فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۲۸: ربیع الاول شریف ۱۳۱۸ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید اور ہندہ دونوں شخص چند شخصوں کے روبرو اس کے مقر ہوں کہ ہمارا نکاح آپس میں ہوگیا، یا زید علیحدہ ایک وقت میں چند اشخاص کے روبروفرداً فرداً یہ ظاہر کریں کہ ہمارانکاح آپس میں ہوگیا ہے اور پھر خط وکتابت میں ہندہ زیدکو وہی القاب آداب جو بی بی خاوند کو لکھتی ہے استعمال کرے تو کیا سمجھا جائے گا اور شرعا کیا حکم دیا جائے گا؟
الجواب: تصادق مرد وزن کہ مرد کہے یہ میری منکوحہ ہے، عورت کہے یہ میر اشوہر ہے، عند الناس مثبت نکاح ہے، مگر اگر غلط اقرار کیا ہو تو عنداللہ ہر گز نفع نہ دے گا وہ زانی وزانیہ ہوں گے اور سخت عذاب جہنم کے مستحق اور اولاد ولد الزنا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۹: ۱۶ ذی قعدہ ۱۳۱۸ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدنے ایک عورت سے اس شرط پرنکاح کیا کہ میں تجھ کو بعد تین چار ماہ کے طلاق دوں گا، آیا یہ نکاح شرعاً جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : نکاح جائز ہے اور طلاق دینا اس پر لازم نہیں،
فان النکاح لایبطل بالشروط الفاسدۃ بل ھی التی تبطل
(شرائط فاسدہ سے نکاح باطل نہیں ہوتا بلکہ شرائط خود باطل قرار پاتی ہیں، ت) واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۳۰: ۱۸ ذی الحجہ ۱۳۱۸ھ حال یہ ہے کہ حامد اور محمودہ دونوں میں ایسارشتہ تھا کہ محمودہ اس کے سامنے آسکتی تھی اور یہ دونوں ایک مدت تک صغر سنی میں ایک ہی جگہ رہتے سہتے تھے۔ ۱۸۹۷ء میں حامد کی بیوی کا انتقال ہوگیا اوربرضا مندی فریقین (یعنی حامداور محمودہ) کے والدین کی نسبت محمودہ سے ہوگئی اورمراسم نسبت ادا ہونے کے بعد ایک تاریخ نکاح مقرر ہوگئی، لیکن اس تاریخ مقررہ پر حامد کو کہ وہ گورنمنٹ کا ملازم تھا اتفاق سے رخصت نہ ملی اور تاریخ مقررہ پر نکاح نہ ہوسکا، اس کے بعد کچھ جھگڑے ایسے درپیش ہوگئے کہ دوسری تاریخ مقرر ہونے سے پہلے حامداپنی ملازمت سے علیحدہ ہوا، اس کے بعد جب حامد کے والدین نے تاریخ مقرر کرنا چاہی تو محمودہ کے والدین نے یہ عذر پیش کیاکہ حامد اب بے نوکر ہے اس لیے ہم نکاح نہیں کرناچاہتے۔ حامد اور محمودہ دونوں بالغ ہیں، محمودہ تاریخ نسبت سے حامد سے پردہ کرتی ہے،جب یہ حال محمودہ کومعلوم ہوا تو اس نے اپنی والدہ سے صاف صاف کہہ دیا کہ میں دوسرے امیر گھر جانا پسند نہ کروں گی خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوجس سے نسبت ہوئی اس سے نکاح ہو جانا چاہئے، محمودہ کے باپ واقعی امیرکبیر ہیں اور حامد ایک معمولی حیثیت کا آدمی ہے، محمودہ کے باپ یہ کوشش کرتے ہیں کہ محمودہ کا کسی امیر اور مالدار سے نکاح کردیں اور محمودہ کی رضامندی پر کوئی توجہ نہ کی جائے، اس لیے محمودہ یہ چاہتی ہے کہ قبل اس کے کہ یہ جبر اس پر کیا جائے وہ حامدکے ساتھ اپنا نکاح کرلے، مگرا س نکاح کا حال اس کے والدین کو نہ معلوم ہوا ور حامد بھی یہی چاہتا ہے، توعلمائے دین محمدی سے یہ امر دریافت طلب ہے کہ محض اگر گواہان اور وکیل کی موجودگی اور علم میں قاضی صاحب نکاح پڑھا دیں اور ازروئے شریعت ایجاب وقبول کا اطمینان کرلیں تو یہ نکاح خفیہ جائزہے اور کسی طرح ناقص تو نہیںـ؟ فقط۔
الجواب بالغہ جو بے رضائے ولی بطور خود اپنا نکاح خفیہ خواہ اعلانیہ کرے، اس کے انعقاد وصحت کے لیے یہ شرط ہے کہ شوہر اس کا کفو ہویعنی مذہب یا نسب یا پیشے یامال یا چلن میں عورت سے ایسا کم نہ ہو کہ اس کے ساتھ ا س کا نکاح ہونا اولیائے زن کے لیے باعث ننگ وعار وبدنامی ہو، اگر ایساہے تو وہ نکاح نہ ہوگا،
فی الدرالمختار ویفتی غیر الکفو بعدم جوازہ اصلا وھو المختار للفتوی لفساد الزمان ۱؎۔
درمختا رمیں ہے کہ غیر کفو میں نکاح کے جائز نہ ہونےکا فتوٰی ہے کہ فساد زمان کی وجہ سے نکاح منعقد ہی نہ ہوگا۔(ت)
(۱؎ درمختار باب الولی مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۱)
مال میں کفاءت کو صر ف اس قدر كفايت کہ وہ شخص اگر پیشہ ور ہو تو روز کا روز اتنا کماتا ہو جو اس عورت غنیـہ کے قابل کفایت روزانہ دے سکے، اور پیشہ ورنہیں تو ایک مہینہ کا نفقہ دے سکے، اور مہر جس قدر معجل ٹھہر ے اس کے ادا پر قدرت بہرحال درکار ہے۔
فی الدرالمختار تعتبر الکفاءۃ فی العرب والعجم مالابان یقدر علی المعجل ونفقۃ شہر لوغیر محترف والافان کان یکتسب کل یوم کفایتھا لوتطیق الجماع ۱؎ ملخصاً۔
درمختار میں ہے کہ مال کے اعتبار سے عرب وعجم میں کفو کا اعتبار بایں طورہے کہ مہر معجل دینے اور ایک روزانہ کا نفقہ دینے پر قادر ہو جبکہ غیر کا روباری ہو ورنہ روزانہ کا خرچہ دینے پر قدرت رکھتاہو بشرطیکہ بیوی جماع کی قدرت رکھتی ہو ملخصاً (ت)
( ۱؎ درمختار باب الکفاءۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۵)
پس اگر حامد اس قدر مال رکھتا ہو اورمذہب ونسب وحرفت وروش میں بھی محمودہ سے ویسا کم نہیں کہ اس سے نکاح باعث عار پدر محمودہ ہو، جیساکہ صورت سوال سے یہی ظاہر ہے کہ باپ پہلے اس سے نکاح پر راضی تھا اب صرف نوکری نہ رہنے کا عذر کرتا ہے توا س صورت میں برتقدیر صدق مستفتی دومرد یا ایک مرد دوعورتوں کے سامنے حامد اور محمودہ کے ایجاب وقبول کر لینے سے جائز وصحیح ہوجائے گا۔ نفس نکاح میں نقصان نہ ہوگا، ماں باپ کو ناراض کرنے کا وبال محمودہ پر ہو تو جدا ا مر ہے، واللہ تعالٰی اعلم