Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
28 - 1581
مسئلہ ۱۹: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی عورت طوائف کسی مرد آشنا کے ساتھ پردہ میں حسب دستور عیاشیوں کے جو بغرض مفید رکھنے اور نہ ملتفت ہونے اس کے ساتھ دوسرے مرد کے، پردہ میں رکھتے ہیں ہم خانہ رہی ہو ، وہ عورت شرعا زوجہ تصور کی جائے گی یا نہیں ؟اور اگر زوجہ تصور کی جائے گی تو ایسے ہم خانہ رہنے کے واسطے کوئی مدت مقرر ہے یا نہیں ؟اور ہے تو کس قدر مدت ہے ؟بینو ا توجروا
الجواب : صورت مسئولہ میں پردہ اس طوائف کا صرف ان لوگوں سے جن سے احتمال موافقت کا ہو معتد بہ نہیں ،ایسا پردہ ثبوت نکاح کی دلیل نہیں ہو سکتا ،البتہ اگر وہ مرد وزن مثل زوج وزوجہ رہتے ،اور جو لوگ ان کے حالات خانگی سے واقف ہیں  انھیں زوج وزوجہ تصور کرتے ہوں تو شرعاً زوج زوجہ قرار پائیں گے نہ کہ زانی وزانیہ کہ مسلمان کی طرف بدکاری کی نسبت بے ثبوت شرعی ہرگز جائز نہیں، شارع نے جس قدر احتیاط اس بارے میں فرمائی دوسرے معاملہ میں نہ آئی یہاں حسنِ ظن واجب اور تکذیب قاذف لازم،
قال عزاسمہ لو لاجاؤا علیہ باربعۃ شھداء ۱؎
الآیۃ (اس پر اگر وہ چار گواہ پیش نہ کریں، الآیۃ۔ ت)
 ( ۱؎ القرآن      ۲۴/۱۳)
اور ارشاد ہوتا ہےـ:
ولولااذ سمعتموہ قلتم ۲؎ الآیۃ
(اور کیوں نہیں تم کہتے جب تم اسے سنتے ہو، الآیۃ۔ ت)
 ( ۲؎ القرآن     ۲۴/۱۶)
اگر کوئی مسلمان حرعاقل بالغ عفیف کی طرف نسبت زنا کرے اور چار گواہوں سے ثابث نہ کردے تو بعد طلب مقذوف کے اسے اسی کوڑے مارے جاتے ہیں اورگواہی اس کی کبھی قبول نہیں ہوتی،
قال اﷲ تعالٰی : والذین یرمون ۳؎ الآیۃ
 (اور وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں الآیۃ۔ت)
 (۳؎ القرآن      ۲۴/۴)
اسی طرح اگر تین گواہ معائنہ زناکی گواہی دیں اور چوتھا نہ ہو تو ان گواہوں پر قذف لازم آتی ہے،
فی الفتاوی الھندیۃ ان یشھد علی الزنا اقل من اربعۃ بأن شھد واحد أواثنان أوثلٰثہ لاتقبل الشھادۃ ویحد الشاھد حد القذف۴؎ اھ۔
فتاوٰی ہندیہ میں ہے کہ اگر چار سے کم ایک یادو یاتین گواہ زنا کی گواہی دیں تو ان کی شہادت قبول نہ ہوگی اور گواہوں پر حد قذف ہوگی اھ (ت)
 ( ۴ فتاوٰی ہندیہ کتاب الحدود الباب الخامس فی الشہادۃ علی الزنا الخ  نورانی کتب خانہ پشاور  ۲/۵۲۔ ۱۵۱)
پس ایسی صورت میں گو گواہانِ معائنہ نکاح موجود نہ ہوں شرع حکم نکاح کافرمادیتی ہے ا ور اس امر کے لیے شرع شریف میں کوئی مدت مقرر نہ فرمائی بلکہ بحالت عدم شہود معائنہ مدار ثبوت  انبساط وشہرت پر ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۰: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کا نکاح زید کے ساتھ ہوا اور زید شب زفاف میں بالکل مخاطب نہ ہوا اور جا پر علیحدہ رہا اور باہم صحبت زید نے ہندہ سے نہیں کی، بعدہ معلوم ہواکہ زید نامر د ہے ا ور ہندہ نے زید کا عنین ہونے کا بھی ایک عرصہ تک علاج کیا لیکن صورت صحبت ظہورمیں نہ آئی، اب ہندہ اپنے والدین کے یہاں رہتی ہے اور زید سبب نامردی کے چاہتا ہے کہ ہندہ کو جان سے مارڈالے، اس صورت میں نکاح ہندہ کا زیدسے درست ہوا یا نہیں؟ اور ہندہ دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے یا نہیںـ؟ جیساکہ حکم شرع شریف کاہو ویسا کیا جائے، بینوا توجروا۔
الجواب : نکاح ہندہ کا زید سے درست ہے،
اذلیس عدم العنۃ من شرائط صحتہ ولوکان کذلک لما احتیج الی ماذکروہ من باب العنین من المرافعۃ و التاجیل والطلب والتفریق وھذا واضح جدا۔
کیونکہ نکاح کے درست ہونے کے لیے نامرد نہ ہونا شرط نہیں ہے، اور اگریہ بات ہوتی تو پھر نامرد کے سلسلہ میں قاضی کے ہاں پیش کرنے اور قاضی کا مہلت دینا، عورت کا مطالبہ، اور پھر قاضی کی تفریق وغیرہ امور ذکر کرنے کی فقہاء کو ضرورت پیش نہ آتی، جبکہ یہ بات بالکل واضح ہے۔ (ت)
ہندہ کو ہرگز روا نہیں کہ بغیر حصول طلاق دوسرے شخص سے نکاح کرلے، اگر کرے گی نکاحِ ثانی باطل محض ہوگا اور شوہر ثانی سے قربت زنائے خالص، والعیاذ باللہ تعالٰی۔
وذٰلک لبقاء العصمۃ کما ذکرنا فالعنین وغیرہ فیھا سواء۔
دوسرے نکاح کا عدم جوازپہلے نکاح کے تحفظ کے لیے ہوتاہے جیساکہ ہم نے ذکر کیا ہے، پس اس معاملہ میں نامرد اور مرد برابر ہیں۔ (ت)
ہاں صورت خلاص یہ ہے کہ زید وہندہ اپنے معاملہ میں کسی ذی علم کو پنچ کریں۔
ففی الخیریہ یصح التحکیم فی مسئلۃ العنین لانہ لیس بحد ولاقو د ولادیۃ علی العاقلۃ ولھم ان یفرقوا بطلب الزوجۃ ۱؎اھ۔
توفتاوٰی خیریہ میں ہے نامرد کے مسئلہ میں حکم بنانا ا س لیے درست ہے کہ یہ حَد، قصاص اورعاقلہ پردیت کا مسئلہ نہیں ہے، حکم حضرات کے لیے عورت کے مطالبہ پر تفریق کرناجائز ہے اھ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ    باب التحکیم    دارالمعرفۃ بیروت    ۲/۱۶)
ہندہ اس کے حضور عنت شوہر کا دعوٰی کرے اور اس بنا ء پر تفریق چاہے پنچ کے نزدیک جب اس کا عنین ہونا بطریق شرعیہ کہ ان میں سے ایک طریقہ مثلاً اقرار زید ہے ثابت ہوجائے گا تو بملا حظہ  تفاصیل مذکورہ فی الفقہ سال بھر کی زید کو مہلت دے اور اس تمام برس میں زن وشویکجا رہیں، اگر کچھ دنوں کو ہندہ کہیں چلی جائیگی وہ دن سال میں معدود نہ ہوں گے، جب ا س طرح سال کامل گزر جائے ا ور زید ہندہ پر قدرت نہ پائے تو اس وقت بطلب ہندہ زید وہندہ میں تفریق کردی جائے، اب بعد عدت ہندہ کو اختیار نکاح ہوگا۔
وکل ماذکر نا مفصل فی الدرالمختار وردالمحتار والفتاوی الخیریہ وغیرھا من الکتب الفقہیۃ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے ا س کی تفصیل درمختار، ردالمحتار اور فتاوٰی خیریہ وغیرہ کتب میں موجود ہے۔ (ت)
Flag Counter