Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
45 - 1581
مسئلہ ۴۶:از ملیح آباد ضلع لکھنؤ مرسلہ محمد یوسف خاں صاحب ۱ ۱ جمادی الاولٰی ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص حنفی المذہب بحلف کچہری میں بیان کرتا ہے کہ اس نے ایک مسماۃ کے ساتھ عقد کے وعدہ پر متعہ کرلیا، اب ایسا شخص مذہب حنفی کے اندر داخل رہا یا نہیں؟ اور سنی حنفی لوگوں کو نماز میں اس کی امامت یا جماعت جائز ہے یا نہیں؟ اور اس کا یہ فعل شرعاً کیا قراردیا جاسکتا ہے؟ اور ایسی حالت میں اس کی بیعت ارادت جوایک بزر گ کے ہاتھ پر کی تھی قائم رہی یا نہیں؟ اور ایسے شخص کے افعال واقوال معتبرہوں گے یا نہیں؟ اور حنفی سنی لوگ بعدا س کے مرنے کے اس شخص کی تجہیز وتکفین ونماز جنازہ پڑھنے کے شرعا ذمہ دار ہیں یا نہیں؟
الجواب: متعہ نص قرآن عظیم واجماع ائمہ اہلسنت بلا شبہ باطل وحرام قطعی ہے،
قال تعالٰی: فمن ابتغٰی وراء ذٰلک فاولئٰک ھم العادون ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: جو شخص (بیویوں اور لونڈی مملوکہ) کے علاوہ غیر کی خواہش کرتاہے وہ حد سے متجاوز ہے۔ (ت)
 (۱؎ القرآن        ۲۳/۷)
شخص مذکوراس کے ارتکاب اور کچہری میں اعلان سے فاسق معلن ہوا اس کی امامت ممنوع اور اس کے پیچھے

نماز پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب۔
فتاوٰی حجہ میں ہے:
لوقد موا فاسقا یاثمون ۱؎۔
اگر فاسق کوامام بنایا تووہ گناہ گار ہوں گے۔ (ت)
 ( ۱؎ غنیہ المستملی منیۃ المصلی بحوالہ فتاوٰی حجہ    فصل فی الامامۃ            مجتبائی دہلی            ص۲۷۹)
غنیہ میں ہے:
بناء علی ان کراھۃ تقدیمہ کراھۃ تحریم لعدم اعتنائہ باموردینہ فلا یبعد منہ الاخلال ببعض شروط الصلوۃ وفعل ما ینافیھا ھو الغالب بالنظر الی فسقہ ۲؎۔
اس بناپر کہ فاسق کو امام بنانے کی کراہت، کراہت تحریمی ہے، کیونکہ وہ دینی امور سے بے اعتنائی کرتاہے تو کیا بعیدکہ وہ نماز کی بعض شرطوں میں خلل اور ان کے منافی عمل نماز میں کردے، اس کے ظاہر حال سے یہی غالب گمان ہوتا ہے (ت)
 ( ۲؎ غنیہ المستملی منیۃ المصلی بحوالہ فتاوٰی حجہ فصل فی الامامۃ  مجتبائی دہلی       ص۲۷۹)
اور جب ایک بدبودار چمڑے کے لیے اس نے حرام قطعی کا ارتکاب کیا اور بیباک اتناکہ کچہری میں اس کا خود اعلان کیا تواس کے قول وفعل کا کیا اعتبار رہا، بلکہ معاذاللہ مرتے وقت اس کے سلب ایمان کا خوف ہے،
تا تارخانیہ و ردالمحتار وغیرہما میں ہے:
حکی ان رجلا من اصحاب ابی حنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ، خطب الٰی رجل من اصحاب الحدیث ابنتہ فی عہد ابی بکر الجوزجانی فابی الا ان یترک مذھبہ، فیقرأ خلف الامام ویرفع یدیہ عندالانحطاط ونحو ذلک فاجا بہ فزوجہ فقال الشیخ بعد ماسئل عن ھذہ واطرق راسہ النکاح جائز ولکن اخاف علیہ ان یذھب ایمانہ وقت النزع لانہ استخف بمذھب الذی ھو حق عندہ وترکہ لاجل جیفۃ منتنۃ ۳؎۔
ایک شخص کے متعلق بیان کیا گیاہے کہ وہ امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا مقلد تھا اس نے (شافعی مسلک) ایک محدث کی لڑکی کی منگنی چاہی تو محدث صاحب نے حنفی مسلک چھوڑنے اور رفع یدین اور قرأت خلف الامام کرنے کی شرط پر رشتہ دیا جواس نے قبول کرلیا اور محدث صاحب نے نکاح دے دیا، یہ واقعہ شیخ ابو بکر جوزجانی کے زمانے کا ہے جب آپ سے اس واقعہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے سوچ بچار کے بعد فرمایا: نکاح تو جائز ہے لیکن اس شخص کے بارے میں مجھے اندیشہ ہے کہ نزع کے وقت اس کا ایمان جاتا رہے کیونکہ اس نے اپنے پسندیدہ مذہب کی توہین کی ہے اور اسے بدبودار مردار کی خاطر چھوڑ دیا۔ (ت)
 (۳؎ ردالمحتار            کتاب الحدود مطلب اذا ار تحل الٰی غیر مذھبہ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/۱۹۰)
بلکہ متعہ کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی سوائے اس کے کہ جس سے کیاوہ رافضیہ ہو اور رافضیہ حال سے نکاح بھی باطل ہے نہ کہ متعہ، تو یہ حرام در حرام ہوا، ظہیریہ وہندیہ وحدیقہ وغیرہا کتب معتمدہ میں ہے :
احکامھم احکام المرتدین ۱؎
 (ان سے متعلق مرتدین کے احکام ہیں۔ت)
 ( ۱؎ الحدیقۃ الندیہ    مطلب الاستخفاف بالشریعۃ کفر ای ردہ    مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۱/۳۰۵)
بالجملہ وہ شرعا سخت سز اکا مستحق ہے مگر ارتکاب حرام کے باعث کافر نہ ہوا کہ اس کی بیعت فسخ ہوجاتی یا اس کے مرنے پرمسلمان اس کی تجہیز وتکفین ونماز کے ذمہ دار نہ رہیں بلکہ بہ سبب کبیرہ حنفیت سے بھی خارج نہ ہوگا اگر اسے حرام جان کر کیا ہو، ہاں اگرحلال جانا توحنفیت کیا سنیت سے خارج ہوگیا
ولایخرج عن الاسلام لما لھم فیم الشبھۃ
(شبہ والی بات سے خارج از اسلام نہ ہوگا۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter