Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
33 - 1581
مسئلہ ۲۵: ۱۶ صفر ۱۳۰۳ ھ

زید کہتا ہے کہ متناکحین بالغین کو بوقت نکاح کلمے اورصفت ایمان مجمل ومفصل پڑھانا بہت ضرور بہتر ہے ا س کو کرنا چاہئے،
شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی قدس سرہ کے فتاوٰی میں ہے:
از روئے شریعت غرانکاح درمیان مومن وکافر منعقد نمی گردد وظاہر است کہ ازانسان درحالت لاعلمی یاازروئے سہوا کثر کلمہ کفر صادر مے گردد کہ برآں متنبہ نمی شود، دریں صورت اگر نکاح متناکحین واقع شد منعقد نمی شود، لہٰذا متاخرین از علمائے محتاطین احتیاطا صفت ایمان مجمل ومفصل رابحضور متناکحین می گویند ومی گو یا نند تاانعقاد بحالت اسلام واقع شود فی الحققیت علمائے متاخرین ایں احتیاط را در عقد نکاح افزو دہ خالی از نزاکت اسلامی نیست کسائے کہ از اسلام بہر ہ ندارند بلطف آن کے میرسند ۱؎۔ انتہی
روشن شریعت کی روسے مومن کافر کے درمیان نکاح نہیں ہوسکتا، ظاہر ہے کہ انسان سے لاعلمی میں کبھی سہواً کوئی کلمہ کفر صادرہوجاتا ہے  جس پر وہ آگاہ ہی نہیں ہوتا، تو اس صورت میں اگر مرد وعورت کا نکاح ہوا تو  منعقدنہیں ہوگا، لہذا محتاط علماء متاخرین مجلس نکاح میں صفت ایمان مجمل ومفصل خود بھی کہتے ہیں اورمردو عورت سے بھی کہلواتے ہیں تاکہ نکاح بحالت اسلام واقع ہو، علماء متاخرین نے عقد نکاح میں اس احتیاط کا جو اضافہ فرمایاہے وہ درحقیقت اسلامی نزاکت سے خالی نہیں، جو لوگ اسلام کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے وہ اس کی لطافت تک کب پہنچ سکتے ہیں۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی عزیزی    حکم اعلام کلمھا وصفت ایمان مجمل ومفصل بروز عقد نکاح    مجتبائی دہلی        ۲/۱۲۶)
یہ قول زید کا صحیح ہے یا نہیں ـ بینواتوجروا۔
الجواب : بہتر ہونے میں کیا کلام کہ ذکر خدا ورسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خیر محض ہے، خصوصاً تجدید ایمان، کہ ویسے بھی حدیث میں اس کا حکم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیںـ:
ان الایمان لیخلق  فی جوف احدکم کما یخلق الثوب الخلق فاسئلوا اﷲ تعالٰی، ان یجدد الایمان فی قلوبکم ۲؎۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عمر بسند حسن والحاکم فی المستدرک عن عمر وبسند صحیح رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔
بیشک ایمان تم میں کسی کے باطن میں پرانا ہوجاتا ہے جیسے کپڑا کہنہ ہوجاتا ہے توا للہ عزوجل سے مانگوکہ تمھارے دلوں میں ایمان کو تازہ فرمائے، (اسے طبرانی نے کبیرمیں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سند حسن اور حاکم نے مستدرک میں حضرت عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے سندِ حسن کے ساتھ روایت کیا۔ ت)
 (۲؎ مستدرک للحاکم    کتاب الایمان الامر بسؤال تجدید الایمان        دارالفکر بیروت    ۱/۴)
اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
جدد وا ایمانکم اکثر وامن قول لاالٰہ الااﷲ ۳؎۔ رواہ الامام احمد والحاکم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند صحیح۔
اپنے ایمان تازے کرو لاالہ الااﷲ بکثرت کہو۔ (اس کو امام احمد اور حاکم نے ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا۔ ت)
 (۳؎ مسند احمد بن حنبل مروی از ابی ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ   دارالفکر بیروت      ۲/۳۵۹)
تو اس قدر ضرور مسلم کہ اس کو کرنا چاہئے، ہاں بہت ضروری کہنانوعِ افراط سے خالی نہیں جہلاً یاسہواً معاذا للہ کلمہ کفر صادر ہوجانا محتمل سہی مگراسے مظنون ٹھہرالینا سوئے ظن ہے اور بے حصول ظن حکم ضرورت نہیں، کما لایخفی واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۶: ۲۷ ربیع الاول شریف ۱۳۱۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دختر زید بعمر سترہ(۱۷) سال وپسر عمرو بعمر تئیس(۲۳) سال ہے اور 

مانع شرعی موجودنہیں، پسر کاولی واسطے نکاح کے چار ماہ کی مہلت چاہتا ہے، اگر مہلت دی جائے تو شرعاً گنہگاری ہے یا نہیںـــ؟ بینوا توجروا۔
الجواب: کوئی گناہ نہیں جبکہ کوئی اندیشہ صحیح نہ ہو۔ اوراگر معاذاللہ اندیشہ ہے اور دوسرا کفو موجود ہے تو مہلت نہ دینا چاہئے، ا گر نہ مانے اس دوسرے سے نکاح کردیں جبکہ دختر رضامند ہو۔
لحدیث یا علی لاتؤخرثلثا الصلوۃ اذا حانت والجنازۃ اذا حضرت والایم اذا وجدت لھا کفوا۱؎ اوکما قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اس حدیث کی بنا پر جس میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا: اے علی! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو، نما زمیں جب وقت ہوجائے، جنازہ میں جب حاضر ہو، اور غیرشادی شدہ لڑکی میں جب اس کا کفو ملے۔ یا جیسے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی الوقت الاول من الفضل    نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱/۵۲)

(   سنن الکبرٰی للبیہقی     کتاب النکاح باب اعتبار الکفاءۃ    دارصادر بیروت        ۷/۱۳۳)
Flag Counter