Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
37 - 1581
مسئلہ ۳۴: از موضع بیتھو ضلع گیا مرسلہ جناب مولوی سید ظہور احمد صاحب ۱۶ شوال ۱۳۲۴ھ

جناب مولانا صاحب السلام علیک، استفتایہ ہے کہ اگر وکیل بالنکاح یا شاہدین نکاح غیرمقلد وہابی ہو توایسے شخص کی وکالت یا شہادت درست ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اور نکاح درست ہوگا یانہیں ا گرا یسے لوگ وکیل یاشاہد ہوں؟
الجواب : سید صاحب! وعلیک السلام، وہابی وغیر مقلد کی ضلالت جبکہ کفر تک نہ پہنچی ہو (اور یہ غیر مقلد وہابیوں میں نادر ہے اورجیسے طائفہ رشیدیہ پیدا ہوا، مقلد وہابیوں میں بھی کٹر اسمٰعیلوں کی طرح یہی حالت ہوگئی ان میں غالباً کوئی نہ ہوگا، جس پر بحکم فقہائے کرام لزوم کفر  نہ ہو، اور بہت تو صریح التزام کی حد پر ہیں نسأل اﷲ العافیۃ وحسن العاقبۃ) جب تونکاح میں ان کا شاہد ہونا اصلاً مخل نہیں اوراگر حد کفر پرہوں تو وکالت جب بھی جائز ہے کہ مرتد کو وکیل کرسکتے ہیں اس کی وکالت صحیح ہوجائے گی اگرچہ اس سے میل جو ل اختلاط حرام ہے،
ہندیہ میں ہے:
تجوز وکالۃ المرتد بان وکل مسلم مرتدا وکذ الوکان مسلما وقت التوکیل ثم ارتد فھو علی وکالتہ الاان یلحق بدارالحرب فتبطل وکالتہ کذافی البدائع ۱؎۔
مسلمان نے مرتد کو وکیل بنایا یا مسلمان کو وکیل بنایاوہ بعد میں مرتد ہوگیا تو یہ وکالت باقی رہے گی، مگر جب  وہ دارالحرب بھاگ جائے تو وکالت ختم ہوجائے گی، بدائع میں ایسے ہی ہے۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ        کتاب الوکالۃ    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/۵۶۳)
رہی شہادت،عوام میں دو شخص جن کو گواہی نکاح سے نامزد کیا جاتاہے وہ اگر دونوں مرتد وہابی تھے مگر جلسے میں اور دو مرد یا ایک مرد دوعورتیں مسلمان ہیں جنھوں نے معاً ایجاب وقبول سنا اور سمجھا جب تو اگرچہ نکاح صحیح ہوگیا، لوجود الشھود وان کان من سموا شھودامرتدین (گواہوں کی حاضری کی وجہ سے،اگرچہ انھوں نے مرتد گواہوں کو نامز د کیا ہو۔ ت) اور اگر صرف یہی حاضر وسامع وفاہم تھے یااور جتنے ہیں وہ بھی ایسے ہی ہیں ایک نصاب مسلمانوں سے پورانہیں تو نکاح صحیح نہ ہوا فاسد محض ہوا
لان من شرائط الصحۃالشھود ولاشہادۃ لمرتد کمافی الدرالمختار وغیرہ
(کیونکہ صحت کے لیے گواہی شرط ہے اور مرتد شہادت دینے کا اہل نہیں ہے جیسا کہ درمختار میں ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم،
مسئلہ ۳۵: عورت مرد اگر باہم ایجاب وقبول کرلیں اور کسی کو اطلاع نہ ہوتو یہ نکاح ہوجائے گا؟
الجواب : بے حضور د وگواہ نکاح فاسد ہے، حدیث میں فرمایاـ:
الزوانی ف  اللاتی ان ینکحن انفسھن بغیر بینۃ ۱؎۔واﷲ تعالٰی اعلم
زنا کار ہیں جو اپنی جانوں کو نکاح  میں دیتی ہیں بغیر گواہوں کے۔
 (۱؎ السنن الکبرٰی للبیھقی    کتاب النکاح    دارصادر بیروت    ۷/۱۲۵)
ف: یہ حدیث سنن کبرٰی سے ملی اس میں الزوانی کے بجائے البغایا کالفظ ہے۔ نذیر احمد
مسئلہ ۳۶: مسئولہ محمد یوسف از جبل پور ۱۳ ذی قعدہ ۱۳۲۵ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی غیر مقلد کسی مقلد کانکاح بموجب شرع مصطفوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پڑھادے تو اس کا پڑھایا ہوا نکاح جائز ہے یا حرام؟ اور جو اس نکاح سے اولاد پیدا ہو وہ حرامی تو نہ ہوگی؟ بینوا توجروا۔
الجواب : اگرچہ نکاح خواں شرع مطہر میں کوئی چیز نہیں، اگر کوئی ہندومشرک زوجین کو ایجاب وقبول روبروئے گواہان کرادے اور شرائط صحت متحقق ہوں نکاح ہوجائے گا۔ مگر یہاں ایک نکتہ جلیلہ ہے جسے وہی سمجھتے ہیں  جوموفق من اللہ تعالٰی عزوجل ہیں وہ یہ کہ اگر ہندو مشرک پڑھا جائے گاتو کوئی کلمہ گوا سے معظم دینی بلکہ مسلمان بھی نہ جانے گا بخلاف ان کلمہ گویان کفردردل کے کہ عوام ان کو خالص مسلمان جانتے ہیں حالانکہ  ان پر صدہا وجہ سے بحکم احادیث صحیحہ وتصریحات فقہیہ حکم کفرلازم ہے۔
کما فصلنا فی الکوکبۃ الشھابیۃ وفی النھی الاکید وغیرھما ولدی مزید۔
جیسا کہ الکوکبۃ الشہابیہ اور النہی الاکید وغیرہ رسائل میں ہم نے تفصیل بیان کردی ہے اور میری نظر میں مزید امور بھی ہیں (ت)
اور ان میں بہت تو کھلم کھلا ضروریات دین کے منکر اور قطعاً اجماعاً مرتد کافر ہیں اور نکاح خوانی کے لیے لوگ اسے بلاتے ہیں جسے اپنے نزدیک صالح اور معتبر جانتے ہیں تو اگر زوجین میں سے کسی نے ان کے کفریات پر مطلع ہوکر پھران کو نیک اور صالح سمجھا توا ن پر بھی وہی حکم نقد  وقت ہوگا کما صرح بہ فی الشفاء والاشباہ وغیرھما

(جیسا کہ الشفاء اور الاشباہ وغیرہما میں تصریح کی گئی ہے۔ ت) ایسی صورت میں بحکم فقہ اصلاً مطلق نکاح نہ ہوگا، لہذا احتیاط کی ضرورت ہے، اگر ایسا واقع ہو لیا یعنی اس کی گواہیوں پر مطلع ہوکر پھر اسے معظم ومتبرک سمجھ کر نکاح خوانی کے لیے بلایا تو بعد توبہ تجدید اسلام تجدیدنکاح لازم۔ واللہ تعالٰی اعلم
Flag Counter