Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
34 - 1581
مسئلہ ۲۷: ا ز ریاست رام پور سرشتہ پولیس مرسلہ سید جعفر حسین صاحب محرر سرشتہ ۲۰ محرم ۱۳۱۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیا ن شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے ہندہ سے اس طور پرنکاح کیا کہ دو گواہوں اور ایک وکیل نے ہندہ کے پاس جاکر یہ کہا کہ بکر کے بیٹے زید نے ایک ہزار روپے کے بدلے میں تم کو اپنی زوجیت میں طلب کیا ہے یعنی خواستگاری کی ہے تم بھی ا س کو اپنی شوہریت میں قبول کرو اور مجھ کو وکیل قرار دو، تو ہندہ مذکورہ نے فقط لفظ ''قبول'' کہا (اور اس لفظ قبول کو اس ملک کے عوام وخواص قائم مقام ایجاب کے بنا بر عرف کے سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں) پھر اس طرح تینوں شخص زید کے پاس گئے اور وکیل نے زید سے جاکر کہا کہ تم نے خالد کی بیٹی ہندہ کو مہر مذکور پر قبول کیا تو زید نے صرف لفظ ''قبول'' کہا (اور اس قبول کو یہاں کے باشندے بمنزل قبول نکاح کے تصور کرتے ہیں اورہزاروں نکاح اس طور سے ہوگئے اور ہوتے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے کیونکہ یہ طور یہاں کا رسم ورواج قرار پایا ہے) اب اس صورت میں فقط لفظ ''قبول'' سے نکاح صحیح ہوگا یا نہیں؟ بعضے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ نکاح صحیح ہوجائے گا کیونکہ عاقل وبالغ کا کلام لغو کرنا نہ چاہئے ورنہ ہزاروں آدمی حرام زادہ قرار پائیں گے مسلمان کو زنا سے شرعاً بچانا چاہئے اور عرف اور رواج بھی ادلہ شرعیہ سے ایک دلیل ہے تو موافق عرف کے نکاح کو صحیح قرار دینا چاہئے اوربعضے علماء کہتے ہیں کہ لفظ ''قبول'' سے نکاح صحیح  نہیں ہوتا ہے کیونکہ لفظ ''قبول'' مصدر ہے اورمصدر سے نکاح درست نہیں ہوتا، اب متنازعہ فیہ میں حکم شرع شریف جوارشاد ہو، عوام بیچارے نہ مصدر کو جانیں نہ ماضی کو، وہ تو اپنے عرف ورواج جانتے ہیں، اسی کے پیرو وتابعدارہیں، ان کی اصلاح کس طور پر ہو، بینوا توجروا۔
الجواب: صورت مستفسرہ میں صحت نکاح میں شبہہ نہیں، جب ہندہ نے بعد سوال توکیل لفظ''قبول'' کہا یہ ایجاب توکیل ہوا اور وہ شخص وکیل ماذون ہوگیا۔
فان التوکیل یتم بمجرد الایجاب ولایتوقف علی القبول وان کان یرتد بالرد کما فی الاشباہ والہندیہ وغیرھما وھٰھنا وان امکن ان یجعل قول الوکیل تقبلیہ فی زوجیتک ایجاب فضولی بناء علی ماصرح فی الخانیۃ والخلاصۃ ان الامر فی النکاح ایجاب۱؎ قال فی الفتح وھذا احسن۲؎ وح یکون قول المرأۃ ''قبول'' قبولا وینعقد النکاح موقوفا علی اجازۃ الرجل فاذا خاطبہ الوکیل وقال قبول یکون تنفیذ ا لکنہ خلاف ماقصدوہ فان صنیعھم شاھدانھم لم یجعلوا مجلس المخاطبۃ مع المخطوبۃ مجلس عقد بل استئذان فیکون طلبا للوکالۃ وقولھا قبول توکیلا۔
وکیل بنانے کے لیے صرف ایجاب کافی ہے اور قبول کرنے پر موقوف نہیں اگرچہ ایجاب کو رد کردینے پر وکالت رد ہو جائیگی، جیسا کہ اشباہ اورہندیہ وغیرہ میں ہے۔ اوریہاں اس مسئلہ میں اگرچہ وکیل کا لڑکی کو یہ کہنا کہ ''تو بھی لڑکے کو اپنا خاوند ہوناقبول کرلے'' فضولی کی طرف سے ایجاب قرار دیا جاسکتاہے وہ خانیہ اور خلاصہ کی اس تصریح کی بناپر کہ ''نکاح میں درخواست''ایجاب ہوجاتاہے جس کے متعلق فتح میں کہا گیا کہ یہ قول بہت اچھاہے، تو فضولی کے جواب میں لڑکی کا ''قبول'' کہنا نکاح کو قبول کرنا قراردیا جائے گا، جس سے نکاح منعقد ہوجائے اور لڑکے کی اجازت پر موقوف قرار پائے، اور جب نکاح کرانے والا شخص (فضولی) لڑکے کو  پیشکش کرے اور لڑکا قبول کرلے تونکاح نافذ ہوجائے۔ لیکن یہاں مجلس والوں کا مقصد یہ نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد صرف لڑکی سے اجاز ت طلب کرنا ہے اور اس مجلس میں وکالت کرنا اور لڑکی کا ''قبول'' کہنا صرف توکیل ہوگی۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب النکاح الفصل الاول    نولکشور لکھنؤ        ۱/۱۵۱)

(۲؎ فتح القدیر       کتاب النکاح     نوریہ رضویہ سکھر    ۳/۱۰۴)
اب کہ وکیل نے خاطب سے آکر وہ لفظ کہے یہ جانب وکیل سے ایجاب ہوا،
فانہ استفھام وان کان حرفہ مقد را والا ستفہام عند ارادۃ التحقیق یؤدی مودی الامر کما حققناہ فی فتاوٰنا والامر کما سمعت ایجاب فی النکاح ولانعدل عن ھذا القول المرجح الٰی قول انہ توکیل لان الوکیل لایملک التوکیل فلا ینفذ العقد وفیہ تضییق واﷲ یحب الرفق۔
تو حقیقتاً یہ استفہام ہے اگرچہ صرف استفہام پوشیدہ ہے اور استفہام مقام تحقیق وانعقاد میں امر کا معنٰی دیتا ہے جیساکہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں تحقیق کی ہے اور نکاح میں  امر ایجاب قرارپاتا ہے، اس ترجیح یافتہ قول کو چھوڑکر ہم اس کو توکیل نہ بنائیں گے کیونکہ عورت کا وکیل کسی دوسرے کو وکیل نہیں بناسکتا جس کی بناپر عقد نافذنہ  ہوگا جبکہ اس میں تنگی ہے اور اللہ تعالٰی تو نرمی اور وسعت کوپسند فرماتا ہے۔ (ت)
اور زو ج کا ''قبول'' کہنا قبول ہوا اور نکاح صحیح وتام نافذ ہوگیا، اور یہ اعتراض کہ قبول مصدر ہے اورمصدر سے نکاح درست نہیں راساً ساقط ہے کہ یہ لفظ اس سوال وکیل کے جواب میں ہے کہ تم نے ہندہ کو قبول کیا اور عقل ونقل کا قاعدہ اجماعیہ ہے کہ:
السؤال معاد فی الجواب ۱؎ کما صرح بہ فی الاشباہ وغیر  ھما کتاب۔
جواب میں سوال کا اعادہ معتبر ہوتا ہے جیساکہ اشباہ وغیرہ بہت سی کتب میں تصریح ہے۔ (ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر    القاعدۃ الحادیۃ عشرۃ    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۱/۱۷۳)
توجواب میں صرف لفظ ''قبول'' کے قطعاً یہی معنٰی ہیں کہ ''قبول کیا'' اوریہ ماضی ہے اور ماضی سے نکاح یقینا درست ہے کما صرحوا بہ متونا وشروحا وفتاوٰی (جیسا کہ متون، شروح اور فتاوٰی میں تصریح ہے۔ ت) معہذا یہاں اصل کار وہ الفاظ ہیں جو رضا بالا نشاپر بے احتمال مساوی دلیل ہوں اور شک نہیں کہ لفظ ''قبول'' صراحۃً اس پر دال،ولہذا علماء تصریح فرماتے ہیں اگر عورت سے کہا اپنے نفس کومیری زوجیت میں دے اس نے کہا بالسمع والطاعۃ نکاح ہوگیا۔
کما فی النوازل والخلاصۃ والبزازیۃ والبحر والدر والمحیط والھندیۃ وغیرھا من الاسفار الغر۔
جیسا کہ نوازل، خلاصہ،بزازیہ، بحر، دُر، محیط، ہندیہ وغیرہا مشہور کتب میں ہے۔ (ت)
سمع وطاعت بھی مصدر ہی ہیں اورمناط صحت وہی تقدیر ماضی ہے یا اعتبار تراضی، وہ دونوں یہاں حاصل، تو حکم عدم نکاح محض باطل،
فتح القدیر میں ہے:
لما علمنا ان الملاحظۃ جہۃ الشرع فی ثبوت الانعقاد ولزوم حکمہ جانب الرضی عدینا حکمہ الٰی کل لفظ یفید ذٰلک بلا احتمال مساوللطرف الاٰخر ۱؎ الخ۔
جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ نکاح کے انعقاد اورا س کے حکم کے لزوم میں شرعا رضا کے پہلو کا اعتبار ہے تو ہم نے اس حکم کو ہر ایسے لفظ میں معتبر قرار دیا جوا س چیز کا احتمال رکھتاہو اورا س کے مخالف پہلوکا ا س میں مساویانہ احتمال نہ ہو الخ (ت)
 ( ۱؎ فتح القدیر     کتاب النکاح    نوریہ رضویہ سکھر        ۳/۱۰۳)
ردالمحتار میں ہے:
قولہ اوبالسمع والطاعۃ متعلق بمحذوف دل علیہ المذکورای زوجت اوقبلت متلبسا بالسمع والطاعۃ لامرک یحصل السمع والطاعۃ لامرہ الابتقدیر الجواب ماضیا مرادا بہ الانشاء لیتم شرط العقد بکون احدھما للمضی ۲؎۔
ماتن کا قول ''اوبالسمع والطاعۃ'' کا متعلق محذوف ہے جس پر مذکور دال ہے یعنی میں نے نکاح کیا یاقبول کیا آپ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور حکم کی اطاعت مقدر طور پر ماضی کے صیغہ کے ساتھ جواب کے بغیر نہیں ہوسکتی جبکہ ماضی سے انشاء مراد ہوگی تاکہ نکاح کی شرط یعنی ایجاب وقبول میں سے ایک کا صیغہ ہونا تام ہوجائے۔ (ت)
 (۲؎ردالمحتار     کتاب النکاح    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۳۶۳)
بحرالرائق میں زیر قول کنز:
انما یصح بلفظ النکاح والتزویج وما وضع لتملیک العین فی الحال
(''نکاح، تزویج اورتملیک عین فی الحال کے لیے موضوع الفاظ سے عقد ہوجاتا ہے۔'' ت)
فرمایا:
یرد علی المصنف الفاظ ینعقد بھا النکاح غیر الثلثۃ (وعد اشیاء کثیرۃ الٰی ان قال) ومنھا بالسمع والطاعۃ لوقال زوجی نفسک منی فقالت بالسمع والطاعۃ فھو نکاح کمافی الخلاصۃومنھا مافی الذخیرۃ لو قال یثبت حقی فی منافع بضعک بالف فقالت نعم صح النکاح اھ والجواب ان العبرۃ فی العقود للمعانی حتی فی النکاح کما صرحوا بہ وھذہ الالفاظ تؤدی معنی النکاح ۱؎۔
مصنف پر اعتراض ہے کہ ان مذکورہ الفاظ ثلٰثہ کے علاوہ دیگر الفاظ سے بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے وہاں انھوں نے بہت سے امور ذکر کیے جن میں سے سمع وطاعت بھی ذکر کرکے فرمایا کہ اگر کسی مرد نے کسی عورت کو کہا کہ تواپنے نفس کو مجھے بیاہ دے تو عورت نے جواب میں ''بالسمع والطاعۃ'' کہہ دیا تو نکاح ہوجائے گا جیسا کہ خلاصہ میں ہے، ان الفاظ سے وہ بھی ہے جو ذخیرہ میں مذکور ہے کہ اگر مرد نے عورت کو کہا کہ ہزار کے بدلے تجھ سے جماع کا حق میرے لیے ثابت ہے تو عورت نے جواب میں کہا کہ ''ہاں'' تو نکاح صحیح ثابت ہوگا اھ،تو جواب یہ ہے کہ عقود میں حتی کہ نکاح میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے جیساکہ فقہاء نے تصریح کی ہے جبکہ یہ مذکورہ الفاظ نکاح کا معنی اداکررہے ہیں۔ ت) واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
 (۱؎ بحر الرائق    کتاب النکاح    ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۳/۸۷)
Flag Counter