Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
4 - 1581
مسئلہ ۴: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید وہندہ انیس بیس برس ایک مکان میں بے تکلف بطور زن وشوہر رہتے، اور زید لباس اور جملہ امور خانہ داری میں اسے مثل زنانِ برادری رکھتا، خاندان میں آمدو رفت اس کی بتقریب شادی وغمی رہتی، اور زوجہ زید مشہور تھی، اور زید مرد پارسا تھا، اس کی وضع پر گمان بدکاری  نہیں ہوتا، آیا مرد وزن زوج وزوجہ تصور کئے جائیں گے؟ اور جو لوگ جلسہ نکاح میں موجود نہ تھے مگر اس حال سے واقف ہیں ان کی گواہی سے نکاح ثابت ہوگا یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب: صورت مسئولہ میں وہ مرد وزن، زوج وزوجہ تصور کئے جائیں گے یہاں تک کہ جو اشخاص اس حال سے واقف ہیں ان کے زوج وزوجہ ہونے پر گواہی دے سکتے ہیں،
ہدایہ میں ہے:
وکذالک لورأی انسانا جلس مجلس القضاء یدخل علیہ الخصوم حل لہ ان یشھد علٰی کونہ قاضیا وکذا اذا رأی رجلاوامرأۃ یسکنان بیتا ینبسط کل واحد منھما الی الاٰخر انبساط الازواج ۱؎
اور ایسے ہی اگر کسی نے ایک شخص کو مجلس قضاء پر دیکھا اور اس کے ہاں فیصلے کے لیے مختلف فریقوں کا آنا جانا دیکھا تو اس کو جائز ہے کہ وہ شخص کے قاضی ہونے کی گواہی دے، اور ایسے ہی اگر کسی مرد وعورت کو ایک کمرے میں خاوند بیوی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ کرتے دیکھا،
 (۱؎ ہدایہ  کتاب الشہادۃ مطبع یوسفی لکھنؤ ۳/۱۵۸)
وفی الخلاصۃ واما النکاح اذا رأی رجلا یدخل علی امرأۃ وسمع  من الناس  ان فلانۃ زوجۃ فلان وسعہ ان یشھد انھا زوجتہ وان لم یعاین عقد النکاح ۲؎
اور خلاصہ میں ہے کہ نکاح کے ثبوت میں اگر کسی نے ایک شخص کو عورت کے ہاں آتے جاتے دیکھا اور لوگوں سے بھی سنا کہ یہ مرد عورت آپس میں خاوند بیوی ہیں تو دیکھنے سننے والے کو جائز ہے کہ وہ اس عورت کے اس مرد کی بیوی ہونے کی شہادت دے اگرچہ اس نے ان کے نکاح کی مجلس نہ دیکھی ہو،
(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی     کتاب الشہادۃ الفصل الاول        مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۴/۵۲)
وفی فتاوٰی قاضیخان ولو رأی رجلا وامرأۃ یسکنان فی منزلہ وینبسط کل واحد منھما علی صاحبہ کما یکون بین الازواج حل لہ ان یشھد علٰی نکاحھما ۳؎۔
اور فتاوٰی قاضی خاں میں ہے کہ اگر کسی نے مرد وعورت کو ایک مکان میں رہتے دیکھا اور ان کوآپس میں میاں بیوی کی طرح بے تکلف پایا تو اس کے لیے ان دونوں کے نکاح کی شہادت دینا جائز ہے۔ (ت)
 (۳؎ فتاوٰی قاضی خاں    فصل فی الشہادۃ علی النکاح    نولکشور لکھنؤ        ۱/۱۸۵)
اور گواہ اگر انھیں زوج  زوجہ بیان کریں اور کہیں ہم جلسہ نکاح میں نہ تھے لیکن یہ امر مشہور ہے توا ن کی گواہی شرعاً مقبول ہے اور نکاح ثابت ہوجائے گا۔
درمختار میں ہے:
بل فی العزمیۃ عن الخانیۃ معنی التفسیران یقولا شہدنا لانا سمعنا من الناس امالو قالالم نعاین ذٰلک ولکنہ اشتھر عندنا جازت فی الکل وصححہ شارح الوھبانیۃ وغیرہ ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
بلکہ عزمیہ میں خانیہ سے منقول ہے کہ گواہ تفسیر کرتے ہوئے کہیں کہ ہم نے لوگوں سے سنا ہے۔ لیکن اگر یوں بھی کہہ دیا کہ ہم نے نکاح ہوتے نہیں دیکھا لیکن ہمارے ہاں لوگوں میں مشہور ہے کہ (دونوں میاں بیوی ہیں) تو تمام صورتوں میں شہادت درست ہوگی۔ اس قول کو شارح وہبانیہ وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/۹۳)
رسالہ

عُبَابُ الْاَنْوَارِاَنْ لَّانِکَاحَ بِمُجَرِّدِ الْاِقْرَارِ (۱۳۰۷ھ)

(محض اقرار کی بنیاد پر نکاح نہ ہونے کے بیان میں انوار کی موج)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسئلہ ۵ و ۶: از پنجاب فیروز پور صدر بازار مسجد جامع مرسلہ مولوی فضل الرحمن صاحب ۴ جمادی الاولٰی ۱۳۰۷ھ

از فقیر محمد فضل الرحمان بخدمت حضرت فیض درجت مظہر علوم دینی ومصدر فیوض دنیوی جناب مولانا بالفضل والکمال اولٰنا جناب مولوی محمد احمدرضاخان صاحب فاضل بریلوی دام فیضہ القوی السلام علیکم!
سوال (۱) زید نے ہندہ سے جو اپنے فعل شنیع قبیح سے تائب ہوئی، غیر ضلع میں جاکر نکاح کیا تا کہ کوئی مخل اور مانع اس کار خیر کا نہ ہو، اہل ضلع نے جب ان سے استفسار کیا کہ تمھار نکاح ہوا ہے؟ تو انھوں نے یہ پاسخ دیا کہ اس قدر مہر پر ہمارا نکاح ہوا ہے، آیا یہ صورتِ نکاح صحیح ہے؟
 (۲)اگر زید نے اقرار کیا کہ یہ میری بی بی ہے اور ہندہ نے بیان کیا کہ یہ میرا خاوند ہے یہ قیل وقال محض شہود میں بیان کی گئی، کیا ان الفاظ سے انعقاد نکاح ہوجاتا ہے، اس صورت میں ذکر مہر نہیں آیا، بعد توفیق وتطبیق روایات کے جواب مزین بمہر ودستخط فرما کر للہ عطا فرمایا جائے تاکہ آئندہ کسی جاہل کو مجال باقی نہ رہے والسلام مع الاکرام۔
الجواب : لک الحمد رب الارباب صل علی الحبیب الاوّاب مع الال والاصحاب واھدنا الحق والصواب اٰمین الٰھنا الوھاب۔
تمام کو پالنے والے اے رب! تیرے لیے ہی تمام حمد ہے، سب سے زیادہ رجوع فرما نے والے محبوب پر رحمت نچھاور فرما اور اس پر مع اس کی آل واصحاب سلامتی نازل فرما اور ہماری حق وصواب پر رہنمائی فرما، آمین، اے عطا کرنے والے ہمارے اللہ تعالٰی! (ت)
کرم فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ واقعی یہ مسئلہ قابل امعان انظار واعمال افکار ہے،
فاقول وباﷲ التوفیق وبہ الوصول الٰی اوج التحقیق (پس میں کہتا ہوں اللہ تعالٰی کی توفیق سے اور تحقیق کی بلندی تک پہنچنا اسی کی مدد سے ہے۔ ت) اس میں شک نہیں کہ حکم قضا میں نکاح تصادق مرد وزن سے ثابت ہوجاتا ہے یعنی جب وہ دونوں اقرار کریں کہ ہم زوج وزوجہ ہیں یا باہم نکاح ہوگیا ہے یا اور الفاظ جو اس معنی کومودی ہوں تو بلاشبہہ انھیں زوج وزوجہ جانیں گے اور قضاءً تمام احکام زوجیت ثابت ہوں گے بلکہ عندالناس اس سے بھی کمتر امر ثبوت نکاح کو کافی ہے جب مرد وزن کو دیکھے مثل زن وشو ایک مکان میں رہتے اور باہم انبساط زن وشوئی رکھتے ہیں تو ان پر بدگمانی حرام، اوران کے زوج و زوجہ ہونے پر گواہی دینی جائز، اگرچہ عقدِنکاح کا معائنہ نہ کیا ہو،
نص علیہ فی الھدایہ والھندیۃ وغیرھما وفی قرۃ العیون عن الدرر ویشھد من رأی رجلا وامرأۃ بینھما انبساط الازواج انھا عرسہ۱؎۔
ہدایہ، ہندیہ وغیرہما اور قرۃ العیون میں درر سے، ان سب کتب میں ہے کہ جس نے مرد وعورت کو خاوند بیوی کی طرح بے تکلف معاملات کرتے دیکھا اس کوجائز ہے کہ مرد کے لیے اس عورت کے بیوی ہونے کی شہادت دے۔ (ت)
(۱؎ قرۃ عیون الاخیار    کتاب الشہادات    مصطفی البابی مصر    ۱/۷۱)
Flag Counter