Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
42 - 1581
وجیز امام کردری میں ہے:
لقنت المرأۃ بالعربیۃ زوجت نفسی من فلان ولاتعرف ذٰلک وقال فلان قبلت والشھود یعلمون اولایعلمون صح النکاح قال فی النصاب وعلیہ الفتوی وکذا الطلاق وقال الامام شمس الاسلام الاوزجندی لالانہ کالطوطی وسیأتی علیہ التعویل ۱؎۔
کسی عورت کو عربی میں کہلایا گیا "زوجت نفسی من فلان" (میں نے اپنے آپ کو فلاں شخص سے بیاہ دیا) جبکہ عورت کو اس عبارت کا معنٰی معلوم نہ تھا اس کے بعداس فلاں شخص نے جوا ب میں "قبلت" (میں نے قبول کیا) کہا تو صحیح ہوگا خواہ گواہوں کو عبارت کا معنی معلوم ہو یا نہ ہو، نصاب میں فرمایا کہ اسی پر فتوٰی ہے اور مسئلہ طلاق کا بھی یہی حکم ہے، اور امام شمس الاسلام اوزجندی نے فرمایا: طلاق نہ ہوگی کیونکہ مذکورہ صورت میں مرد، طوطے کے مانند ہے اور عنقریب آئے گا کہ اس پر اعتماد ہے۔ (ت)
 ( ۱؎ فتاوٰی بزازیہ علی ھامش فتاوی ہندیہ    کتاب النکاح    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/۱۰۹)
اسی میں ہے:
لقنہ الطلاق بالعربیۃ وھولایعلم قال الفقیہ ابواللیث لایقع دیانۃ وقال مشائخ اوزجند لایقع اصلا صیانۃ لاملاک الناس عن الابطال بالتلبیس وکذالو لقنت الخلع وھی لاتعلم وقیل یصح والمختار ماذکرنا ۲؎ اھ ملتقطا۔
خاوند کو کسی نے عربی زبان میں طلاق سکھائی جبکہ وہ ا س کا معنٰی اورمقصد نہ جانتا تھا اس کے طلاق کہنے پر فقیہ ابواللیث کے قول کے مطابق دیانۃً طلاق نہ ہوگی، اور مشائخ اوزجند نے فرمایا طلاق بالکل نہ ہوگی تاکہ دھوکے سے لوگوں کے اموال کو ضیاع سے بچایاجاسکے، اوریوں ہی اگر عورت کو خلع سکھایاگیا اور اس کو معلوم نہیں کہ معنٰی کیاہے، تو بعض نے کہا کہ خلع صحیح ہوگا جبکہ مختار وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے اھ ملتقطا (ت)
 (۲؎ فتاوٰی بزازیہ علی ھامش فتاوی ہندیہ     مسائل الایقاع بلاقصد الخ    نورانی کتب خانہ پشاور   ۴/۱۷۹)
رہا نکاح میں گواہوں کا سمجھنا، اس میں تحقیق وتوفیق یہ ہے کہ معنٰی بمعنی اول کا سمجھنا ضرور نہیں بمعنی دوم کا سمجھنا دیانۃً وقضاءً ہر طرح لازم ہے یعنی اتنا جانتے ہیں کہ یہ نکاح ہورہاہے یہ الفاظ ایجاب وقبول ہیں اگرچہ تفسیر الفاظ نہ جانیں نہ اس سے آگاہ ہوں،
درمختار میں ہے:
شرط حضور شاہدین فا ھمین انہ نکاح علی المذھب، بحر ۳؎۔
نکاح سمجھنے والے دوگواہوں کی حاضری شرط ہے یہ مذہب ہے بحر۔ (ت)
 (۳؎ درمختار            کتاب النکاح    مجتبائی دہلی        ۱/۱۸۶)
ردالمحتار میں ہے:
قال فی البحر جزم فی التبیین بانہ لوعقدا بحضرۃ ھندیین لم یفھما کلامھما لم یجز وصححہ فی الجوھرۃ وقال فی الظھیریۃ والظاھرانہ یشترط فھم انہ نکاح واختارہ فی الخانیۃ فکان ھو المذھب لکن فی الخلاصۃ لویحسنان العربیۃ فعقد ابھا والشھود لایعرفونھا الاصح انہ ینعقد ووفق الرحمتی بحمل الاشتراط علی اشتراط فھم انہ عقد نکاح والقول بعدمہ علی عدم اشتراط فھم معانی الالفاظ بعد فھم ان المراد عقد نکاح۱؎ اھ۔
بحر میں ہے کہ تبیین میں اس پر جزم کیا گیا ہے کہ اگر دو  ہندی گواہوں کی حاضری میں عربی میں نکاح فریقین نے کیا جن کے کلام کو وہ نہ سمجھ سکے تو نکاح جائز نہ ہوگا۔جوہر ہ میں اس حکم کو صحیح کہا ہے، اور ظہیریہ میں ہے کہ ظاہر یہی ہے کہ نکاح ہونا گواہوں کو سمجھناشرط ہے۔ اور خانیہ میں ا س کو مختار کہا تو یہی مذہب ہے لیکن خلاصہ میں ہے کہ اگر نکاح  کے فریقین عربی اچھی طرح جانتے ہیں اور انھوں نے نکاح عربی میں کیا جس کو گواہوں نے نہ سمجھا تو اصح یہ ہے کہ نکاح ہوجائیگا۔ اور علامہ رحمتی نے دونوں اقوال میں یہ موافقت کی کہ جہاں گواہوں کے فہم کو شرط کہا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ نکاح ہونے کو سمجھ لیں اورجہاں فہم کوشرط قرار نہیں دیا گیا اس سے مراد یہ ہے کہ قبول وایجاب کے الفاظ کے معانی سمجھنا شرط نہیں جبکہ نکاح ہونے کافہم حاصل ہوچکا ہو ا ھ
(۱؎ ردالمحتار            کتاب النکاح        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۲۷۳)
قلت قدکان سنح للعبد الضعیف قبل ان ارہ لاشک انہ حسن جد اوفی وجیز  الامام الکردری تزوجھا بالعربی وھما یعقلان لاالشھود قال فی المحیط الاصح انہ ینعقد وعن محمد تزوجھا بحضرۃ ھندیین ولم یمکنھما ان یعبرا لم یجز فھذا نص علی انہ لایجوز فی الاول ایضا اھ ۲؎۔
قلت اس عبد ضعیف پر واضح ہوا کہ یہ تطبیق بہت اچھی ہے جبکہ ابھی میں نے یہ نہیں دیکھا تھا اور وجیز کردری میں ہے کہ مر دوعورت نے عربی میں نکاح کیا، وہ دونوں عربی جانتے تھے اور گواہ نہ جانتے تھے محیط میں فرمایا کہ اصح یہ ہے کہ نکاح ہوجائے گا، اور امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی سے مروی ہے کہ فریقین نے عربی میں دو ہندی حضرات کی حاضری میں نکاح کیاجبکہ یہ حضرات ا س کی تعبیر پر قدرت نہیں رکھتے تو نکاح جائزنہ ہوگا، امام احمدسے مروی یہ اس بات پر نص ہے کہ عقدنکاح ہونا سمجھنے سے بھی نکاح نہ ہوگا اھ
 (۲؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش فتاوٰی ہندیہ    کتاب النکاح الفصل الخامس    نورانی کتب خانہ پشاور        ۴/۱۱۸)
اقول فی قول محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ لم یمکنھما ان یعبرا اشارۃ الی ماذکر نا اذلاحاجۃ الاالی التعبیر الذی یطلب من الشھود عنداداء الشہادۃ ولیس علیھم ان یعید وا الالفاظ التی تلفظا بھا ولا ان یعبروھا بمرادفاتھا اوترجمتھا بل لوشہد واان فلا ناتزوج فلا نۃ کفی فھذا ھوا لتعبیر المحتاج الیہ اویکفی فھذا ھوالتعبیر المحتاج الیہ اویکفی لہ ان یفھما انہ عقد نکاح وان لم یعرفا تفسیر الکلام لفظا لفظا وایضا اشتراط ھذا ھو المحقق للمقصد الذی شرع لہ الشرع شرط الشھود فی ھذا العقد منفر زاعن سائر العقود فاسقاطہ الغاء للمقصود واشتراط فھم الالفاظ زیادۃ مستغنی عنھا فعلیہا فلیکن التعویل وبہ یحصل التوفیق وباﷲ التوفیق ثم لم یظھرلی معنی قول البزازیہ فی الاول ایضا فما ھوالا الاول۔
اقول امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قول کہ ''گواہ تعبیر نہ کرسکیں'' میں اس بات کی طرف اشارہ ہے جو ہم نے ذکر کی، کیونکہ گواہوں کو تعبیر کی ضرورت صرف اس وقت پیش آتی ہے جب ان سے گواہی اداکرنے کا مطالبہ کیا جائے تواس وقت گواہوں کے لیے ضروری نہیں کہ وہ نکاح کے فریقین کے الفاظ کو دہرائیں یا ان کے الفاظ کے مترادف الفاظ یا ان الفا ظ کا ترجمہ بیان کریں، بلکہ اگر اتنا ہی بیان کردیں کہ فلاں مرد کا فلاں عور ت سے نکاح ہوا ہے، تو کافی ہے، بس یہ وہ تعبیر ہے جس کی ضرورت ہے اور اس کے لیے گواہوں کا مجلس میں اتنا سمجھنا کافی ہے کہ نکاح ہو رہاہے اگرچہ وہ الفاظ کی تفسیر و معانی نہ سمجھ پائیں، پھر یہ کہ شریعت نے خاص اس عقد نکاح کے لیے گواہوں کی حاضری کا جو مقصد متعین کیا ہے اس کے لیے یہ شرط مثبت ہے لہذا ا تنی شرط کو سمجھناشرعی مقصد سے بے اعتنائی ہوگی، اور گواہوں کی شرط لگانا غیر ضروری زیادتی ہے توا س پراعتماد ہونا چاہئے جبکہ اسی سے تطبیق ہوجاتی ہے اور اللہ تعالٰی ہی سے توفیق ہے۔ پھر مجھے بزازیہ کے پہلے قول کا مفہوم بھی نہیں ملا تو معلوم ہوا کہ ان کا بیان کردہ قول وہ پہلا قول ہی ہے۔ (ت)
بالجملہ حاصل حکم یہ ہے کہ اگر دو گواہ یہ نہ سمجھے کہ یہ عقد نکاح ہے تو نکاح مطلقا نہ ہوا اگرچہ زن ومرد خوب سمجھتے اور انشائے نکاح ہی کا قصد رکھتے ہوں اور اگردو گواہ اس قدر سمجھ لیے اگرچہ تفسیر الفاظ نہ جانتے ہوں تو اگر عاقدین بھی اتنا جانتے ہوں کہ ان الفاظ سے نکاح ہوجاتاہے تو بالاجماع نکاح ہوجائے گا اگرچہ اس زبان سے دونوں وہ اور گواہ سب نا آشنا ہوں، اور اگر عاقدین میں دونوں یا ایک کو معلوم نہ تھا کہ یہ الفاظ نکاح ہیں توجہاں احکام اسلام کا چرچا نہیں وہاں یہ جہل عذر ہے اور جہاں چرچا ہے اور وہ الفاظ کسی غیر زبان کے نہ تھے جس سےآگاہی نہ ہو تونکاح ہوجائے گا اور یہ عذر مسموع نہیں، اوراگر غیر زبان کے تھے اور فی الواقع اس نے اسے عقد نہ سمجھا تو عنداللہ نکاح نہ ہوگا، رہا قاضی، اسے نظر کامل چاہئے اگر ظاہر ہو کہ واقعی فریب کیا گیا اور دھوکا دیا گیا تو بطلان نکاح کا حکم دے ورنہ صحت کا۔
ھذا ماعندی وارجو ان یکون ھوالفقہ المتین والقول الجامع الناصع المبین۔
میرے ہاں فہم یہ ہے اور امید ہے کہ یہی مضبوط فہم ہے اور یہی جامع واضح اور خاص قول ہے (ت)
زن فاحشہ سے نکاح جائز ہے اگرچہ تائب نہ ہوئی ہو، ہاں اگر اپنے افعال خبیثہ پرقائم رہے اوریہ تاقدر قدرت انسدادنہ کرے تو یہ دیوث ہے اورسخت کبیرہ کا مرتکب، مگریہ حکم ا س کی اس بے غیرتی پرہے نفس نکاح پر اس سے اثر نہیں، حق سبحانہ وتعالٰی نے محرمات گنا کر فرمایاـ:
واحل لکم ماوراء ذالکم ۱؎
 (اور ان کے سوا جو رہیں وہ تمھیں حلال ہیں۔ ت)
 (۱؎ القرآن    ۴/۲۴)
رہی آیہ کریمہ:
والزانیۃ لاینکحھا الازان اومشرک وحرم ذلک علی المؤمنین ۲؎۔
زانیہ عورت سے صرف زانی یا مشرک نکاح کرے اور مومنین پر یہ حرام ہے (ت)
 ( ۲؎ القرآن   ۲۴/۳)
اس کاحکم منسوخ ہے قالہ سعید بن مسیب وجماعۃ (یہ سعید بن مسیب اور ایک جماعت کا قول ہے۔ ت) یا نکاح سے یہاں جماع مراد ہے
کما قال حبرالامۃ عبداﷲ بن عباس وسعید بن جبیر ومجاھد والضحاک وعکرمۃ وعبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ویزید بن ھارون ۳؎
 (جیساکہ امت کے ماہر عالم عبداللہ بن عباس اور سعید بن جبیر اور مجاہد، ضحاک، عکرمہ، عبدالرحمان بن زید بن اسلم، اور یزید بن ہارون کا قول ہے۔ ت) والتفصیل فی فتاوٰنا (اس کی تفصیل ہمارے فتاوی میں ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۳؎ تفسیردر منثور    سورۃ النور    آیہ اللہ العظمی النجفی قم ایران        ۵/۱۹)
Flag Counter