(۲) باپ نے بیٹی کا نکاح کسی بچے سے کیا اور خاوند بچہ ہے اس لیے باپ نے بیٹی کو اپنے گھرپر رکھا اور رخصتی نہ دی، باپ کے فوت ہونے پر بیٹی دو تین سال سے بالغ ہے اور لڑکا تاحال نابالغ ہے تو کیا اب لڑکی کے بھائیوں پر کوئی گناہ ہوگا اگر وہ نابالغ کے حوالے نہ کریں، یا گناہ نہ ہوگا؟ اور اب باپ مرحوم کے بارے میں بھی بتا یا جائے کہ اس کا فعل درست تھا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا گناہ ہے؟ (ت)
الجواب :
(۱) پیر زن راخود جبر برنکاح نتواں کردہ جوان نیزاگر بر نفس خود اطمینان دارد واتباع رسم باطل ہنود نمی کنند از قید نکاح دیگر آزا دماندنش می رسد کمادل علیہ حدیث ام سلمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا وبیناہ فی اطائب التھانی آرے اگر برخود اطمینان ندارد نکاح واجب ست واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱) عورت بوڑھی ہو تو اسے نکاح پر مجبور نہ کیا جائے اور اگر جوان ہے تو بھی اس پر جبر نہیں بشرطیکہ وہ اپنے نفس کو محفوظ رکھنے میں مطمئن ہو، اور ہندؤوں کی غلط رسم کی پیروی میں نکاح سے انکار نہ کرتی ہو، توا س کو دوسرے نکاح کی قید سے آزاد رہنے کا حق ہے جیساکہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا والی حدیث اس پر دال ہے، اور اس کو ہم نے اطائب التہانی میں بیان کیا ہے،ہاں اگر جوان عورت کو اپنے نفس کے بارے میں اطمینان نہ ہو تو پھر اس پر نکاح کرنا واجب ہے۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
(۲) قاصرہ رانکاحیکہ پدر کرد فسخ نتواں نمود گوبا غیر کفو وبغبن فاحش درمہر باش صبی اگر مراہق شدہ زنش رامے خواہد باوسپر دن لازم ست۔ واللہ تعالٰی اعلم
نابالغہ کا نکاح جو والد نے کیا ہے وہ لازم ہے کفو میں ہو یا غیر کفو میں، پورے مہر سے ہو یا بہت کم مہر پر، لڑکا اگر قریب البلوغ ہواور وہ بیوی کی رخصتی کا مطالبہ کرے تو رخصتی ضروری ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۵: از مقام گائے گھاٹ ڈاکخانہ ہلدی ضلع بلیا مرسلہ مولوی عبدالحی صاحب ۹ ربیع الآخر ۱۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت گنگی یہاں ایک ماہ سے آئی ہے اس کے ساتھ اس کا ایک لڑکا چار پانچ برس کا ہے، اس کے قبل یہ عورت یہاں سے دس میل پر ایک گاؤں ہے وہاں پندرہ مہینے سے تھی جب وہاں آئی تو ادھر اُدھر پتا لگایا گیا مگریہ پتا نہیں لگا کہ عورت کہا ں کی ہے اور اس کا شوہر مرگیا ہے یا زندہ ہے اور لاپتا ہوگیا یا طلاق دے دیا، اب اس کو ایک شخص نے نکاح کرنے کے لیے رکھا ہے بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کا شوہر زندہ رہتا تو لڑکے کو نہ چھوڑتا، اب اس کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب: نکاح نہیں ہوسکتا،
فان المانع معلومہ والمزیل مجھول وما ثبت بیقین لایزول الا بیقین مثلہ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیونکہ اس سے نکاح میں مانع (شادی شدہ) ہونا معلوم ہوتا ہے اورمانع کو ختم کرنے والا (خاوند کا فوت ہونا یا طلاق دینا) معلوم نہیں ہے تویقینی امر کا زوال بھی اس جیسے یقینی امر سے ہی ہوسکتا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم (ت)