بعد ایک ماہ کے ہندہ اپنے والدین کے یہاں کسی حیلہ سے چلی آئی اور جانے سے انکار ہے کہ میں نے اذن نہیں دیا فرضی نکاح پڑھا لیا میں ہر گز نہیں جاؤں گی، تو یہ نکاح جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : اگر اس نکاح کے بعد ہندہ نے زید کے ساتھ خلوت وصحبت بلاجبر واکراہ کی تونکاح جب نافذ نہ تھا اب نافذ ہوگیا، اور اگر خلوت نہ کرنے دی یاوہ بھی بالجبر ہوئی تو ہندہ کی ناراضی سے وہ نکاح باطل محض ہوگیا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۸: از موضع میراں پور مسئولہ سید عاشق حسین ولد محمد حسین ۱۲ شعبان ۱۳۳۸ھ

علمائے دین ونائب رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ وقت نکاح کے وکیل کس طرف

کا ہونا چاہئے؟ اور شاہد کس طر ف کے ہوں ؟ اور ایک دینارسرخ سلطانی کس قدر روپیہ کاہوتا ہے اور کَے دوجون پرمنقسم ہے اور تعداد کیا کیا ہے؟
الجواب: وکیل کسی طرف کا ضرور نہیں، اور دونوں طرف سے ہوسکتے ہیں، خواہ ایک طرف سے ہو، جدھر سے چاہیں، اور شاہد وہ دو مرد یا ایک مرد دوعورت عاقل بالغ آزاد مسلم ہیں کہ ایجاب وقبول معاً سنیں اور نکاح ہونا سمجھیں، وہ کسی کی طر ف کے نہیں ہوتے، یہ جو رسم ہے کہ دو گواہ معین کرتے ہیں بے اصل ہے جتنے حاضران جلسہ ا س صفت کے ہیں سب خود ہی شاہد ہیں کوئی انھیں مقرر کرے یا نہ کرے۔ دینار شرعی ساڑھے چار ماشہ بھر سونے کاتھاا ور سلاطین کے دینار کوئی معین نہیں مختلف تھے، دینار شرعی دس درہم تھا کہ یہاں کے دو روپے پونے تیرہ آنے اور کچھ کوڑیاں ہوا، غالباً نکاح کے درجوں سے سائل کی مراد مہر کے درجے ہیں، مہر کا اقل درجہ وہی دس درہم بھرچاندی ہے اور اکثر کے لیے حدنہیں جتنا بندھے، اورمہر حضرت بتول زہرا چار سو مثقال چاندی تھا کہ یہاں کے ایک سوساٹھ روپے بھر ہوئی، اور مہر اکثر ازواج مطہرات پانسو درم کہ یہاں کے ایک سو چالیس روپے ہوئے اور مہر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہاوعنہن جمیعا میں دو روایتیں ہیں چار ہزار درہم کہ گیارہ سو بیس روپے ہوئے یاچار ہزار دینار کہ گیارہزاردو سوروپے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۹: از فتحپور محلہ قاضیانہ مکان میرخیرات علی تحصیلدار مسئولہ محمد صادق ۱۰ رمضان ۱۳۳۹ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ ہندہ بازاری عورت ہے ا ور وہ زید کے پاس بلانکاح مدت تک رہی زید نے بلاعلم واطلاع ہندہ کے قاضی کے سیاہہ میں اپنا ہندہ کے ساتھ نکاح درج کردیا، ا س کے بعد ہندہ کی ماں وہیں لینے کی غرض سے آئی تو اس وقت زیدنے ہندہ سے کہا کہ تونہیں جاسکتی تیرے ساتھ میرا نکاح ہوگیا، تب ہندہ کی ماں نے ہندہ سے کہا کہ ہمارا زیور اورکپڑا ہم کو دے دے تو مجھ سے حیلہ کر رہی ہے تیرا نکاح ہوگیا ہے اس پر ہندہ نے جواب دیا کہ زیور اور کپڑا نہ دوں گی اگرتم کہتی ہوکہ نکاح ہوگیا، تو جوکچھ ہوناتھا ہوگیا اگرچہ واقعی نکاح نہیں ہوا، اس کے کچھ عرصہ بعد ہندہ زید کے پاس سے فرار ہوگئی تب زیدنے کچہری فوجداری میں عورت کے بھگالے جانے کا دعوٰی کیا، خارج ہوگیا، اس کے بعد طلب زوجہ کا دارالقضاء میں دعوٰی کیا، قاضی صاحب نے بعد لینے ثبوت وتردید کے دعوٰی ڈگر ی کیا جس کو آٹھ برس کاعرصہ ہوا ۤتوآیا یہ نکاح درست ہوا یانہیں، جبکہ واقعی عورت سے اجازت نہیں لی گئی اور دوسرے کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟ اور عورت بعد مفروری عرصہ دس بارہ سال سے زید کے ساتھ حرام کررہی ہے۔
الجواب : زید کا بے اطلاع ہندہ سیاہہ میں اس کے ساتھ اپنانکاح ہونا درج کرادینا نکاح نہیں، نہ ہندہ کاکہناکہ اگر تم کہتی ہو کہ نکاح ہوگیا تو جو کچھ ہوناتھا ہوگیا کسی طرح حد نکاح میں آسکتاہے توہندہ ضرور بے نکاحی تھی، رہی دارالقضا کی ڈگری، اس کی تفصیل معلوم ہونی ضرور دعوٰی کہ اس میں ہوا شرائط شرعیہ پر صحیح تھا یا نہیں، ثبوت کیا گزرا اور وہ قوانین شرعیہ پر صحیح تھایا نہیں، حکم کس نے دیا، اور وہ قاضی عند الشرع تھا یا نہیں، اگر ان میں سے ایک بات بھی کم ہے ہندہ بدستور بے نکاحی ہے زید کو اس پرکوئی دعوٰی نہیں پہنچتا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
 (اس کے بعد پھر وہیں سے سوال آیا جو مع جواب منقول ہے)
یہ واقعہ حیدر آباد دکن کا ہے وہاں حکومت کی طرف سے عدالت قضا قائم ہے جس میں طلاق، خلع، ترکہ، مہر، طلب زوجہ کے مقدمات حسب قانون شرع شریف دائر ہوتے اور فیصل ہوتے ہیں مگر قاضی صاحب جنھوں نے اس مقدمہ کوفیصل کیا ہے غیر متشرع تھے یعنی داڑھی منڈی ہوئی لباس کوٹ پتلون مگر ساتھ ہی اس کے سفارش رشوت سے قطعی اجتناب رکھتے تھے اور گواہان جیسے فی زماننا حالت ہے اور ناکح صاحب بھی بہت معمولی طور پر پڑھے ہوئے ہیں لہذا اس صورت واقعہ پرمسئلہ بالا کا کیا جواب ہوگا؟ بینوا توجروا۔
الجواب: جبکہ وہ قاضی منجانب سلطنت اسلامیہ فصل قضا پر مقررہے، اگر اس کے یہاں دعوٰی بروجہ صحیح شرعی ہوا اور ثبوت بروجہ شرعی گزرا اور قاضی نے ثبوت نکاح کا حکم دیا تونکاح ثابت ہوگیا، ہندہ بغیر موت یا طلاق دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی۔
کما فی الھدایۃ وتنویر الابصار ۱؂وغیرھا من معتمدات الاسفار ورجحہ المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر وقد قال امیرالمومنین علی کرم اﷲ وجہہ الکریم شاھداک زوجاک ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جیسا کہ ہدایہ، تنویر الابصار وغیرہما کتب معتمدہ میں ہے اورفتح القدیر میں محقق علی الاطلاق نے اس کو ترجیح دی ہے، اور حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ تجھے تیرے گواہوں نے بیاہ دیا ہے۔(ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار    کتاب القضاء فصل فی الحبس    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/۷۹)

(۲؎ فتح القدیر        باب المحرمات        نوریہ رضویہ سکھر    ۳/۵۶)
مسئلہ ۶۰: ازر یاست جاورہ، لال املی مسئولہ ممتاز علی خاں اہل کار حساب ۲ شوال ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کی صحیح ولدیت زید ہے اور بوقت نکاح بکر قائم کرکے ایجاب وقبول ہوا ہے توایسانکاح درست ہوا یا نہیں؟ نیز اس کا اصل باپ یعنی زید جو زندہ موجود ہے بروقت نکاح نہ اس سے اجازت لی گئی نہ اسے اطلاع دی صورت مسؤلہ میں اگر نکاح نہیں ہوا تو کیا ہندہ اپنی منشا کے موافق اپنے کفو میں نکاح ثانی کرسکتی ہے، ایام عدت کی قید ہے یا نہیں،؟ ہندہ بـالغہ ہے۔ بینوا توجروا۔
الجواب : اگر ہندہ اس جلسہ نکاح میں حاضر نہ تھی اورا س کی طرف اشارہ کرکے نہ کہا گیا کہ اس ہندہ بنت بکر کا نکاح تیرے ساتھ کیا بلکہ ہندہ کی غیبت میں یہ الفاظ کہے گئے توہندہ کانکاح نہ ہوا۔ نہ اسے طلاق کی حاجت نہ عد ت کی ضرورت جس سے چاہے اپنا نکاح کرسکتی ہے کہ نکاح تو ہندہ بنت بکر کا ہوا اور یہ ہندہ بنت بکر نہیں، ہاں اگر بکرنے اسے  پرورش یا متبنی کیا تھا اور وہ عرف میں ہندہ بنت بکر کہی جاتی ہے اور اس کے کہنے سے اس کی طرف ذہن جاتا ہے تونکاح ہوگیااب بغیرطلاق ہندہ کو مخلص نہیں۔
درمختار میں ہے:
غلط وکیلھا بالنکاح فی اسم ابیھا بغیر حضور ھا لم یصح ۱؎۔
لڑکی کی غیر موجود گی میں اس کے وکیل نے لڑکی کے باپ کا نام غلط کہہ دیا تونکاح صحیح نہ ہوگا۔ (ت)
(۱؎ درمختار         کتاب النکاح        مطبع مجتبائی دہلی        ۱/۱۸۷)
عالمگیری میں ہے:
قال امرأتہ عمرۃ بنت صبیح طالق وامرأتہ عمرۃ بنت حفص ولانیۃ لہ لاتطلق امرأتہ فان کان صبیح زوج اُم امرأتہ وکانت تنسب الیہ وھی فی حجرہ فقال ذٰلک وھو یعلم نسب امرأتہ اولایعلم طلقت امرأتہ ۲؎۔
کسی شخص نے طلاق دیتے وقت اپنی بیوی کا نام عمرہ بنت صبیح کو طلاق کہا جبکہ اسکی بیوی کا نام عمرہ بنت حفص ہے توطلاق کے وقت ا س شخص نے کوئی نیت نہ کی تو اس کی بیوی کوطلاق نہ ہوگی، اور اگر اس کی بیوی عمرہ کی ماں کے دوسرے خاوند کا نام صبیح تھا اور یہ عمرہ اپنی ماں کے ساتھ صبیح کی پرورش میں رہی اس وجہ سے عمرہ صبیح کی طرف منسوب ہوتی ہے اور خاوند کو عمرہ کے اصل نسب کا علم ہے دونوں صورتوں میں اس کی بیوی عمرہ کوطلاق ہوجائیگی۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ    الباب الثانی فی ایقاع الطلاق    الفصل الاول    نورانی کتب خانہ پشاور     ۱/۳۵۸)
Flag Counter