Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
40 - 1581
الجواب : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، فقیرکی رائے میں دونوں دلیلیں اعتراض سے بری اور دونوں قول اپنے اپنے محل پر صحیح ہیں، دلیل اول کی برأت تو واضح تر، امام اجل قاضی خاں نے فتاوٰی خانیہ میں امام ظہیرالدین مرغینانی نے فتاوٰی ظہیریہ امام برہان الدین صاحب ہدایہ نے کتاب التجنیس والمزید میں اسے افادہ فرمایا اور امام محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر، پھر محقق زین نے بحرالرائق میں اس پر تعویل کی، اس میں صورت مذکورہ کو ہزل نہ کہا بلکہ ایک مقدمہ دلیل پر مسئلہ ہزل سے استدلال فرمایا ہے، تقریر کلام یہ ہے کہ یہاں انعقاد نکاح سے مانع ہوتویہی کہ معنٰی معلوم نہیں،اورایسا ہو تو علم بمعنٰی شرط ہولیکن وہ شرط نہیں کہ اس کااشتراط ہو تو قصد ہی کے لیے اوریہاں قصد درکارنہیں، دیکھو ہزل میں معنی مقصود نہیں ہوتے اورنکاح صحیح ہے، اسی مطلب کو تجنیس میں بایں عبارت ادافرمایا:
ولو عقدا عقد  النکاح بلفظ لایفھمان کونہ نکاحا ھل ینعقد اختلف المشائخ فیہ قال بعضھم ینعقد لان النکاح لایشترط فیہ القصد ۱؎۔
اگر مرد وعورت نے ایسے الفاظ سے نکاح منعقد کیاجن سے ان دونوں کو نکاح ہونے کا پتا نہ چل سکے، کیا اس صورت میں نکاح ہوجائے گا اس بارے میں مشائخ کا اختلاف ہے، بعض نے فرمایا کہ نکاح منعقد ہوجائےگا کیونکہ نکاح میں قصد شرط نہیں ہے۔ (ت)
 ( ۱؎ التجنیس والمزید)
رہی دوسری دلیل، اس پراعتراض اشتباہ معنٰی سے ناشی ہے، فقیر بعون القدیر اسے ایسے نہج سے بیان کرے جس سے دلائل واحکام سب کا انکشاف ہوجائے فاقول وباللہ التوفیق یہاں دوچیزیں ہیں لفظ کا مفہوم کہ لغوی شرعی عرفی حقیقی مجازی کی طر ف مقسوم، اور اس کا حکم کہ غرض غایت مقصود وثمرہ وغیرہا سے موسوم، ان دونوں پر لفظ کے معنٰی مضمون حتی کہ موضوع  لہ کا بھی اطلاق آتا ہے اگرچہ اول کے بعض اقسام میں وضع نوعی ہے۔
امام اجل فخرالاسلام بزدوی قدس سرہ نے اصول میں فرمایاـ
ـ:الھزل اللعب وھوان یراد بالشیئ مالم یوضع لہ وھو ضدالجد وھوان یراد بالشیئ ماوضع لہ ۱؎۔
ہزل (مذاق) ایسے کھیل کا نام ہے جس میں کسی چیز سے ایسی مراد لی جائے جس کے لیے وہ چیز وضع نہ کی گئی ہو، یہ جد (قصد) کی ضد ہے اور جد کسی چیز سے اس کا موضوع لہ مراد لینا ہے۔ (ت)
 (۱؎ اصول البزدوی        فصل الھزل        نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۳۴۷)
امام جلیل عبدالعزیز بخاری اس کی شرح کشف کبیرمیں فرماتے ہیںـ:
لیس المراد من  الوضع  ھھنا وضع اللغۃ لاغیربل وضع العقل والشرع فان الکلام موضوع عقلا لافادۃ معناہ فی حقیقۃ کان اومجاز ا والتصرف الشرعی موضوع لافادۃ حکمہ فاذا ارید بالکلام غیر موضوعہ العقلی وھو عدم افادۃ معناہ اصلا وارید بالتصرف غیر موضوعہ الشرعی وھو عدم افادۃ الحکم اصلا فہو الھزل وتبین بما ذکرنا الفرق بین المجاز والھزل فان الموضوع العقلی للکلام وھوافادۃ المعنی فی المجاز مراد وان لم یکن الموضوع لہ اللغوی مرادا وفی الھزل کلاھما لیس بمراد وھو معنی مانقل عن الشیخ ابی منصور رحمہ اﷲ تعالٰی ان الھزل مالایرادبہ معنی ۲؎۔
یہاں وضع سے خاص وضع لغوی مرادنہیں بلکہ وضع عقلی وشرعی سب کو شامل ہے، کیونکہ عقلی طور پر کلام کی وضع اس لیے ہے کہ اپنے معنی کا فائد ہ دے چاہے معنی حقیقی ہو یا مجازی ہوا ور شرعی تصرف کی وضع اس کے حکم کے افادہ کے لیے ہے تو جب کلام سے ا س کا عقلی معنٰی یعنی افادہ مقصد مراد نہ ہو اور تصرف شرعی سے شرعی معنی یعنی حکم کاافادہ مراد نہ ہو تو اس کو ہزل کہتے ہیں، ہمارے بیان سے واضح ہوگیا کہ مجاز اور ہزل (مذاق) میں فرق ہے کہ مجاز میں عقلی وضع کے لحاظ سے معنٰی مراد لیا جاتا ہے اگرچہ لغوی معنی مراد نہیں ہوتا جبکہ مذاق میں دونوں معنوں میں سے کوئی بھی مراد نہیں  ہوتا،ا ورشیخ ابومنصور رحمہ اللہ تعالٰی علیہ سے منقول کا یہی معنٰی ہے کہ مذاق وہ ہے جس سے کوئی معنٰی مرادنہ لیا جائے (ت)
 (۲؎ کشف الاسرار عن اصول البزدوی  فصل الھزل دارالکتاب العربی بیروت  ۴/۳۵۷)
معنٰی بمعنی اول کا علم اصلاً ضرور نہیں ولہذا اگر عورت نے "زوجت نفسی منک بالف" اور مرد نے "قبلت" کہا اور دونوں زبان عربی سے محض نا آشنا تھے مگر اتنا اجمالاً معلوم تھا کہ یہ الفاظ عقد نکاح کے لیے کہے جاتے ہیں باتفاق علماء نکاح ہوگیا، خانیہ میں ہے:
رجل تزوج امرأۃ بلفظۃ العربیۃ اوبلفظ لایعرف معناہ او زوجت المرأۃ نفسھا بذلک ان علما ان ھذالفظ ینعقد بہ النکاح یکون النکاح عند الکل ۱؎۔
اگر کسی مرد نے عربی زبان یاکسی بھی زبان کا ایسا لفظ استعمال کرکے  نکاح کیا اوریوں ہی عورت نے ایسا لفظ استعمال کیا کہ جس کا معنٰی اسے معلوم نہ ہو اگر ان دونوں کو ان الفاظ سے نکاح کے انعقاد کا علم ہوگیاتو یہ نکاح سب کے ہاں درست ہے۔ (ت)
 ( ۱؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب النکاح    نولکشور لکھنو        ۱/۱۵۱)
یوں ہی اگرنا آشنایانِ عربی نے "بعت اشتریت" بقصد بیع وشراء کہا اور جانتے تھے کہ یہ الفاظ عقد بیع کے ہیں ضرور بیع ہوجائے گی اگرچہ تفسیر الفاظ سے ناواقف ہوں کہ بعد علم حکم بقصد ان الفاظ کا تحاور دلیل مراضاۃ ہے اور ایسی مراضاۃ ہی ان عقود میں کفیل اثبات ہے۔
ہدایہ میں ہے:
المعنی ھو المعتبر فی ھذہ العقود ولھذا ینعقد بالتعاطی فی النفیس والخسیس ھوالصحیح لتحقق المراضاۃ ۲؎۔
ان عقود میں معنٰی کااعتبار ہوتاہے اور اس لیے ہر چھوٹی موٹی چیز کے لین دین کرنے سے بیع منعقد ہوجاتی ہے کیونکہ اس صورت میں رضا ظاھر ہوجاتی ہے (ت)
 (۲؎ ہدایہ         کتاب البیوع    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳/۲۴)
توثابت ہوا کہ مسئلہ دائرہ میں معنی بمعنی دوم ہی مراد ہے کہ اول بالاجماع مراد نہیں توا س کا جہل مناط نزاع نہیں ہوسکتا، بعض اکابر نے کہ الفاظ عربی اور عاقدین کے ہندی یا ترکی ہونے سے تصویر فرمائی وہ بحسب عادات فقہاء ہے کہ مظنہ غالبہ شئے کو قائم مقام شیئ کرتے ہیں۔
کما لایخفی علی من مارس کلما تھم العلیہ وقد ذکر نا طرفا منھافی فتاوٰنا۔
جیساکہ فقہاء کرام کے کلام کے فہم میں ماہر پر مخفی نہیں جس کا کچھ بیان ہم نے اپنے فتاوٰی میں کیا ہے۔ (ت)
غالب یہی ہے کہ آدمی الفاظ زبان غیر مفہوم کے مقاصد پر بھی مطلع نہیں ہوتا، ولہذا امام فقیہ النفس نے
"وان لم یعرفا معنی اللفظ"
(اگرچہ دونوں نے لفظ کا معنٰی نہ سمجھا۔ ت) پر قناعت نہ کی کہ اول کی طر ف ذہن نہ جائے بلکہ افادہ مراد کے لیے
"ولم یعلما ان ھذا لفظ ینعقد بہ النکاح" ۳؎
(اور دونوں نے یہ نہ سمجھا کہ اس لفظ سے نکاح منعقدہو جاتاہے۔ ت)بڑھایا،
 (۳؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب النکاح    نولکشور لکھنؤ        ۱/۱۵۱)
اور امام برہان الدین نے اصل مقصود لفظ لایفھما کونہ نکاحا (ایسا لفظ جس سے دونوں نے نکاح ہونا نہ سمجھا۔ ت) فرمایا، علامہ ابن عابدین نے منحۃ الخالق میں کلام خانیہ سے یہی اخیر فقرہ مقصود ہ نقل کیا اول ترک کردیا،
حیث قال قال فی الخانیۃ وان لم یعلما ان ھذالفظ ینعقد بہ النکاح فھذہ جملۃ مسائل۱؎ الخ۔
جہاں انھوں نے کہا کہ خانیہ میں فرمایا کہ اگر انھوں نے اس لفظ سے نکاح ہونا نہ سمجھا تویہ تمام مسائل ہیں الخ (ت)
(۱؎ منحۃ الخالق حاشیۃعلی البحرالرائق     کتاب النکاح    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۳/۸۵)
اسی قدر نے دلیل دوم سے رفع اعتراض کردیا۔
Flag Counter