فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ زید وہندہ نے باہم کلمات ایجاب وقبول نکاح کے، بموجودگی دو آدمیوں کے، کہے،۔لیکن ان دونوں آد میوں کو مطلقاً سماعت اورعلم نکاح زید اورہندہ کانہ ہوا۔ بعدازاں زید نکاح سے منکر ہوا۔ اور ان دونوں شاہدوں نے بھی سماعت اور علم نکاح سے لاعلمی روبروحاکم شرع کے ظاہر کی، تو آیا حاکم شرع زوجہ کو مہر دلائے گا یا نہیں؟ اوریہ نکاح منعقد ہوگا یا نہیںــ؟ بینوا توجروا۔
الجواب: نکاح میں شرط ہے کہ دونوں گواہ معاً دونوں لفظ ایجاب وقبول جلسہ واحدہ میں سنیں اور سمجھیں کہ یہ نکاح ہورہا ہے۔
فی الدرالمختار شرط حضور شاھدین حرین اوحر وحرتین مکلفین سامعین قولھما معاعلی الاصح فاھمین انہ نکاح علی المذھب ۲؎، بحر۔
درمختار میں ہے کہ نکاح میں دومردوں یاایک مرد دو عورتوں عاقل بالغ اورآزاد کا مجلس میں اس طرح موجود ہونا کہ وہ نکاح سمجھتے ہوئے نکاح کرنے والوں کے کلام کوسنیں، شرط ہے، یہ صحیح مذہب ہے، بحر۔ (ت)
(۲؎ درمختار کتاب النکاح مجتبائی دہلی ۱/۱۸۶)
تو مذہب اصح پر یہ نکاح منعقد نہ ہوا، زید کا انکار سچا ہے، اگر نوبت ہمبستری نہ آئی تو مہر سے کیا علاقہ، ورنہ مہر مثل دیناہوگا۔
فان الوطء فی دارالاسلام لو یخلو عن حد اوعقر ۳؎ کمافی الدرالمختار وغیرہ من معتمدات الاسفار وقد کانت ھٰھنا شبہۃ العقد فالحد سقط فالعقر ثبت۔
کیونکہ دارالاسلام میں بے محل جماع حد یا عقر سے خالی نہیں ہوتا، جیسا کہ درمختار وغیرہ معتمد کتب میں ہے۔ یہاں چونکہ نکاح کا شبہ ہے لہٰذا حد ساقط ہوگئی تو عقر واجب ہوگا۔ (ت)واللہ تعالٰی اعلم
(۳؎ درمختار با ب المہر مجتبائی دہلی ۱/۲۰۴)
مسئلہ ۲۴: مسئولہ حافظ علی بخش صاحب ساکن آنوالہ مسجد حنفیاں ۲۵ شوال ۱۳۲۳ھ
تعظیماً جمع کالفظ خد اکی شان میں بولنا جائزہے یانہیں، جیسے کہ ''اللہ جل شانہ یوں فرماتے ہیں'' اسی طرح ناکح سے کہناکہ ''تم نے یہ عورت قبول کی'' جمع بولنا چاہئے یا نہیںـ؟ بینوا توجروا۔
الجواب : حرج نہیں، اور بہتر صیغہ واحد ہے کہ واحد احد کے لیے وہی انسب ہے، قرآن عظیم میں ایک جگہ رب عزوجل سے خطاب جمع ہے:
رب ارجعون ۱؎،
وہ بھی زبان کافر سے ہے۔ اور ناکح سے کہنا کہ تم یا آپ یا جناب نے قبول کی، اس میں بھی حرج نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم
(۱؎ القرآن ۲۳/۹۹)