Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
41 - 1581
ثم اقول پھر جس طرح علم بمعنی اول اصلاً ضرورنہیں بمعنی دوم دیانۃً مطلقاً ضرور ہے
قال تعالٰی لِاُنْذِرْ کُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ ۲؎
(تاکہ تمھیں ڈر سناؤ ں اور ان لوگوں کوجن کویہ ڈر پہنچے۔ ت)
 ( ۲؎ القرآن    ۶/۱۹)
اگرچہ یہ بلوغ حکم حکماً ہو جیسے دارالاسلام میں ہونا اورسیکھنے کا تیسر کہ پھر نہ جاننا اپنی تقصیر ہے، ولہذا جہل کو عوارض مکتسبہ سے شمار فرماتے ہیں کہ ازالہ پرقا در ہوں کہ باقی رکھنا گویا آپ ا س کا حاصل کرناہے یہی منشاہے کہ نشہ کی طلاق واقع ہے اگرچہ ایقاع کو عقل ضرور، اور نشہ ا س کا مزیل مگر دانستہ اس کا ارتکاب خود اس کا قصور ،
اصول امام بزدوی میں ہے:
الجھل فی دارالحرب من مسلم لم یھا جریکون عذرا فی الشرائع حتی لاتلزمہ لانہ غیر مقصر وکذلک الخطاب فی اول مانزل فان من لم یبلغہ کان معذور ا فاما اذا انتشرالخطاب فی دارالاسلام فقد تم تقصیر فمن جہل بعد فانما اتی من قبلہ تقصیرہ فلا یعذر کمن لم یطلب الماء فی العمران وتیمم وکان الماء موجود افصلی لم یجز ۳؎۔
دارالحرب میں مسلمان جوکہ ہجرت کرکے دارالاسلام نہ آیا ہو اس کی شرعی مسائل میں جہالت عذر ہے کہ اس عذر کی بناء پر وہاں اس کے لیے لازم نہ ہوں گے، کیونکہ یہ اس کی طرف سے کوتاہی نہیں ہے، یونہی جب پہلا خطاب نازل ہوا اور دارالاسلام میں رہنے والے کو نہ پہنچا تووہ بھی معذور قرار پائیگا لیکن وہ خطاب جب دارالاسلام میں پھیل جائے اور تبلیغ تام ہوجائے اس کے بعد جو جاہل رہے تویہ اس کی کوتاہی شمارہوگی تو وہ معذور نہ قرار پائے گاجیسا کہ کوئی شخص آبادی میں جہاں  پانی موجود ہے تو پانی طلب یا تلاش کئے بغیر تیمم سے نماز پڑھ لے تو نماز نہ ہوگی۔ ت)
 (۳؎ اصول البزدوی        باب العوارض المکتسبہ    نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۳۴۵)
یہی معنی ہیں اس قول کے کہ دارالاسلام میں جہل عذر نہیں، اور یہیں سے واضح ہوا کہ اگر ہمارے بلاد میں کوئی جاہل سا جاہل اپنی غیر مدخولہ عورت سے کہے تجھ پر طلاق ہے عورت فورا نکاح سے باہر ہوجائے گی اور بے حاجت عدت اسے اختیار ہوگا کہ جس سے چاہے نکاح کرلے اور اس کایہ مسئلہ نہ جانناکہ غیر مدخولہ مطلقاً ہر طلاق سے بائن ہوجاتی ہے اسے مفید نہ ہوگا، کسی نا خواندہ ہندی یا بنگالی کو اگر سکھائے کہ عورت سے کہہ:
ترا از ز نی بہشتم
 (تجھ کو زوجیت سے نکال دیا۔ ت)
یا طلقتک فالحقی باھلک
(میں نے تجھے طلاق دے دی ہے تو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا۔ ت) اور وہ نہ جانے کہ یہ کلمات طلاق کے ہیں عنداللہ طلاق نہ ہوگی کہ یہ جہل بالحکم جہل باللسان سے ناشی ہوا، اور جہل باللسان تقصیر نہیں، فارسی سیکھنا اصلاً  اور عربی سیکھنا ہرشخص پر فرض نہیں،
اسی سے امام محقق علی الاطلاق نے فتح میں فرمایا:
لابد من القصد بالخطاب بلفظ الطلاق عالما بمعناہ اوالنسبۃ الی الغایۃ کما یفیدہ فروع ۱؎ الخ۔
لفظ طلاق سے خطاب کرتے ہوئے اس کے معنی کا علم یا غرض کی طرف نسبت ہوجیساکہ فروع نے افادہ کیا الخ (ت)
 (۱؎ فتح القدیر    باب ایقاع الطلاق    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۳/۳۵۱)
یعنی علم بمعنی دوم طلاق بھی ضرور ہے، اگر وہ صورت پائی جائے کہ اس کے جہل میں معذور ہو جیسے جہل بالحکم بوجہ جہل باللسان تودیانۃً طلاق نہ ہوگی،
نہر الفائق میں ہے:
اراد انہ شرط للوقوع قضاء ودیانۃ فخرج مالایقع بہ لاقضاء ولادیانۃ کمن کرر مسائل الطلاق ومایقع بہ قضاء فقط کمن سبق لسانہ لانہ لایقع فیہ دیانۃ ۲؎اھ قلت فقولہ قضاء ودیانۃً ای معاً ای ھو شرط لان یقع دیانۃً ایضاً کما یقع قضاءً ولوبدونہ فافھم۔
ان کی مراد یہ ہے کہ وہ قضاءً ودیانۃً وقوع طلاق کے لیے شرط ہے تواس سے وہ صورت خارج ہے جس میں قضاءً ودیانۃً واقع نہ ہو، جیسے کوئی شخص مسائل طلاق کا تکرار کرے اور وہ صورت بھی خارج ہے جس میں صرف قضاءً واقع ہو،جیسے غلطی سے کہہ دیا ہو توا س میں دیانۃً واقع نہ ہوگی، اھ قلت اس کے ''قول قضاءً و دیانۃ'' کا مطلب یہ ہے کہ ''قضاءً ودیانۃً'' دونوں اکٹھی یعنی یہ شرط دیانۃً وقوع کے لیے بھی ہے جس طرح قضاءً بغیر دیانۃً کے لیے شرط ہے اسے سمجھو۔ ت)
 (۲؎ نہرالفائق)
البتہ قاضی دعوٰی جہل نہ مانے گا اور حکم طلاق دے گا جب تک دلائل واضحہ سے اس کا عذر روشن نہ ہوجائے۔

ولہذا درمختار میں فرمایا:
تلفظ بہ (ای بالطلاق) غیرعالم بمعناہ اوغافلا اوساھیا اوبالفاظ مصحفۃ یقع قضاء فقط بخلاف الھازل واللاعب فانہ یقع قضاء ودیانۃ لان الشارع جعل ھزلہ بہ جدا۱؎۔ فتح۔
معنٰی معلوم نہ ہونے یاغفلت یا بھول کر،یا غلط تلفظ کی صورت میں طلاق کا لفظ بولا توصرف قضاء طلاق ہوگی، اس کے برخلاف جبکہ مذاق اورکھیل کے طورپر لفظ طلاق بولے تو قضاءً ودیانۃً دونوں طرح طلاق ہوجائی گی کیونکہ شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طلاق میں مذاق کو قصداً طلاق کا حکم دیا ہے۔ فتح۔ (ت)
 (۱؎ درمختار        کتاب الطلاق    مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۲۱۷)
ا س تقریر سے مستنیر ہو اکہ جن اکابر نے صورت مسئولہ میں انعقاد نہ مانا وہ حکم دیانت ہے اور جن ائمہ نے مانا وہ حکم قضا ہے۔
لاجرم امام فقیہ النفس نے صاف فرمایا:
ان لم یعرفا معنی اللفظ ولم یعلما ان ھذا لفظ ینعقد بہ النکاح فہذہ جملۃ مسائل الطلاق والعتاق والتدبیر والنکاح والخلع والابراء عن الحقوق والبیع والتملیک فالطلاق والعتاق والتدبیر واقع فی الحکم ذکرہ فی عتاق الاصل فی باب التدبیر واذا عرف الجواب فی الطلاق والعتاق ینبغی ان یکون النکاح کذلک لان العلم بمضمون اللفظ انما یعتبر لاجل القصد فلایشترط فیما یستوی فیہ الجد والھزل بخلاف البیع ونحو ذلک ۲؎۔
اگر دونوں لفظ کا معنٰی نہیں جانتے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اس لفظ سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے تو طلاق عتاق، تدبیر، خلع، حقوق سے بری کرنا بیع اور تملیک یہ تمام مسائل ہیں ان میں سے طلاق، عتاق اورتدبیر (مدبر بنانا) حکم میں شامل ہیں، امام محمد نے اس حکم کو اصل کے باب عتاق کی بحث تدبیر میں ذکرکیا ہے اور جب طلاق وعتاق کا حکم معلوم ہوگیا تو نکاح کابھی یہی حکم ہونا چاہئے کیونکہ لفظ کے مضمون کا علم قصد واختیار کے لیے معتبرہوتاہے توجہاں قصد ومذاق کاحکم مساوی ہو وہاں یہ علم شرط نہیں ہوگا بخلاف بیع جیسے امور کے (وہاں علم مذکور شرط ہے) (ت)
(۲؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب النکاح    نولکشور لکھنؤ        ۱/۱۵۱)
ہاں مشائخ اوزجند نے اہل تلبیس کا مکرر  رد کرنے کو مطلقاً عدم انعقاد فرمایا یعنی قضاء بھی حکم نہ دیں گے۔
بحرالرائق میں ہے:
لو لقنتہ لفظ الطلاق فتلفظ بہ غیر عالم بمعناہ وقع قضاء لادیانۃ وقال مشائخ اوزجندی لایقع اصلا صیانۃ لاملاک الناس عن الضیاع بالتلبیس کمافی البدائع کذا فی البزازیۃ ۱؎۔
اگر بیوی نے خاوند کو طلاق کے لفظ کہلائے جبکہ خاوند کو ان کا معنٰی معلوم نہیں تھا تو یہ لفظ کہنے سے طلاق قضاءً واقع ہوگی دیانۃً نہیں ہوگی، مشائخ اوزجند نے فرمایا کہ اس صورت میں بالکل طلاق نہ ہوگی تاکہ دھوکے سے لوگوں کے املاک کو ضیاع سے بچایا جاسکے، جیساکہ بدائع میں ہے، اور یوں ہی بزازیہ میں ہے۔ (ت)
 (۱؎ بحر الرائق            کتاب الطلاق    ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۳/۵۸۔ ۲۵۷)
تاتار خانیہ پھرمنحہ میں ہے:
حکی عن القاضی الامام محمود الاوزجندی عمن لقنتہ امرأۃ طلاقا فطلقھا وھو لایعلم بذلک قال وقعت ھذہ المسألۃ باوزجند فشاورت اصحابی فی ذلک واتفقت اٰراؤنا انہ لایفتی بوقوع الطلاق صیانۃ لاملاک الناس عن الابطال بنوع تلبیس ولولقنھا ان تخلع نفسھا منہ بمھرھا ونفقۃ عدتھا واختلعت لایصح وبہ یفتی ۲؎۔
امام قاضی محمود اوزجندی کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے اس صورت کے بارے میں کہ بیوی نے خاوند کو طلاق سکھائی جبکہ خاوند کو اس کامعنی معلوم نہ تھا، خاوند نے طلاق کہہ دی فرمایا کہ یہ مسئلہ اوزجند میں پیش آیا تو میں نے اپنے اصحاب سے اس کے متعلق مشورہ کیا توہماری متفقہ رائے یہ قرارپائی کہ اس صورت میں طلاق ہوجانےکا فتوٰی نہیں دیا جائیگا تاکہ دھوکے کے ذریعے لوگوں کے املاک کو ضیاع سے بچایاجاسکے، اور اگر خاوند نے بیوی کو خلع بعوض مہر نفقہ عد ت سکھایا، تو عورت نے خلع کے یہ الفاظ کہہ دئے تو خلع صحیح نہ ہوگا، اسی پر فتوٰی ہے۔ (ت)
 (۲؎ منحۃ الخالق حاشیۃ علی البحرا لرائق    کتاب الطلاق     ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۳/۲۵۸)
Flag Counter