Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
39 - 1581
مسئلہ ۳۹: از سلون ضلع رائے بریلی احاطہ شاہ صاحب مرسلہ  مولوی محمد عمر صاحب مدرس مدرسہ اسلامیہ ۲۲ محرم الحرام ۱۳۲۸ھ

جناب مولانا صاحب مجدد مائۃ حاضرہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ وعلی من لدیکم، کیا مسلک ہے آپ کا اس مسئلہ میں کہ زید نے "تَزَوَّجتُ" اورہندہ نے "قَبِلْتُ" دوگواہوں کے سامنے کہہ دیا اوردونوں ان الفاظ کے معنی نہیں سمجھتے بلکہ گواہ بھی نہیں سمجھے۔ آیا اس صور ت میں نکاح منعقد ہوجائے گا یانہیں،شرح وقایہ اور فتاوٰی قاضی خاں اور فتاوٰی ظہیریہ اور ردالمحتار اور درمختار میں ایسا نکاح جائز لکھاہے بلکہ درمختار میں اس پر فتوٰی ہے، اور دلیل اس کی کل کتابوں میں یہ لکھی ہیے کہ مضمون لفظ کا علم اور اس کا سمجھنا ان امور میں معتبر ہے جن میں نیت اور قصد کی ضرورت ہو اور جن امور میں جدو ہزل برابرہوں ان میں معنٰی سمجھنے کی ضرورت نہیں، لہذا نکاح محض بتلفظ" نَکَحْتُ وقَبِلْتُ" بلا فہم معنٰی منعقدہوجائیگا 

جیساکہ قاضی خاں وغیرہ میں ہے:
لان العلم بمضمون اللفظ انما یعتبر لاجل القصد فلا یعتبر فیما یستوی فیہ الجد والھزل ۱؎ انتھی۔
کیونکہ لفظ کے مضمون کا علم کسی چیز کے قصد کے لیے ضروری ہوتا ہے اور جس میں قصد اور غیر قصد مساوی ہوں وہاں مضمون کاعلم معتبر نہ ہوگا، انتہی (ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب النکاح الفصل الاول    نولکشور لکھنؤ        ۱/۱۵۱)
میرے خیال میں یہ دلیل صحیح نہیں، عبارت قاضی خاں کی فلا یعتبر (ای العلم بمضمون اللفظ) فیما یستوی فیہ الجد والھزل (لفط کے مضمون کا علم معتبر نہ ہوگا جہاں قصد اور غیر قصد (مذاق) برابر ہو۔ ت) ہر گز قابل تسلیم نہیں، ہزل میں مضمون لفظ کا علم اور معنٰی کا سمجھنا ضروری ہے بغیر فہم معنٰی ہزل غیر ممکن ہے اس واسطے کہ استعمال لفظ وارادہ غیر معنٰی حقیقی ومجازی کا نام ہز ل ہے اور اس میں شرط ہے کہ قبل عقد متعاقدین آپس میں ذکر کرلیں کہ یہ عقد بطریق ہزل ہے، 

مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہےـ:
الھزل ان یراد بالشی غیر ماوضع لہ بغیر مناسبۃ بینھما والجد مایراد بہ ماوضع لہ اوماصلح لہ اللفظ مجازا ۲؎ اھ۔
ہزل (مذاق) سے مراد یہ ہے کہ مناسبت کے بغیرمجازی معنٰی مراد لینا، جِد (قصد) سے مرادیہ کہ حقیقی معنٰی یا ایسا مجازی معنٰی مراد لینا جس کے لیے لفظ صلاحیت رکھتاہو اھ (ت)
 (۲؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ    باب الخلع والطلاق        المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ    ۶/۴۲۷)
نورالانوار میں ہے:
وشرط الھزل ان یکون صریحا مشروطا باللسان بان یذکر العاقد ان قبل العقد انھما یھزلان فی العقد ولایثبت ذٰلک بدلالۃ الحال ۳؎۔
مذاق کی شرط یہ ہے کہ زبانی طور پر صراحۃً عقد کرنے والے دونوں فریقوں، عقد سے قبل ذکر کریں کہ ہم مذاقاً عقد کریں گے، اور مذاق دلالتِ حال سے ثابت نہ ہوگا۔ (ت)
 (۳؎ نورالانوار        مبحث الامور المعترضۃ للاھلیۃ نوعان    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۰۳۔ ۳۰۲)
اس صورت میں جبکہ عاقدین بالکل سمجھتے ہی نہیں کہ ان الفاظ کے کیا معنٰی ہیں اور کس موقع میں استعمال کئے جاتے ہیں توہزل کیسے ہوسکتا ہے، قطع نظر اس کے کہ ہزل میں اگرچہ ہازل نفس حکم سے راضی نہیں ہوتا لیکن اس کے اسباب سے راضی رہتاہے

 جیساکہ نورالانوار میں ہے:
وانہ ینافی اختیار الحکم والرضاء بہ ولاینافی الرضاء بالمباشرۃ ۱؎ الخ۔
مذاق، حکم اور اس پر رضامندی کے منافی ہے لیکن کا م کو سرانجام دینے کے لیے منافی نہیں ہے۔ (ت)
 (۱؎ نورالانوار    مبحث الامور المعترضۃ للاھلیۃ نوعان    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۳۰۲)
اور یہاں عاقدین جانتے ہیں کہ یہ الفاظ کیسے ہیں اورا ن کے کیا معنٰی ہیں، تو رضا بالا سباب بھی مفقود ہے لہذا اس صورت کو  ہزل میں داخل کرناکسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا، دوسری دلیل مجوزین کی یہ ہے کہ اگرچہ متعاقدین معنٰی نہیں سمجھتے لیکن ان کا جہل معتبر نہ ہوگا اور نکاح منقعد ہوجائے گا۔
لان الدار دارالاسلام فلایکون الجھل فی احکام الشرعیۃ عذرا۔
چونکہ یہ دارالاسلام ہے لہذا احکام شرعیہ سے جاہل ہونا کوئی عذر نہ بن سکے گا۔ (ت)
اس جگہ دعوٰی ودلیل میں صراحۃً تخلف ہے، دلیل کا منشا تویہ ہے کہ احکام شرعیہ میں جہل معتبر نہیں، یہ ضرورت قابل تسلیم ہے لیکن یہ اس امر کو مستلزم نہیں کہ زبان عربی سے جہل بھی غیر معتبر ہو احکام شرعیہ منحصر بزبان عربی نہیں، عاقدین احکام نکاح کو زبان غیر عربی مثلاً فارسی اردو وغیرہ میں جانتے ہیں اور زبان عربی سے واقف نہیں تویہ نہیں کیا جاسکتا کہ جاہل بالاحکام ہیں، جہل بالاحکام اور جہل باللسان کو متحد جان کر دونوں کو غیر معتبر کہنا صحیح نہیں ہوسکتا، لہذا جب عاقدین کو کسی طرح اس کاعلم نہیں کہ ان الفاظ کے کیا معنٰی ہیں اور کس موقع پر اس کا استعمال ہوتاہے، توان کے تلفظ سے نکاح نہیں ہوسکتا،
فصول عمادی میں ہے:
انہ لایصح عقدمن العقود اذالم یعلما معناہ ۲؎ اھ ۔
جب گواہ حضرات کسی عقد کا معنٰی نہ سمجھیں تو عقد صحیح نہ ہوگا اھ (ت)
 (۲؎ فصول عمادی)
فتاوٰی حمادیہ میں مثل ا س کے لکھا ہے، شمس الاسلام اوزجندی سے کسی نے ا س مسئلہ کو پوچھا، فرمایا: نہ منعقد ہوگا،
لان المرأۃ فی ھذہ بمنزلۃ الطوطی والصبی الذی لایعقل۔
کیونکہ اس معاملے میں عورت طوطے اور ناسمجھ بچے کی طرح ہے۔ (ت)
صاحب فتاوٰی بزازیہ کی بھی یہی رائے ہے، درمختار کے فتوی کو ردالمحتار میں لکھا ہے کہ اس میں اختلاف ہے، اب آپ کے نزدیک اگر یہ نکاح جائز ہے تو شبہہ مذکورہ بالا کا جواب مدلل طور سے ارقام فرمائے اور اگر ناجائز ہے تو یہ فرمائے کہ مجوزین کی دلیل بالکل سست ہے یا نہیںـ؟ تیسری دلیل میں نےان لوگوں کی نہیں دیکھی، اگر آپ کی نظرسے گزری ہو تومطلع فرمائیے، یہ بھی جانتاہوں کہ آپ بہت عدیم الفرصت ہوں گے، مگرخدا نے وارث الانبیاء آپ کو کیا ہے، سائل اور کس سے اپنے شہبے رفع کرے، والسلام۔
Flag Counter