فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۴۰: مسئولہ عبدالرحیم خاں یکم رجب ۱۳۲۹ھ نکاح کے وقت ولی کی بات قبول کی جائے گی یا لڑکی کے زبانی الفاظ جو وہ کہتی ہے اور ولی کس کو بنا نا چاہئےـ؟ نکاح میں ضروری الفاظ اور لازمی کیا کیا ہیں ا ور ان کا طریقہ کیا ہے؟
الجواب : لڑکی بالغہ ہے توا س کا اپنا ایجاب یا قبول ہونا چاہئے اگرچہ بواسطہ وکیل۔ اور نابالغہ ہے تو ا س کے ولی کا ولی کسی کے بنانے کا نہیں ہوتابلکہ وہ شرع مطہر نے ترتیب وار مقرر کئے ہیں سب میں پہلا ولی بیٹا ہے پھر باپ پھر داداپھر سگابھائی پھر سوتیلا پھر سگا بھتیجا پھر سوتیلا پھر سگا چچا پھر سوتیلا پھر سگے چچا کا بیٹا پھر سوتیلے کا، وعلٰی ہذالقیاس دادا پر داداکی اولاد کا جومرد عاقل بالغ قریب تر ہو گاوہی ولی ہے، اور ان میں کوئی نہ ہو تو پھر ماں ہے، اسی طرح بترتیب اصحاب فرائض، پھر ذوی الارحام، اورا ن میں کوئی نہ ہو تو پھر حاکم اسلام۔ نکاح میں ضروری الفاظ ایجاب وقبول ہیں جن سے عقد سمجھا جائے نہ وعدہ مثلاً مرد عورت سے کہے میں نے تجھے اپنے نکاح میں لیا عورت کہے میں نے قبول کیا یاعورت کا وکیل کہے میں نے فلاں عورت بنت فلان ابن فلاں کو دادا تک نام لے اگرصرف باپ کے نام سے پوری تمیز نہ ہوجائے یا عورت سامنے بیٹھی ہے تو کسی کے نام لینے کی حاجت نہیں اشارہ کرکے کہے اس عور ت کو تیرے نکاح میں دیا مردکہے میں نے قبول کیا اور دو مرد یاایک مرد دو عورتیں مسلمان عاقل بالغ آزاد ان دونوں کی گفتگو کو معاً سنیں اور سمجھیں کہ یہ نکاح ہو رہا ہے، بس اسی قدر ضروری ہے اس کے سوا خطبہ پڑھنا سنت ہے اور کلمے پڑھانا ایک اچھی بات ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۴۱: از ریاست رام پور محلہ پیلا تالاب مرسلہ مولوی شفاعت رسول صاحب سلمہ قادری برکاتی رضوی ۱۵ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ حضور پر نور کادربارہ متعہ کے کیا ارشاد ہے، اوائل اسلام میں جائز تھا پھر حرام کردیا گیا، آیا اس کی حرمت حدیث سے ثابت ہے یا اقوال سے؟
الجواب : متعہ کی حرمت صحیح حدیثوں سے ثابت ہے، امیر المومنین مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ارشادوں سے ثابت ہے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے اقوال شریفہ سے ثابت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن عظیم سے ثابت ہے،
اللہ عزوجل فرماتا ہے۔
والذین ھم لفروجھم حٰفظون، الاعلی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین، فمن ابتغٰی وراء ذٰلک فاولئٰک ھم العادون ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جو لوگ اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے ماسوا سے اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں وہ ملامت سے محفوظ ہیں اورجو لوگ غیر کے متلاشی ہیں وہ حد سے متجاوز ہیں۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ القرآن ۲۳/۷۔ ۶۔ ۵)
مسئلہ ۴۲: از موضع میونڈی بزرگ مرسلہ سید امیر عالم حسن صاحب مورخہ ۷ ربیع الاول شریف ۱۳۳۷ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کی آشنائی ایک طوائف سے ہے اورا س سے فعل حرام کرتاہے اور اس سے کئی اولاد پیدا ہوچکی ہیں اب طوائف مذکور کایہ ارادہ ہے کہ میرا نکاح ا س زید آشنا سے ہوجائے تاکہ میں فعل حرا م سے بچ جاؤں، زیدکی بھی کچھ منشاپائی جاتی ہے لیکن زید کے گھروالے اس نکاح کے منکرہیں اور زید پر اس بات کا دباؤ ڈالتے ہیں کہ اگر تونے اپنا نکاح طوائف سے کیا تو تم کو برادری سے خارج کردیں گے اس واسطے کہ ہمارے خاندان کو دھبہ لگانا ہے کیونکہ ہم شریف ہیں، اور نہ اس کی اولاد کا ہم لوگ اپنی برادری میں شادی بیاہ کرسکتے ہیں، یہ نکاح ٹھیک نہیں، اب علمائے دین فرمادیں کہ یہ نکاح کرنا کیساہے، آیا سنت میں داخل ہے یاخلاف سنت؟ اور زید ا س نکاح کے کرنے سے دائرہ اسلام اور برادری میں رہا یانہیں؟ اور منکر اس نکاح کے کس درجہ میں شمار کئے جائیں ؟ اور جو اس نکاح پر اعتراض کریں اور برا کہیں وہ کس درجہ میں شمارہیں؟ فقط، جناب اعلٰی حضرت کے مع آیت وحدیث، مہر، دستخط کے امید وار ہیں، بینوا توجروا
الجواب: نکاح سنت ہے مگر رنڈی سے نکاح سنت نہیں، بلکہ اس کے جائز ہی ہونے میں ائمہ کااختلاف ہے، پھر ایک جائز بات جس سے فتنہ ونفرت پیدا ہو اورآپس میں پھوٹ پڑے، ناجائز ہوجاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیںـ :
بشروا ولاتنفروا ۱؎
(خوشخبری دو اور نفرت نہ پھیلاؤ۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ صحیح بخاری باب ماکان النبی یتخولھم بالموعظۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۶)