فی الھندیۃ الاصل ان تصرفات المکرہ کلھا قولامنعقدۃ عندنا الا ان مایحتمل الفسخ منہ کالبیع والاجارۃ یفسخ وما لایحتمل الفسخ منہ کا لطلاق والعتاق والنکاح والتدبیر والاستیلاد والنذور فھو لازم کذافی الکافی۱؎ اھ وتمامہ فی ردالمحتار قبیل قولہ وشرط حضور شاھدین۲؎ الخ
ہندیہ میں ہے یہ قاعدہ کہ جس پر جبر کیا گیا ہو اس کے اس حالت کے تمام تصرفات نافذ العمل ہونگے ہاں وہ تصرفات جو فسخ کا احتمال رکھتے ہوں جیسے بیع اور اجارہ کہ یہ فسخ قرار پائیں گے اور جو فسخ کا احتمال نہیں رکھتے مثلاً طلاق، عتاق، نکاح، مدبر بنانا، ام ولد بنانا اور نذر تو یہ امور لازم ہوجائیں گے، جیسا کہ کافی میں ہے اھ اس کی تمام بحث ردالمحتار میں ہے، ان کے قول ''گواہوں کی موجودگی شرط ہےـ'' سے تھوڑا پہلے ہے الخ
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الاکراہ الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۵/۳۸)
(۲؎ ردالمحتار کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۷۲)
اقول واما قول الھندیۃ رضا المرأۃ اذکانت بالغۃ۳؎ الخ فقد کتبنا علی ھامشہ مانصہ ای اذنھا قو لاوفعلا صریحا اودلالۃ ولو جبرا وکرھا ھکذاینبغی ان یفسرھذا المقام۔
اقول ہندیہ کا قول جوکہ انھوں نے خانیہ سے نقل کیا نکاح کی شرائط میں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ عاقلہ بالغہ عورت کی رضا الخ توہم نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے جس کی عبارت یہ ہے یعنی اس کی اجازت قول، فعلِ صریح یا دلالت سے ہوجاتی ہے اگرچہ بطور جبر ہو، اس مقام کی یونہی تفسیر مناسب ہے۔ (ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب النکاح الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۶۹)
مگر کسی کی بیٹی کو جبراً بلا نکاح لے جانا پھر بالجبر نکاح کرنا ظلم پر ظلم اور مسلمان کو عار لاحق کرناہے۔
قال اﷲ تعالٰی لااکراہ فی الدین ۴؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: دین میں جبر نہیں ہے۔ (ت)
( ۴؎ القرآن ۲/۲۵۲)
حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیںـ:
لایحل لمسلم ان یاخذ عصا اخیہ بغیر طیب نفس منہ ۵؎۔ رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن ابی حمید الساعدی رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
مسلمان کو حلال نہیں کہ اپنے بھائی مسلمان کی لکڑی بغیرا س کی دلی مرضی کے لے لے (اس کو ابن حبان نے صحیح میں ابوحمید الساعدی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)
(۵؎ مورد الظمآن الٰی زوائد ابن حبان کتاب البیوع باب ماجاء فی الغصب حدیث ۱۱۶۶ المطبعۃ السلفیہ بالروضۃ ص۲۸۳)
جب بے مرضی لکڑی لینی حرام ہے لڑکی یعنی کس درجہ حرام واشدحرام ہوگی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من اٰذی مسلما فقد اٰذانی ومن اٰذانی فقد اذی اﷲ ۱؎۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی ا س نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذادی ا س نے اللہ عزوجل کو ایذادی۔ (اسے طبرانی نے اوسط میں سند حسن کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)
گواہ ووکیل ومعین جتنے لوگ اس واقعہ پر آگاہ ہو کر زید کی اعانت کریں گے سب اس کی مثل ظلم و حرام واستحقاق عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
قال اﷲ تعالٰی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ۲؎۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: گناہ وعداوت میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو۔ (ت)
(۲؎ القرآن ۵/۲)
حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من مشی مع ظالم لیعینہ وھو یعلم انہ ظالم فقدخرج من الاسلام ۳؎۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر والضیاء فی المختار عن اوس بن شرحبیل الاشجعی رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جو کسی ظالم کے ساتھ چلا اس کی مدد کرنے اور وہ جانتا ہے کہ یہ ظالم ہے وہ بیشک اسلام سے نکل گیا۔ (اسے طبرانی نے کبیر میں اور ضیاء نے مختار میں اوس بن شرحبیل اشجعی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)
(۳؎ معجم کبیر حدیث۶۱۹ مکتبہ فیصلیہ بیروت ۱/۲۲۷)
رہا مسئلہ رضاعت، ہمارے مذہب میں ایک عورت کا بیان ثبوت رضاعت کے لیے کافی نہیں خصوصا جبکہ خود مضطرب ہو،
جیسا کہ ہم نے اس بارے میں پہلے سے آئے ہوئے مسائل کے جوابات میں اس کی تفصیل اپنے فتاوٰی میں بیان کردی ہے۔ (ت)
اس سے احتیاطاً بچنا صرف مرتبہ استحباب میں ہے اور فعل غایت درجہ مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولٰی کہ نہ کرے تو بہتر، کرے توکچھ گناہ نہیں،
فتاوٰی امام قاضی خاں میں ہے:
رجل تزوج امرأۃ فاخبر رجل مسلم ثقۃ اوامرأۃ انھما ارتضعا من امرأۃ واحدۃ قال فی الکتاب احب الی ان یتنزہ فیطلقھا ویعطیھا نصف المھر ان لم یدخل بھا ولایثبت الحرمۃ بخبر الواحد عندنا مالم یشھد بہ رجلان اورجل وامرأتان ۱؎۔
ایک شخص کا عورت سے نکاح ہونے کے بعد ایک ثقہ مرد یا عورت نے یہ خبر دی کہ ان میاں بیوی نے ایک عورت کا دودھ پیا ہے، تو امام قاضی خان نے کتاب میں فرمایا کہ میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ وہ شخص بطور احتیاط عورت کو طلاق دے دے اور دخول نہ کیاہو تو نصف مہر ادا کرے، جبکہ رضاعت کی حرمت ایک شخص کی خبر سے ثابت نہیں ہوتی جب تک دو مرد، یاایک مرد دو عورتیں شہادت نہ دیں حرمت ثابت نہ ہوگی۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الحظروالاباحۃ فصل فیما یقبل قول الواحد الخ نولکشور لکھنؤ ۴/۷۸۷)
ایسے امر سے بچنے کے لیے جان دینے کی اجازت ہر گزنہیں ہوسکتی کہ جان کا رکھنا ہر فرض سے اہم فرض ہے بلکہ اہل وعیال کوچھوڑ کر جلا وطنی وغیرہ امور بھی کہ خود گناہ یا منجربہ گناہ ہوں جائز نہیں ہوسکتے۔
شریعت مطہرہ اور عقل سلیم اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ معمولی چیز کو کسی عظیم اور بھاری چیز کے ارتکاب سے ختم کیا جائے۔ (ت)
یہاں تقوٰی بمعنٰی اتقائے شہادت ہے وہ صرف مستحب ہے، نہ فرض وواجب،
علماء فرماتے ہیں:
لیس زماننا زمان اجتناب الشبھات ۲؎، کمافی الاشباہ وغیرہ عن الخانیہ والتجنیس وغیرھما۔
جس طرح اشباہ وغیرہ میں خانیہ اور تجنیس کے حوالے سے ہے کہ ہمار ا زمانہ شبہات سے بچاؤ کا زمانہ نہیں ہے۔ (ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر کتاب الحظروالاباحۃ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۲/۱۰۸)
زید وغیرہ کی اس درخواست سے تقوٰی کی اہانت نہیں نکلتی بلکہ اس احتیاط کا غیر ضروری ہونااور اس قدر ضرور صحیح ہے، ہاں ا س سے درکنار اگر بالجبر ہوتوہم لکھ چکے ہیں کہ مسلمان پر جبر واکراہ کسی امر مباح میں حرام وظلم ہے نہ امر غیر مستحب میں، مگر اس پر جان نہیں دے سکتے، البتہ صورت اولٰی میں یعنی جبکہ واقع میں نکاح باطل ہو ا اور زید جھوٹی گواہیاں دلواکر بالجبر بلانکاح چھین لے جانا _______ یا بالجبر اس کے ساتھ کوئی فعل ناجائز کرنا چاہے ا س وقت اگرچہ اپنے ناموس کی حفاظت جائزہ کرے جو شرعاً وعقلاً وعرفاً ہر طرح ا س کاحق ہے اور ظالم اسے قتل کردے تو یہ شہید ہوگا،
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من قتل دون مالہ فھو شہید ومن قتل دون دمہ فھو شہید ومن قتل دون دینہ فھو شہید ومن قتل دون اھلہ فھو شہید ۱؎۔ اخرجہ الائمۃ احمد وابوداؤد والترمذی والنسائی وابن حبان فی صحاحھم عن سعید بن زید رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جو اپنا مال بچانے میں مارا جائے وہ شہید، جو اپنی جان بچانے میں ماراجائے وہ شہید، جو اپنا دین بچانے میں مارا جائے وہ شہید، جو اپنے گھروالوں کے بچانے میں ماراجائے وہ شہید، (اسے احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن حبان نے سعید بن زید سے اپنی صحاح (کتب) میں روایت کیا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ ت)
(۱؎ سنن النسائی کتاب المحاربۃ تحریم الدم نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲/۱۷۲)