فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۵۰: از ریاست رامپور مسئولہ سید احمد میاں صاحب برادرزادہ مولانا سید محمد عاشق صاحب علیہ الرحمۃ ۶رمضان ۱۳۳۷ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ خالد کا نکاح مسماۃ حیات النساء بیگم عرف رضیہ بیگم پر دہ نشین بنت زید سے قرار پایاتھا، حسب قاعدہ شہود واسطے حصول اجازت واذن مسماۃ کے پاس گئے اور بعد حصول اجاز ت شہود نے قاضی کے روبرو جلسہ عام میں شہادت اس صورت سے ادا کی کہ سعادت النساء بیگم عرف رضیہ بیگم بنت زید نے اپنے نکاح کا اختیار عمرو وکیل کو دیا، چنانچہ قاضی نے باجازت عمرو وکیل بہ تعداد مہرِمثل خالد کے ساتھ نکاح پڑھایا، آیا شرعا نکاح مسماۃ مذکور کاخالد مذکو ر کے ساتھ صحیح ہوا یا نہیں کیونکہ شہود نے بجائے نام حیات النساء عرف رضیہ بیگم زید کے سعادت النساء بیگم عرف رضیہ بیگم بنت زید شہادت میں ادا کیا، سعادت النساء بیگم بنت زید کوئی نہیں ہے اورنہ سعادت النساء کا عرف رضیہ بیگم ہے، اس صورت کی غلطی سے نکاح منعقد ہوا یا نہیں؟
الجواب: یہ طریقہ نکاح مخترع اہل ہند ہے وکیل بالنکاح مجاز توکیل نہیں، شہادت کہ ان گواہوں نے دی باطل گئی، نہ اس کا کچھ اعتبار ہے، قاضی جس نے ایجاب کیا اگر اس نے ایجاب صحیح لفظوں سے کیا جن سے کم ازکم دو حاضران جلسہ جامعان شرائط شہادت کے نزدیک منکوحہ متمیز ہوگئی نکاح فضولی منعقد ہوگیا کہ رضیہ کی اجازت پر موقوف رہا اور اگر اس نے بھی ایجاب میں وہی لفظ سعادت عرف رضیہ بنت زید کہے تو نکاح باطل ہوا کہ ان تینوں لفظوں کی مصداق وہاں کوئی عورت نہیں،
عالمگیریہ میں ہے:
لر جل بنتان کبری عائشہ وصغری فاطمۃ ارادان یزوج الکبری وعقد باسم فاطمۃ ینعقد علی الصغری ولو قال زوجت ابنتی الکبرٰی فاطمۃ لاینعقد علٰی احدٰھما کذافی الظھیریۃ ۱؎۔
ایک شخص کی دو بیٹیاں ہیں ایک بڑی جس کا نام عائشہ ا ور دوسری چھوٹی جس کا نام فاطمہ ہے، اس نے بڑی کانکاح کرتے ہوئے فاطمہ کا نام لیا تو چھوٹی کا نکاح ہوگیا، اور اگرنکاح کرتے ہوئے اس نے یوں کہا کہ میں نے اپنی بڑی بیٹی فاطمہ کا نکاح دیا، توکسی بیٹی کا نکاح نہ ہوا، ظہیریہ میں ایسے ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوی ہندیہ کتاب النکاح الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۷۰)
ولوالجیہ میں ہے:لاینعقد علی احدٰھما لانہ لیس لہ ابنۃ کبری بھذا الاسم ۲؎ اھ ونحوہ فی الفتح ۳؎ عن الخانیہ ولاتنفع النیۃ ھٰھنا ولامعرفۃ الشہود بعد صرف اللفظ عن المراد۔ واﷲ تعالٰی اعلم
کسی بیٹی کا نکاح نہ ہوا کیونکہ اس کی بیٹی کی کوئی بڑی بیٹی اس نام کی نہیں ہے اھ اور فتح میں خانیہ سے بھی یہی مروی ہے اور یہاں نیت اورگواہوں کا فہم کارآمد نہ ہوگا جبکہ اس نے مراد کے خلاف صریح لفظ استعمال کیا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
( ۲؎ ولوالجیہ ) ( ۳؎ فتح القدیر کتاب النکاح نوریہ رضویہ سکھر ۳/۱۰۴)
مسئلہ ۵۱، ۵۲: از شہر میرٹھ اندر کوٹ مرسلہ عبدالرحمان صاحب عرف ننھے ۲۰ رمضان المبارک ۱۳۳۷ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ: (۱) اہل تسنن واہل تشیع میں باہم عقد ہوسکتا ہے یا نہیں یعنی لڑکا فرقہ شیعہ کا ہو اور لڑکی اہلسنت وجماعت کی ہو ان دونوں میں باہمی نکاح مذہب اہل سنت کے عقائد کے موافق صحیح ہوگا یا نہیں؟ (۲) اگر کچھ عرصہ بعد لڑکی اہل تشیع ہوجائے تو نکاح رہے گا یا نہیں؟
الجواب (۱) عوام ان تبرائی روافض کواہل تشیع کہتے ہیں ان سے مناکحت حرام قطعی وباطل محض، اور قربت زنائے خالص ہے اگرچہ مرد سنی اور عورت ان میں کی ہو، نہ کہ عکس کہ اشد غضب اللہ کا موجب ہے، والعیاذباللہ تعالٰی۔ (۲) اگر وقت نکاح سنی تھے پھر مرد معاذاللہ ان میں کا ہوگیا تونکاح فوراً فسخ ہوگیا خواہ عورت نے بھی وہی مذہب اختیار کرلیا ہو یا نہیں۔
لان ردۃ الرجل فسخ فی الحال بالاجماع ولانکاح لمر تد مع احد ولو مرتدۃ مثلہ ۴؎۔ کما فی الدرالمختار والفتاوی العالمگیریۃ وغیرھما۔
کیونکہ خاوند کے ارتداد سے فوراً نکاح فسخ ہوجاتا ہے بالاجماع، اور مرتد کا کسی سے بھی حتی کہ اس جیسی مرتدہ سے بھی نکاح جائز نہیں، جیسا کہ درمختار اور فتاوٰی عالمگیری وغیرہما میں ہے۔ (ت)
(۴؎ فتاوٰی ہندیہ القسم السابع المحرمات بالشرک نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۸۲)
اگرعورت سنیہ رہی اور ہنوز خلوت نہ ہوئی تھی تو ابھی اور ہو چکی تھی تو بعد عدت جس سے چاہے نکاح کرلے، اگر شوہر اسلام لے بھی آئے اس پر کچھ اختیا رنہیں رکھتا
لان المنفسخ لایعود
(کیونکہ فسخ شدہ نکاح بحال نہیں ہوسکتا۔ ت) اگر عورت معاذاللہ ان میں کی ہوگئی اور مرد سنی رہا تو نکاح تو فسخ نہ ہوا
علی مافی النوادر وحققنا الافتاء بہ فی ھذا الزمان فی فتاوٰنا
(نوادر کی روایت کے مطابق اور ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کی ہے کہ اس زمانہ میں فتوٰی یہی ہے۔ ت) مگر مرد کو اس سے قربت حرام ہوگئی جب تک اسلام نہ لائے
لان المرتد لیست باھل ان یطأھا مسلم اوکافر او احد
(کیونکہ مرتد عورت ا س قابل نہیں رہی کہ کوئی بھی اس سے وطی کرے خواہ مسلمان مرد ہو یا کافر یا کوئی بھی ہو۔ ت) ان مسائل کی تحقیق رسالہ ردالرفضہ میں ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۳: از نگینہ مرسلہ عبدالرشید صاحب سوداگر سب ایجنٹ برہما آئل کمپنی کیافر ماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی عورت کا نکاح کسی ایسے شـخص سے ہو جس کی ایک عورت اور بچے ہوں اور وہ شخص معاش اس قدرکافی رکھتا ہو کہ ان سب کی پرورش کے لیے نہایت کافی ہو، مرد میں کسی قسم کا نقص نہ ہو، عورت بوقت نکاح بالغ ہو، مہر ایک ہزار روپیہ ہو، نکاح مکان منکوحہ پر ہو جس کو عرصہ تین سال پانچ ماہ ہوئے ہوں شوہر نے بعد عقد پندرہ بیس مرتبہ مختلف اوقات میں کئی کئی یوم قیام کیا، کیا عورت منکوحہ کو تنسیخ نکاح کا دعوٰی کرنے کا حق ہے؟ بیان منکوحہ حسب ذیل ہے: میری پیدائش ایک ماہ بعدا نتقال والدہوئی میں نے آغوش مادر میں پرورش پائی اور ہنوز والدہ کے پاس رہی، میری والدہ نے ا س شخص کے ساتھ عقد کردیا، شخص مذکور نے یہ دھوکا دیاکہ نہ میری بیوی ہے نہ بچے، میری والدہ کے انتقال کو دو ماہ کاعرصہ ہوا، میں والدہ کی وجہ سے مجبور تھی، اب میں خودمختار ہوں، بیان شوہر میں نے بیوی بچے ہونے کا اقرار کیا اور چھپایا نہیں، اس کا علم منکوحہ اور ان کے جملہ رشتہ داران کو ہے جس کی بابت تحریریں شوہر کے پاس ہیں ایسی حالت میں منکوحہ عورت کے صرف بیان پرکہ میرے شوہر کے پاس اور بیوی بچے موجود ہیں اور شوہر نے دھوکا دیا، نکاح میری لاعلمی میں ہوا، کیا حکم شرع شریف ہے؟
الجواب :عورت کے عذرات باطل ہیں، برسوں سکوت ومعاملہ زن و شوئی کے بعد یہ مہملات پیش کرتی ہے، ماں کی زندگی کیا باعث مجبوری تھی، نہ بی بی بچوں کا عذر قابل سماعت۔ نہ مجبوری مانع جواز نکاح، اس پر فرض ہے کہ شوہر کی اطاعت کرے، اس شیطانی خیال سے باز آئے، واللہ تعالٰی اعلم۔