Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
36 - 1581
مسئلہ ۳۱: ضلع پشاور تحصیل صوابی ڈاکخانہ یار حسین موضع یعقوبی سید عیدشاہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کی والدہ اور ہمشیرہ عمر و کے مکان پر بطور مہمان داری کے آئیں وسوئی تھیں، عمرو نے زید کی والدہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں نے اپنی بیٹی تم کو دی ہے جس سے اس کا منشا یہ تھا کہ زید سے اس لڑکی کانکاح کریں گے، زید کی والدہ نے اس کے جواب میں عمرو کو دعائیں دیں اور قبول زبان سے نہیں کیا، بعدکو زید نے ایک چھوٹا سازیور بطور نشانی کے بنا کر عمرو کی بیٹی کے واسطے بھیجا، اور جس وقت عمرو نے اپنی بیٹی کا تذکرہ زید کی والدہ سے کیا، اس وقت زید کی والدہ اور ہمشیرہ اور عمروکی بیوی تھی یہ تین عورتیں موجود تھیں، اور سوائے عمرو کے اورکوئی مرد گھرمیں موجود نہیں تھا، نہ اس ایجاب کا قبول صراحۃً ہو ا نہ ذکر مہر ہوا اورنہ گواہ موجود تھے،پھر عمرو کے انتقال کے بعد عمرو کے لڑکے نے اس نابالغہ کا عقد خالد سے کیاا ور ابھی رخصت نہیں ہوئی ہے لیکن عقد مع گواہ اورذکر مہر کے ہوا ہے توا س صورت میں عقد خالد کا صحیح ہوا یا نہیں؟ اور زید مدعی اس بات کا ہے کہ نکاح مجھ سے صحیح ہے، بینوا توجروا۔
الجواب : زید کا دعوٰی محض غلط ہے اس سے نکاح ہر گز صحیح نہ ہوا،
وان فرض ان کلام عمر و مع ام زید کان ایجابا وان دعاء ھا لہ قام مقام القبول لدلالۃ الرضا وان بعثہ حلیا للعرس کانہ اجازتہ لعقد الفضولی فعلی فرض کل ذٰلک لاوجہ للصحۃ فی الوجہ المذکور لعدم شاھد من الذکور۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ عمرو کی والدہ سے بات کرنا ایجاب ہے اور والدہ مذکورہ کا عمرو کو دعائیں د ینا قبول کے قائم مقام ہے کہ یہ اظہار رضا مندی ہے، اور پھر زید کا  زیور بھیجنا زید کی طرف سے فضولی کے عقد کی اجازت ہے بایں ہمہ مذکورہ صورت میں نکاح صحیح نہیں ہے کیونکہ اس عقد کا کوئی مردگواہ نہیں ہے۔ (ت)
درمختار میں ہے:
شرطہ حضور شاھدین حرین اوحرو حرتین مکلفین ۱؎۔
نکاح منعقد ہونے کی شرط یہ ہے کہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں عاقل بالغ اورحر، مجلس میں حاضر ہوں (ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب النکاح    مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۸۶)
بحرالرائق میں ہے:
فلا ینعقد بحضرۃ العبید والصیبان ۲؎۔
غلاموں اور بچوں کی موجودگی سے نکاح نہ ہوگا۔ (ت)
 ( ۲؎ بحرالرائق کتاب النکاح   ایچ ایم سعید کمپنی کراچی  ۳/۸۹)
خالد کا عقد صحیح  ہوا۔
لان الا قدام علیہ فسخ للفاسدان قلنا بالفرق بینہ وبین الباطل فی النکاح کما ھو قضیۃ فروع جمۃ۔
ا س لیے کہ ا س کا یہ اقدام فاسدنکاح کے لیے فسخ قرار پایا ہے، جب ہم نکاح میں فاسد وباطل کے فرق کا قول کریں جیساکہ تمام فروع کا معاملہ ہے (ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳۲: مسئولہ مولوی سید ظہور احمد صاحب از بیتھو شریف ضلع گیا ۲۵ ذی الحجہ ۱۳۲۲ھ

ایک شخص کانکاح بحضور دو شخص کے عورت کی اجازت سے ہوا اور دونوں شخص چپ رہے، توایسی صورت میں نکاح درست ہوا یا نہیںـ؟ اور وکیل بالنکاح ایک شخص ثالث ہے اور وہ شخصین ناکح کوجانتے ہیں لیکن ناکح نہیں جانتاہے اور عورت نے وکیل بالنکاح کو وہ دوشخص کے سامنے پردہ سے اپنے نکاح کی اجازت دی اور وکیل نے یوں کہاکہ فلاں عورت کو اس قدر مہر پر آپ کودیا، نہ نکاح کا لفظ کہا ہو اور نہ زوجیت کا۔
الجواب:نہ ناکح کا شاہدین کو پہچاننا ضرور، نہ شاہدین کا وقت عقد کچھ بولنا ضرور، نہ خاص نکاح یاز وجیت ضرور، نہ صرف فلاں عورت کہنے میں محذور، جبکہ تنہا اسی قدر سے اس کی معرفت ہوجائے، شاہدین کا معاً لفظین ایجاب وقبول کو سننا اور اتنا سمجھنا کہ یہ نکاح ہو رہاہے اور لفظ نکاح وتزویج ہو نا یا کوئی اور لفظ جوتملیک عین کا فی الحال کے لیے وضع کیا گیا اور شاہدین کے نزدیک عاقدین اعنی زوج وزوجہ کا متمیز ہوجانا خواہ بحضور و رؤیت واشارہ یا بغیبت وتسمیہ مجردہ یا مع نسبت وغیرہ متمیزات میں اس قدر ضرور ہے اور شک نہیں کہ کسی مرد کو اتنے مہر پر عورت کا دیا جانا مفید معنی نکاح ہے توصورت مستفسرہ میں اگر باقی شرائط مذکورہ مجتمع تھے نکاح درست ہوگیا،
 والمسائل کلھا مصرحۃ فی الدرالمختار وغیرہ من معتمدات الاسفار
(ان تمام مسائل کی تصریح درمختار اور دیگر معتمد کتب میں موجود ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۳۳: مرسلہ سید ظہور احمد مذکور الصدر ۳۰ محرم الحرام ۱۳۲۳ھ

ناکح کوتین مرتبہ قبول کرناشرط ہے یا ایک بار؟ اور گھبرانے کی وجہ تین بار تین طرح کہا، کبھی یہ کہ قبول ہے، کبھی میں نے قبول کیا، کبھی قَبِلْتُ، ایسی صورت میں نکاح درست ہوا یا نہیں؟ اور یہ بحضور شاہدین ہے اور عورت سے ایجاب درست طور پر ہو ا یا نہیں؟
الجواب : نکاح خواہ کسی عقد میں تین بار قبول اصلاً ضرورنہیں ایک ہی بار کافی ہے، اور تین بار تین طرح الفاظ قبول اداہونا کچھ مضر نہیں، ہاں اگر گھبراہٹ میں بجائے قبول بعض الفاظ رد و انکا ر اداہوں تو یہ دیکھا جائے گا کہ پہلے لفظ قبول کہا تھا تو نکاح ہوگیا کہ بعد تمامی عقد رد وانکار مانع انعقاد نہیں، اورپہلے لفظ ''انکار'' نکلا تو وہ ایجاب ردہوگیا، اب جو اس کے بعد اس نے لفظ ''قبول''کہا یہ اس کی طرف سے ایجاب ہوا، اگر اس مجلس میں ادھر سے لفظ ''قبول''متحقق ہوا منعقد ہوجائے گا ورنہ باطل ہوجائے گا، اور اگر متعدد الفاظ میں لفظ ردکوئی نہیں تھا ہاں ایسے الفاظ تھے کہ قبول نہ ٹھہریں تو وہ خواہ پہلے ہوں یا پیچھے جبکہ مجلس بدلنے سے پہلے ایک لفظ بھی قبول صحیح کا ادا ہوگا نکاح ہوجائے گا لان الفور غیر شرط والمجلس یجمع المتفرق (کیونکہ فوراً قبول کرنا شرط نہیں اور مجلس جامع متفرقات ہے۔ ت) او ر ایجاب عورت کی طرف سے ہو یا مر دکی طرف سے دونوں درست ہیں، عقودمیں ایجاب وقبول کچھ متعین نہیں، عاقدین میں جس کی طرف سے الفاظِ عقد پہلے صادر ہوں گے، ان کا نام ''ایجاب'' رکھا جائے گا ان کے جوا ب میں دوسرا جوکہے گا وہ قبول اقرار پائے گا، مثلاً عورت نے مر دسے کہا ''میں نے تجھے اپنی زوجیت میں قبول کیا'' یہ ایجاب ہوا اگرچہ بلفظ قبول ہے، مرد نے اس کے جواب میں کہا ''میں نے تجھے اپنی زوجیت میں لیا'' یہ قبول ہو ااگرچہ بلفظ قبول نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter