Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
29 - 1581
مسئلہ ۲۱: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید مع  چند ہمراہیوں کے عمرو کے یہاں ا س کی دختر کو پیام دینے گیا عمرو نے اس کے ساتھ شادی دختر کردینے پر رضاظاہر کی اور گفتگو کرنے والوں سے مخاطب ہوکر کہا میں نے اپنی لڑکی آپ کو دی، اس پر زید نے کہا بہتر ہم کو منظور ہے جب آپ نے میرا خطبہ کو منظور کیا اور زبان دی تو میری تسکین ہوگئی غرض بہمہ وجوہ قرار پاگئی ا ورطرفین کااطمینان ہوگیا اب عمرو اس دختر کانکاح دوسرے شخص سے کرنا چاہتا ہے یہ اسے جائز ہے یا نہیں اور بغیر ترک یااعراض زید کے دوسرے شخص سے اس دختر کا نکاح صحیح ہوگا یا نہیں ا ورجبکہ عمرو نے کہا میں نے اپنی لڑکی آپ کو دی اور زید نے اس کے جواب میں کہا بہتر قبول ومنظور ہے تو یہ صاف ایجاب وقبول ہوکر نکاح منعقد ہوگیا یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب: صورت مستفسرہ میں اگرچہ مخطوب منہ کا اپنے اقرار سے پھرنا ا ورخاطب اول کو زبان دے کر دوسرے سے قصد تزویج کرنا شرعاً مذموم وبے جا و قابل مواخذہ ہے،
قال تبارک وتعالٰی : ان العھد کان مسئولا ۱؎
 (عہد کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔ ت)
 ( ۱ ؎ القرآن         ۱۷/۳۴)
اور جس طرح مخطوب منہ پر مواخذہ ہے اسی طرح وہ دوسرا خاطب جس نے مخطوبہ غیر پر پیام دیا شرعاً مرتکب شناعت ہے،
وقد صح ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نھی عن السوم علی سوم اخیہ والخطبۃ علٰی خطبۃ اخیہ ۲؎۔
صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بھائی کے سودے پر سودے اور بھائی کی منگنی پر منگنی سے منع فرمایا۔ (ت)
 ( ۲؎ صحیح مسلم     باب یحرم الخطبۃ علی خطبہ اخیہ الخ    قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی    ۱/۴۵۴)
مگر بااینہمہ اگر مخطوب منہ اپنی لڑکی کا خاطب اول سے نکاح نہ کرے اور غیر سے تزویج کردے یہ نکاح شرعاً صحیح ودرست ہوجائے گا اور ترک واعراض خاطب اول کی کچھ حاجت نہیں کہ وہ گفتگو جواب تک خاطب و مخطوب منہ کے درمیان آئی اس کی طرف سے مجرد خطبہ تھی اور اس کی جانب سے محض وعدہ، نہ عقد ایجاب و قبول، پس مخطوبہ ہنوز خاطب کی عصمت نکاح میں نہ داخل ہوئی جس کے سبب غیر سے ا س کی تزویج ناروا ٹھہرے،
فی العقود الدریۃ سئل فیما اذا خطب وکیل زید ابنۃ عمروا لبالغۃ لزید بمحضر من الناس فاجابہ الاب الی ذٰلک قائلا ان مھر ابنتی کذا ان رضیت فبھا والافلافرضی الخاطب ودفع للاب شیئا من الحلی والبسہ لابنتہ فلم ترض البنت بالخطبۃ و ردتھا فھل یسوغ لھا ذٰلک ولاتکون الخطبۃ واقعۃ موقع عقد النکاح اصلا الجواب حیث لم یجر بینھما عقد نکاح شرعی بایجاب وقبول شرعیین لاتکون الخطبۃ واقعۃ موقع عقدالنکاح اصلا ۱؎۔
عقود الدریہ میں سوال کیا گیا کہ جب زید کے وکیل عمرو کی بالغہ لڑکی کے بارے میں لوگوں کی موجودگی میں زید کے لیے منگنی کی تولڑکی کے باپ نے جوا ب میں کہا کہ میری لڑکی کا اتنا مہر ہے اگر آپ راضی ہیں توبہتر ورنہ نہیں، اس پر منگنی والاراضی ہوگیا اور  اس نے لڑکی کے باپ کوکچھ زیور دئے اور لڑکی کو کپڑا پہنایا تو لڑکی نے منگنی پر رضامندی سے انکار کردیا اور منگنی کو رد کردیا تواس صورت میں کیا لڑکی کو ردکا اختیار ہے اور کیا یہ منگنی نکاح کے قائم مقام نہ ہوگی؟ جواب: شرعی طورپر یہ قبول وایجاب کے ساتھ نکاح نہ ہوا اور یہ منگنی نکاح کے قائم مقام نہ ہوگی۔
(۱؎ عقود الدریہ علی تنقیح حامدیہ  مسائل منشورہ من ابواب النکاح حاجی عبدالغفار وپسران تاجرانِ کتب قندھار       ۱/۳۱)
اوریہ لفظ کہ میں نے لڑکی آپ کو دی ہر چند کنایات تزویج سے ہے مگر مجلس عقدمیں عقدقرار پاتاہے اور مجلس وعد میں وعد۔
فی ردالمحتار عن فتح القدیر عن شرح الطحاوی لوقال اعطیتنیھا فقال اعطیت ان کان المجلس للوعد فوعدوان کان للعقد فنکاح ۲؎ اھ واقرہ العلامۃ العلائی والفاضل الرحمتی والسید الطحطاوی وغیرہم رحمہم اﷲ تعالٰی۔
ردالمحتار میں فتح القدیر کے حوالے سے طحاوی کی شرح سے منقول ہے کہ اگر کسی نے دوسرے کوکہا کہ تو نے لڑکی مجھے دی، جوا ب میں اس نے کہا کہ میں نے دی ، تو اگر بات مجلس نکاح میں ہے تو نکاح ہے اور وعد(منگنی) کی مجلس ہے تومنگنی ہوگی اھ اس کو علامہ علائی، فاضل رحمتی، سید طحطاوی وغیرہم رحمہم اللہ تعالٰی نے ثابت رکھا۔ (ت)
 ( ۲؎ ردالمحتار        کتاب النکاح        داراحیاء التراث العربی بیروت        ۲/۲۶۴)
اوپر ظاہر ہواکہ وہ مجلس  مجلس نکاح نہ تھی ا ورخاطب کا اس وقت مع چند ہمراہیوں کے جانا بات ٹھہرانے اور وعدہ لینے اوررضامندی حاصل کرنے ہی کے طور پرتھا توپدرمخطوبہ کے وہ الفاظ بھی وعدہ ہی پرمحمول ہوں گے نہ عقد پر، یہاں تک کہ خود خاطب کے کلام سے واضح وروشن کہ وہ بھی ان کلمات کو اقرار نکاح واظہار رضا وقبول خطبہ ہی سمجھا نہ ایجاب وتزویج کہ اس نے جواب میں کہا: بہتر ہم کو منظور ہے، جب آپ نے میرے خطبہ کو منظور کیا اور زبان دی تو میری تسکین ہوگئی اور ہر عامی جانتا ہے کہ ہماری زبان میں زبان دینا کسی کام کے وعدہ کو کہتے ہیں نہ کہ اس کے ایقاع واصدار کو، زید نے اگر عمرو سے کچھ روپے مانگے اور اس نے دے دئے تو  یہ نہ کہا جائے گا کہ عمرو زبان دے چکا،ہاں نہ دئے اور دینے کا وعدہ کرلیا تو یہ لفظ بولنا صحیح ہوگا، پس ثابت ہوگیا کہ مخطوب منہ کا وہ کلام محض اجابت تھا نہ کہ لفظ ایجاب وشتان بینھم (دونوں میں فرق ہے۔ ت) ایک وجہ تو عدم نکاح کی یہ ہوئی اوریہیں سے دوسری وجہ بھی ظاہر ہے کہ جب کلام خاطب باعلی ندا منادی کہ وہ سخن مخطوب منہ کا محصل اقدام العقد  نہ سمجھا تھا بلکہ محض اقرار و وعد جانا تو اب اس کا یہ کہنا بھی کہ ''بہتر ہم کو منظور'' برسبیل قبول وتزویج نہ تھا بلکہ اس کی اجابت پر اپنی خوشی کا اظہا رتھا تو اگر فی الواقع مخطوبہ منہ کے وہ الفاظ ایجاب ہی ٹھہریں تاہم مفقود ہے اور جملہ اخیرہ کہ ''آپ نے زبان دی تو میری تسکین ہوگئی'' مفسر مرادموجود جس کے سبب لفظ اول صریح قبول ٹھہراکر الفاظ اورنیت کا الغا نہیں کرسکتے اور اس کے سوابعض وجوہ اور بھی پیدا ہوسکتے ہیں جو عدم انعقاد نکاح پردلالت کریں۔
کمالایخفی علی ماھر الفقیہ وفیما ذکرنا کفایۃ للنبیہ۔
جیساکہ مخفی نہیں، ماہر فقیہ پر، اور ہم نے جو ذکر کردیا ہے وہ عالم کو وضاحت کے لیے کافی ہے۔ (ت)
بالجملہ نہ الفاظ مخطوب الیہ ایجاب کے قابل نہ جانب خاطب سے قبول حاصل، نہ مخطوبہ حبالہ نکاح خاطب میں داخل، نہ غیر سے تزویج ناروا وباطل، رہا مخطوب منہ پر گناہ، وہ بھی اسی وقت تک ہے کہ اس نے بلاوجہ یا کسی رنجش دنیوی کے سبب تزویج خاطب اول سے اعراض کیا ہو، اور اگر درحقیقت کوئی عذر مقبول پیدا ہوا اور اس نکاح میں اس نے حرج شرعی سمجھا اور خاطب ثانی کو حق دختر میں بہتر جانا تو شرع مطہر ہرگز اس پر دلیل لازم نہیں کرتی کہ تواپنی زبان پالنے کے لیے محذورشرعی گوارا یا دیدہ ودانستہ بیٹی کے حق میں بر اکر، نیک و بد پر کامل نظر ذمہ پدر واجب وضرور، ا ور آدمی نہ تبدیل رائے سے محفوظ ومصون، نہ کسی وقت بعض مصالح پر نہ اطلاع پانے پر مامون، یہ توصرف اقرار ہی تھا، ہمارے حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تودربارہ قسم ہمیں حکم دیا ہے کہ اگر تم کسی بات پر قسم کھا بیٹھو پھر خیال میں آئے کہ اس کاخلاف شرعاً بہتر ہے تو اس بہتری پرعمل کر واور قسم کا کفارہ دے دو۔
فقد اخرج الامام احمد ومسلم فی صحیحہ والترمذی عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من حلف علی یمین فرأی غیرھا خیرا منھا فلیات الذی ھو خیر ولیکفر عن یمینہ ۱؎۔
امام احمد نے اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں اورامام ترمذی نے ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی قسم کھائی اور ا س نے اس قسم کے خلاف کو بہتر جانا تو بہتر کو اپنا لے اور اپنی قسم کا کفارہ دے۔ (ت)
 (۱؎صحیح مسلم    باب ندب من حلف یمیناً فرای غیرہا خیراً منہا الخ    قدیمی کتب خانہ پشاور    ۲/۴۸)
پس پدر مخطوبہ پر لازم ہے کہ خدا سے ڈرے اور اصلح واوفق پر نظر کرے وہ دو مطالبوں کے زیر تقاضا ہے ایفائے موعدت ودفعِ مفسدت،پھر اگر خاطب اول میں کوئی محظور شرعی نہ ہو تو اول پر عمل کرے ورنہ ثانی پر کاربند رہے
من ابتلی ببلیتین فاختار اھونھما
(جو دو آزمائشوں میں مبتلا ہو تو آسان کو اختیار کرے۔ ت) واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
Flag Counter