Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
38 - 1581
مسئلہ ۳۷: از نگلہ مرہرو ڈاکخانہ بیلاؤ دہ ضلع میرٹھ مسئولہ محمدذاکر علی صاحب

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دو لڑکیاں توام ہیں، کمرسے لے کر سرین تک جڑیں ہوئی ہیں، مبر زایک ہے، اور باقی عام اعضاء الگ الگ علیحدہ علیحدہ، وہ اپنی مادری زبان تلنگی میں اچھی طرح گفتگو کرسکتی ہیں، عمر ان کی بارہ سال ہے، یہ قصہ سکندر آباد دکن کاہے، میں نے اس کو اخبار وطن لاہور جلد نمبر ۸ ۲۳ مورخہ ۱۲ جولائی ۱۹۰۸ ص ۱۳ میں دیکھا ہے، لکھاہے کہ یہ ہندوہیں، ان کے والدین کو ان کے ذریعہ سے کافی آمدنی ہے، درصورت صحیح ہونے اور مسلمان ہونے ان کے لیے ان کی صورت نکاح کیاہے؟ اگر کیا جائے تو دو بہنیں ایک مردکے نکاح جمع نہیں ہوسکتیں، اور کہاجائے کہ دو سے کیا جائے تو بے حیائی لازم آتی ہے اور یہ دونوں لڑکیاں علیحدہ نہیں ہوسکتیں، حکم اس مسئلہ کا مفصل مدلل ارقام فرمائے اور  روایت فقہاء بھی تحریر کیجئے۔ بینوا توجرو
الجواب: ظاہراً یہ اخباری گپ ہے، ایسے عجائب اگر نادراً پیداہوتے ہیں تو عادۃً زندہ نہیں رہتے اگر بارہ بر س سے ایسا عجوبہ ملک میں موجودہوتا تو جب ہی سے تمام اخبار اس کے ذکر سے بھر جاتے، دیار وامصار میں شہر ت ہوتی نہ کہ اب بارہ سال کے بعد درج اخبارہوا، اور بالفرض اگر صحیح بھی ہوا اور وہ دونوں مسلمان بھی ہوجائیں تو شریعت مطہرہ نے کوئی مسئلہ لاجواب نہ چھوڑا، بھلا یہ صورت تو بہت بعید ہے فرض کیجئے جو عورت ابتدائے بلوغ سے معاذاللہ جذام وبرص میں مبتلا ہو اور اس کے ساتھ ایسی کریہیہ المنظر کہ اسے کوئی قبول نہ کرتا نہ کہ بحالت جذام، اس کے لیے کیا صورت ہوگی، اسے شرع کیا حکم دے گی، ہا ں اسے عفت وصبر کا حکم فرماتی ہے اور روزں کی کثرت اس کا علاج بتاتی ہے،
اللہ عزوجل فرماتاہے:
ولیستعفف الذین لایجدون نکاحا حتی یغنیھم اﷲ من فضلہ ۱؎۔
جو نکاح کی طرف کوئی راہ نہ پائیں وہ بچے رہیں جب تک اللہ اپنے فضل سے انھیں بے پرواہ کردے۔
 (۱؎ القرآن        ۲۴/۳۳)
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یا معشر الشباب من استطاع منکم الباءۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وِجَاء۱؎۔
اے گروہ نوجوانان! تم میں جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرے کہ نکاح  پریشان نظری وبدکاری روکنے کا سب سے بہتر طریقہ ہے اور جسے ناممکن ہو اس پر روزے لازم ہیں کہ کسر شہوت نفسانی کردیں گے۔
 (۱؎ صحیح البخاری    کتاب النکاح    قدیمی کتب خانہ پشاور    ۲/۷۵۸)

(صحیح مسلم کتاب النکاح    قدیمی کتب خانہ پشاور      ۱/۴۴۹)
یہی حکم وعلاج اس عجوبہ خلقت کے لیے ہوگا، اس کی نظیر وہ سوال ہے کہ جہال عرض تسعین کی نسبت کیا کرتے ہیں جہاں چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہے کہ وہاں رمضان کے روزے کیسے رکھیں حالانکہ وہاں انسانی آبادی کا نام نہیں کہ اسی درجے عرض سے آگے لوگوں کا گزربھی نہیں کہ ہمیشہ کی ہر آن برف باری نے وہاں سمندر کو دلدل کر رکھا ہے، نہ پانی رہا کہ جہاز گزرے،نہ زمین ہوگیا کہ آدمی چلیں بلکہ ستر درجے آگے سے آبادی کا پتا نہیں، وہاں جبکہ چھ چھ مہینے دن رات ہیں بلکہ قطب شمالی میں چھ مہینے نو دن کا دن اور نو دن سے کم چھ مہینے کی رات، اورقطب جنوبی میں بالعکس، اس لیے کہ اوج آفتابی شمالی اور حضیض جنوبی ہے اور اس کی رفتار اوج میں سست اور حضیض میں تیز ہے، پھر یہ نہا ر ولیل تنجیمی ہے، عرفی لیجئے تو نصف قطر آفتاب اور حصہ انکسار بڑھ کر مقدار نہار میں او ر بہت سے دن بڑھ جائیں گے ،اور نہار شرعی کے لیے اٹھارہ درجے کا انحطاط لیجئے تو کئی مہینے مقدار نہار میں شامل ہوکر رات بہت کم رہ جائے گی اوروہاں قمر وغیرہ کسی کوکب کا طلوع وغروب حرکت شرقیہ فلکیہ سے نہیں بلکہ صرف اپنی حرکت خاصہ سے جب منطقہ سے شمالی ہوگا قطب شمالی میں طلوع کرے گا اور جب تک شمالی رہے گا طالع رہے گا پھر جب جنوبی ہوگا غروب کرے گا اور جب تک جنوبی رہے گا غارب رہے گا اور اس ظہور وبطون کے لیے کوئی تعیین نہیں کہ قمر اس وقت اجتماع میں ہو یااستقبال میں تربیع میں ہو یاشکل ہلال میں، توسال کے بارہ دن رات جو قمر نے پائے ان میں حساب انتظام اہلہ وشہور نامقدور، اور اگر حکما صورت تقدیر واندازہ لیجئے بھی جس طرح دربارہ ایامِ طوال دجال نمازوں کے لیے ارشاد ہوا تو وہی قرآن عظیم جس نے
فمن شہد منکم الشھر فلیصمہ ۲؎
 (جو تم میں سے ماہ رمضان کو پائے تو اس کا روزہ رکھے۔ ت)فرمایا اس نے
وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین ۳؎
 (جو روزہ کی استطاعت نہ رکھے تو مسکین کا کھانا فدیہ میں دے۔ ت) ارشاد کیا یعنی جنھیں روزے کی قدرت نہ ہوان پر بدلہ ہے ہرروزے کے عوض ایک مسکین کاکھانا اور جن کوا س کی بھی استطاعت نہ ہو و ہ حصولِ استطاعت کا انتظارکریں اور اپنے رب سے انابت واستغفار کہ وہی قرآن کریم میں فرماتا ہے:
لایکلف اﷲ نفسا الاوسعھا ۱؎
خدا کسی کو اس کی طاقت  سے زیادہ حکم نہیں دیتا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
 ( ۲؎ القرآن     ۲/۱۸۵) ( ۳؎ القرآن  ۲/۱۸۴) (۱؎ القرآن   ۲/۶۸۶)
مسئلہ ۳۸: از خیرآباد محلہ میاں سرائے مدرسہ عربی قدیم مرسلہ سید فخر الحسن صاحب ۳ ذی القعدہ ۱۳۲۶ھ

خطبہ نکاح کا کھڑے ہوکر پڑھناچاہئے یا بیٹھ کر، اور کس طریقہ سے مسنون ہے؟
الجواب : اگرچہ خطبہ میں مطلقاً افضل قیام ہے کہ آواز بھی دور پہنچتی ہے اور باعث توجہ حاضرین بھی ہوتا ہے اور اس امر میں سب خطبے مشترک ہیں، ہاں جو خطبہ سواری پر ہوتا ہے جیسے خطبہ عرفہ۔ وہاں قیام مرکب قائم مقام قیام راکب ہے مگر خطبِ نافلہ بیٹھ کر بھی ثابت ہیں،
ابن جریر عن سماک بن حرب قال سمعت معرورا اوابن معرور التمیمی قال سمعت عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالٰی عنہ وصعد المنبر قعددون مقعد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بمقعدین فقال اوصیکم بتقوی اﷲ واسمعوا واطیعوا من ولاہ اﷲ تعالٰی امرکم ۲؎۔
ابن جریر نے سماک بن حرب سے روایت کیا کہ انھوں نے فرمایاـ: میں نے معروریا ابن معرو رتمیمی سے سناانھوں نے کہا میں نے عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنا جبکہ آپ منبر پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نشستگاہ سے دو سیڑھیاں نیچے تشریف فرماہوئے توآپ نے فرمایا میں تمھیں اللہ تعالٰی سے تقوٰی کی وصیت کرتاہوں اور اللہ تعالٰی کی طرف سے تمھارے امور کے بنائے ہوئے والی کی اطاعت وسمع اختیار کرو۔ (ت)
 (۲؎ کنزالعمال بحوالہ ابن جریر حدیث ۴۴۱۹۷ خطب عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ  موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۱۶/۱۵۷)
اور خطبہ نکاح نفل ہی ہے توبیٹھ کر بھی مضائقہ نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter