فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۲۲: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ باپ کو نکاح ہندہ بالغہ کا زید کے ساتھ جو اہل کفو سے ہے منظور نہ تھا اورنہ ہے زید نے بغیبت باپ ہندہ جو صرف بارہ کوس کے فاصلہ پر اپنے علاقہ پر تھا بہ سکوت وگریہ ہندہ برضامندی مادر ونانی ہندہ وکالت اورشہادت تین اقر با خاص نکاح ظاہر کیا ہندہ کہہ رہی ہے کہ مجھ کو بلارضامندی اپنے باپ کے یہ نکاح نہ پہلے منظور تھا اور نہ اب ہے۔ ایسی حالت میں باپ ہندہ یا ہندہ کے مجبور کرنے کے واسطے منجانب زید بخیال جواز نکاح یہ بیان وشہادت گزری کہ ہندہ نے زبان سے اقرار کیا تھا وبعد از رخصتی بذریعہ عدالت یا جس طرح پر ہو اپنے گھر جاکر نکاح کاقصد رکھیں ایسی صورت میں ہندہ کو جو ولایت اپنے باپ میں ہے کسی ذریعہ سے لی جائے اطلاق غصب یا کس گناہ کاہوگا ونکاح مابعد کی نسبت جو گھر لے جاکر دختر مذکور کومجبور کرکے کرے کیا کہنا چاہئے وزید وغیرہ مرتکب کس گناہ کے ہوں گے یا کچھ نہیں، فرض کیا جائے کہ قضاء بوجہ نصاب شہادت نکاح جائز ہو لیکن جب باپ ہندہ کو نہ پہلے منظور تھا نہ اب ہے وہندہ کہہ رہی تھی کہ مجھ کو بلارضامندی اپنے باپ کے یہ نکاح نہ پہلے منظور تھا نہ اب ہے ایسی حالت میں زید وغیرہ کی نسبت کیاکہنا چاہئے کہ بالجبر باپ ہندہ خواہ ہندہ کو مجبور کرنا کیسا ہے، اگر ناجائز ہے تو مرتکب غصب یا کس گناہ کا مرتکب وگواہ و وکیل و معین ا س کے کس گناہ کے مرتکب اور نکاح آئندہ کی نسبت جو بالجبر اپنے گھر لے جاکر کرے کیا کہنا چاہئے اوریہاں رضاعت کابھی شبہہ ہے اگرچہ اس میں شک واقع ہے کہ ہندہ کی نانی اور ہندہ نے پہلے کہاتھا کہ ایام رضاعت میں زید کو دودھ پلایا ہے بعدہ بحلف کہنے کو موجودکہ نہیں پلایا ہے ایسی صورت میں احتیاط وتقوٰی کا کیا مقتضی ہے گو نکاح ناجائز ہو مگر احتیاط وتقوٰی مقتضی ا س امر کا ہے کہ نہ کیاجائے اگرہوگیا توترک کیاجائے یا کیا اگر احتیاط مانع ہے تو اس احتیاط کے ہاتھ سے نہ جانے میں جس قدر باپ ہندہ کا جان دے رہا اور نقصان امور دنیاوی اٹھا رہا ہے آوارہ وطن ہوجائے داخل امور دینی وثواب ہے اور اگر ا س صدمہ سے یا مقابلہ میں یعنی جس وقت زید رخصت بجبر یا کوئی فعل جبر یہ کرناچاہئے اس وقت جان جاتی رہے تو شہید کا اطلاق کیا جائے یا کیا ونیز متعلق اسی کے یہ مسئلہ دریافت طلب ہے، کہ زید وغیرہ کہتے ہیں جب بسبب عدم ثبوت رضاعت نکاح شرعاً جائز تو تجدید نکاح کردو گو احتیاط وتقوٰی مانع ہے وباپ ہندہ کہتا ہے کہ جب احتیاط وتقوٰی مانع ہے توہم کیوں کریں پس ایسی صور ت میں سوال یہ ہے کہ زید کا قول مرقومہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ احتیاط وتقوٰی کو ایک ادنٰی چیز سمجھتا ہے یاکچھ نکلتا ہے دوسرے یہ کہ زید جو وہ باپ ہندہ کو احتیاط وتقوٰی سے روکتا ہے کیسا فعل ہے؟
الجواب : جواب سوال اول عہ میں واضح ہوچکا ہے عہ :یعنی مقام مذکورہ کا سوال کہ باب الولی میں ہے ۲ ۱منہ (م)
کہ یہ نکاح اگر باذن صریح ہندہ نہ ہوا نہ بعد کو اذن صریح قولی یا فعلی سے نافذ ہولیا تو مجرد سکوت ہندہ اس کے نفاذ کے لیے کافی نہیں ، نکاح نکاح فضولی تھاا وراذن ہندہ پر موقوف، جب ہندہ نے کہا کہ مجھے یہ نکاح نہ پہلے منظور رتھا نہ اب ہے تو یہ صاف رد وباطل ہوگیا، اب اگر ہندہ وپدر ہندہ کہ مجبور کرنے کے لیے کسی جھوٹی شہادت سے نفاذنکاح ثابت کیا جائے تو زید اور اس کے شہود سب مستحق غضب الہٰی وعذاب شدید ہوں گے، جھوٹی گواہی دینے والے پر جو سخت ہولناک وعیدیں ارشاد ہوئی ہیں ہر مسلمان جانتا ہے یہاں تک کہ قرآن عظیم میں اسے بت پوجنے کے برابرشمار فرمایا،
قال اللہ تعالٰی:فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور حنفاء ﷲ غیر مشرکین بہ ۱؎۔
بتوں کی نجاست سے بچو، جھوٹی بات سے پرہیز کرو، شرک سے بچتے ہوئے اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کرتے ہوئے۔ (ت)
(۱؎ القرآن ۲۲/۳۰)
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
عدلت شہادۃ الزور الاشراک باﷲ عدلت شہادۃ الزور الاشراک باﷲ ۲؎۔ رواہ ابوداؤد والترمذی وابن ماجۃ عن خریم بن فاتک رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جھوٹی گواہی خد ا کے ساتھ شریک کرنے کے برابر کی گئی جھوٹی گواہی خدا کے لیےشریک بتانے کے ہمسر ٹھہرائی گئی (جھوٹی گواہی خدا کا شریک ماننے کے مساوی کی گئی)، اس کو ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے خریم بن فاتک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔ (ت)
(۲؎ سنن ابی داؤد باب فی شہادۃ الزور آفتاب عالم پریس لاہور ۲/۱۵۰)
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
الا انبئکم باکبر الکبائر قول الزورا وقال شہادۃ الزور ۳؎۔ رواہ الشیخان عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
کیا میں تمھیں نہ بتادوں کہ سب کبیروں سے بڑا کبیرہ کون سا ہے، بناوٹ کی بات، یا فرمایا جھوٹی گواہی، (اسے شیخین نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)
(۳؎ صحیح بخاری باب ماقیل فی شہادۃ الزور قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۳۶۲) (صحیح مسلم باب الکبائر واکبرھا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۶4)
نیز حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لن تزول قد ماشاھد الزور حتی یوجب اﷲ لہ النار ۱؎۔ رواہ ابن ماجۃ والحاکم وصحح سندہ عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنھما۔
جھوٹی گواہی دینے والا اپنے پاؤں ہٹانے نہیں پاتا کہ اللہ عزوجل ا س کے لیے جہنم واجب کردیتا ہے، اس کو ابن ماجہ اور حاکم نے صحیح قرار دے کر ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)
(۱؎ سنن ابن ماجہ باب شہادۃ الزور ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۷۳)
ایسی ناپاک کارروائی کے ساتھ کسی کی بیٹی کو بلانکاح رخصت کراکرلے جانا اگرچہ اسی قصد پر ہوکہ گھر لے جا کر نکاح کرلیں گے سخت شدید کبیرہ عظیمہ ملعونہ ہے جس کا مرتکب کہ اشد ظلم میں گرفتار ہے مستحق عذاب الیم نار ہے،
اللہ عزوجل فرماتا ہے،
الا لعنۃ اﷲ علی الظٰلمین ۲؎
سن لو خدا کی لعنت ہے ظلم کرنے والوں پر،
(۲؎ القرآن ۱۱/۱۸)
حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: دفتر تین ہیں، ایک میں سے اللہ عزوجل کچھ نہ بخشے گا، اور دوسرے کی اسے کچھ پروا نہیں، اورتیسرے میں سے کچھ نہ چھوڑے گا، وہ جس سے کچھ نہ بخشے گا کفر ہے، اور وہ جس کی اسے پروا نہیں آدمی کے حقوق اللہ میں گناہ ہیں جیسے کسی دن کا روزہ یا کوئی نماز ترک کرنی کہ اللہ عزوجل چاہے گا توا سے معاف فرمادے گا
واما الدیوان الذی لایترک اﷲ منہ شیئا مظالم العباد بینھم القصاص لامحالۃ ۳؎
اور وہ دفتر جس میں سے اللہ تعالٰی کچھ نہ چھوڑے گا بندوں کا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم ہے ا س کا بدلہ ضرور ہونا ہے رواہ الامام احمد والحاکم وصححہ عن ام المومنین الصدیقۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا (اس کو امام احمد اور حاکم نے صحیح قرار دے کر حضرت ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا۔ ت)
( ۳؎ مسند احمد بن حنبل مرویات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا دارالفکر بیروت ۶/۲۴۰)