فی الدرالمختار لو بلغھا فردت ثم قالت رضیت لم یجز لبطلانہ بالرد ولذا استحسنواالتجدید عند الزفاف لان الغالب اظھار النفرۃ عند فجأۃ السماع ۱؎۔
درمختار میں ہے کہ لڑکی کونکاح کی اطلاع ملی تو انکار کردیا پھربعد میں اس نے کہا میں راضی ہوں، تو پہلے رد شدہ نکاح اس سے جائز نہ ہوگا کیونکہ وہ انکار کرنے کی وجہ سے باطل ہوچکا ہے۔ اسی وجہ سے فقہاء کرام نے فرمایا کہ ایسی صورت میں رخصتی کے وقت دوبارہ نکاح کرنا بہتر ہوگا کیونکہ اچانک نکاح کی خبر پر نفرت کااظہار ہوتا ہے (اس لیے پہلا انکارنفر ت کی وجہ سے ہوا) (ت)
( ۱؎ درمختار کتاب النکاح باب الولی مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۲)
یونہی بعض نکاحوں میں مشاہدہ ہوا ہے کہ نکاح خواں نے کلمات ایجاب دولھا کے کان میں کہے کہ حاضرین میں کسی نے نہ سنے صحیح مذہب میں یوں نکاح نہیں ہوتا کہ مجلس واحد میں معاً دو گواہوں کا دونوں الفاظ ایجاب وقبول سننا شرط ہے۔
فی الدر وشرط حضور شاھدین حرین ا وحروحرتین مکلفین سامعین قولھما معا علی الاصح ۲؎۔
دُرمیں ہے کہ نکاح میں دو عاقل بالغ حر مر دیاایک مرد ا ور دوعورتیں گواہ کے طور پر مجلس میں موجود ہو کر نکاح کے دونوں فریقوں کا کلام سنیں، یہ شرط قرار دیا گیا ہے صحیح قول کے مطابق۔ (ت)
(۲ ؎ درمختار کتاب النکاح مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۸۶)
ان باتوں کامنشا وہی جہل وناواقفی ہے اوران کے سوا اوربیس اغلاط کا اندیشہ ہے جن سے علماء ہی آگاہ ہوتے ہیں یا وہ نیک توفیق والے جنھیں علماء کی خدمت وصحبت اور ان سے مسائل دینیہ کی تحقیقات کا شوق کامل ہے غرض جاہل کی نکاح خوانی قطعا خلاف اولٰی ہے جس طرح اس کی امامت یا مضاربت کہ جو اندیشہ خلل و فساد وہاں ہے وہی نکاح میں بھی، کما لایخفی (جیسا کہ مخفی نہیں۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۶: از جورہاٹ ملک آسام ہائی اسکول مرسلہ میاں محمد علی صاحب ۳ شعبان ۱۳۱۲ھ
ماقولکم رحمکم اﷲ تعالٰی (اللہ تعالٰی آپ پر رحم فرمائے آپ کاکیا فرمان ہے) اس مسئلہ میں کہ اگرزید نے ایک عورت سے دو گواہ غیر ملکی کے سامنے نکاح کیا پھر زیدنے وہ دونوں گواہ جانے کے بعد اپنے نکاح کو ظاہر کیا اور عورت بھی نکاح ہونے پر زید کے مقر ہے اور وہ دونوں گواہان مذکوران ایک غیر ملک میں جاکر ایک عالم سے اور اپنے ملک میں جاکر قاضی کے روبرو دونوں جگہ نکاح ہونے زید کی گواہی دئے ہیں اور دونوں جگہ سے دو خط مع مہر ودستخط کے اور صورت گواہی ان دونوں گواہوں کے زید کے نکاح ہونے کا ثبوت زید کے ملک کے ایک عالم ا ور ایک معتبرآد می کے پاس ارسال کیا پھر ایک برس کے بعدان دونوں گواہوں سے ایک گواہ آکر پہلے تین چار آدمی کے روبرو نکاح ہونے زید کی گواہی دی تھی بعدہ دس بارہ روز کے بعد ایک جماعت کے روبرو انکار نکاح زید کا کیا، زید اور بی بی کے درمیان میں کوئی جھگڑا اور تنازع نہیں ہے، زید بھی خاص وعام کے روبرو کہتاہے کہ وہ میری بی بی ہے اور بی بی کہتی ہے کہ زید میرا شوہر ہے،اور حال چال بھی دونوں کے خاوند اور جورو ہونے کے پائے جاتے ہیں، اور مقر نکاح جانبین ہے۔ از روئے شرع شریف کے زیدکانکاح درست اور نافذ ہوا یانہیں؟ اور نکاح دوبارہ کرنا لازم آئے گا یا نہ ؟ اور صورت نکاح دوبارہ میں حد ان دونوں کے اوپر یعنی زوج زوجہ کے اوپر لازم ہوگا یانہیںــ؟ مع دلیل وبرہان کے جواب باصواب فرمائیں، اگر دونوں گواہ انکار نکاح کا ہوجائیں توا س صورت میں کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب : صورت مستفسرہ میں وہ دونوں زوج وزوجہ ہیں، ان کا نکاح صحیح و ثابت ہے، دوبارہ نکاح کی اصلاً حاجت نہیں، اگرچہ دونوں گواہ انکار کرجائیں۔
فان الشہود شرط النکاح فی الابتداء دون البقاء۔
گواہوں کا ہونا نکاح کی ابتداء میں شرط ہے اس کے بقاء کے لیے شرط نہیں۔ (ت)
جبکہ دونوں باہم مقر نکاح ہیں، یہ اسے اپنی بی بی وہ اسے اپنا شوہر بتاتی ہے تو کسی کو اعتراض کی ہر گز گنجائش نہیں بلکہ ان کا صر ف یہ باہمی اقرار ہی ثبوت نکاح کے لیے کافی ہے اگرچہ کوئی گواہ گواہی نہ دے
، فی ردالمحتار صرحوا ان النکاح یثبت بالتصادق ۱؎
(ردالمحتار میں ہے کہ علماء نے تصریح کی ہے کہ ایک دوسرے کی تصدیق سے نکاح ثابت ہوجاتا ہے۔ ت)
( ۱؎ ردالمحتار کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۶۵)
پھر ان کا باہم زن و شو کی طرح رہنا دوسرا مثبت نکاح ہے یہاں تک کہ جتنے لوگ اس حال سے واقف ہیں سب کو ان کے زوج وزوجہ ہونے پر گواہی دینی جائز ہے۔
فی الھدایۃ حل لہ ان یشھد اذ رأی رجلا وامرأۃ یسکنان بیتا وینبسط کل واحد منھما الی الاٰخر انبساط الازواج ۲؎اھ ملخصا۔ واﷲ سبحانہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
ہدایہ میں ہے جب کوئی مرد و عورت آپس میں خاوند بیوی کی طر ح گھر میں رہیں اور دونوں آپس میں میاں بیوی کی طرح بے تکلف ہوں تو دیکھنے والے کو ان کے نکاح کی شہادت دینا جائز ہے اھ ملخصا، واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔ (ت)
(۲؎ ہدایہ کتاب الشہادۃ مطبع یوسفی لکھنؤ ۳/۱۵۸)
مسئلہ ۱۷: ۱۵ شعبان ۱۳۱۲ھ
کیا فر ماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے ہندہ سے بایں شرط نکاح کیا کہ بعد ایک ماہ کے طلاق دے دوں گا۔ اور اس امر کو اپنے دل میں رکھا، یایہ کہ ہندہ سے بیان کیا، تو آیا یہ نکاح صحیح ہوا یا نہیں؟ـ بینوا توجروا۔
الجواب: نکاح صحیح ہے خواہ دل میں یہ قصد رکھا خواہ عقدمیں اس کی شرط کرلی کہ طلاق کا شرط کرنا ہی ارادہ نکاح دائم پردلیل ہے، ہاں اگر یوں عقد کرے کہ میں نے تجھ سے ایک مہینہ یا ایک برس یا سو برس کے لیے نکاح کیا تو نکاح نہ ہوگا کہ ایک وقت تک نکاح کو محدود کردینا صورت متعہ ہے اور متعہ محض حرام اور زنا،
درمختار میں ہے:
بطل نکاح متعۃ وموقت وان جھلت المدۃ لوطالت فی الاصح ولیس منہ مالو نکحھا علی ان یطلقھا بعد شھر اونوی مکثہ معھا مدۃ معیّنۃ ۱؎۔
متعہ کے طور پر نکاح یا مقررہ مدت کے لیے نکاح خواہ مدت لمبی ہو یا مدت مجہول ہو توصحیح مذہب میں یہ نکاح باطل ہے، اور اگر اس شرط پر نکاح کیا کہ ایک ماہ بعد طلاق دے دوں گا، یا اس وقت دل میں مقررہ مدت کی نیت کی تھی تو باطل نہ ہوگا۔ (ت)
( ۱؎ درمختار کتاب النکاح فصل فی المحرمات مجتبائی دہلی ۱/۱۹۰)
ردالمحتار میں ہے:
لان اشتراط القاطع یدل علی انعقادہ مؤبدا وبطل الشرط بحر ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اس لیے کہ نکاح میں طلاق کی شرط دلالت کرتی ہے کہ یہ نکاح دائمی ہے اور شرط باطل ہوگی، بحر۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۲؎ ردالمحتار کتاب النکاح فصل فی المحرمات داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۹۴)
مسئلہ ۱۸: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ منکوحہ زید میں کوئی علامت مردی وزنی سے نہیں ْصرف ایک مخرج ہے جس سے بول آتا ہے، مگر پستان اس کے مثل زنان ہیں، اس صورت میں یہ نکاح صحیح ہے یا نہیں؟ اور اگر زید اسے طلاق دے تو ادائے مہر ذمہ زید لازم ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب: صور ت مسئولہ میں نکاح صحیح ہے ا ورنصف مہر بعد طلاق ذمہ زید پرواجب الادا کہ منکوحہ زید اگرچہ قبل از بلوغ بوجہ انتفائے ہر دو علامت از قبیل خنثی تھی مگر جب بعد بلوغ ا س کی پستانیں مثل پستانِ زن ظاہر ہوئیں تو اشکال زائل اور اس کا عورت ہونا منکشف ہوگیا، اب بلاشبہہ یہ نکاح اپنے محل میں واقع اور حل استمتاع کو شرعا مفید کہ شرائط صحت سب موجود ہیں اور موانع شرعیہ بالکل مفقود، البتہ فسادخلوت عدم تاکد مہر کا باعث ہے، اور خیار عیب کونکاح میں دخل نہیں تاکہ زید بوجہ ا س کے فسخ نکاح کرسکے اور کل مہر اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے، رہا امر حسی کا عائق ہونا وہ ہرگز منافیِ جواز نہیں۔
فی تنویر الابصار من کتاب الخنثی ھوذوفرج وذکر اومن عری عن الانثیین فان ظھرلہ ثدی فامرأۃ انتھی مع التلخیص ۱؎،
تنویر الابصار کی خنثی کی بحث میں ہے خنثی وہ ہے کہ جس کا ذکر اور فرج دونوں ہوں یا خصیتین نہ ہوں، توا گر اس کے پستان ظاہر ہو جائیں توعورت قرار پائے گی، تنویرکی عبارت ختم ہوئی، تلخیصا۔
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب الخنثی مجتبائی دہلی ۲/۳۴۱)
وفی الدرالمختار من النکاح ھو عندالفقہاء عقد یفید ملک المتعۃ ای حل استمتاع الرجل من امرأۃ لم یمنع من نکاحھا مانع شرعی انتھی ۲؎،
درمختارمیں نکاح کی بحث میں ہے فقہاء کرام کے ہاں نکاح ایسا عقد ہے جو مرد کوعورت سے جماع کا مالک بنا دیتاہے جبکہ اس سے کوئی شرعی مانع نہ ہواھ
(۲؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب النکاح مجتبائی دہلی ۱/۱۸۵)
ا وراسی کے مہر کے باب میں ہے کہ جب خلوت بغیر کسی حسی مانع کے حاصل ہوجائے توا س کا حکم مہر کو لازم کرنے میں جماع کی طرح ہے، خلوت میں حسی مانع جیسے رتق (راء اور تافتح کے ساتھ) جس کا معنٰی شرمگاہ میں گوشت کا اُبھر جانا، اور جیسے قرن بسکون راء، جس کا معنی ہڈی اور عقل،ع اور ق پر فتح ،جس کا معنی غدود ہے یعنی ہڈی اور غدود شرمگاہ میں اس طرح بڑھ جائے کہ جماع کے لیے مانع بن جائے اھ ملخصا،
(۳؎ درمختار شرح تنویر الابصار باب المہر مجتبائی دہلی ۱/۱۹۹)
وفیہ من ذٰلک الباب ویجب نصفہ بطلاق قبل وطی او خلوۃ ۴ انتھی
درمختار کے اسی باب میں ہے کہ نصف مہر لازم ہوگا جب خلوت یاجماع سے قبل طلاق دی ہو اھ
(۴؎ درمختار شرح تنویر الابصار باب المہر مجتبائی دہلی ۱/۱۹۸)
وفی فتاوی الامام قاضی خاں والرتق یمنع الخلوۃ لانہ یمنع الجماع وذکر فی طلاق الاصل ان العدۃ یجب علی الرتقاء ای فلھا نصف المھر ۱؎ انتھی وفیھا من فصل خیارات النکاح ومنھا خیار العیب وھو حق الفسخ بسبب العیب عندنا لایثبت فی النکاح فلاترد المرأۃ بعیب ما و قال الشافعی لہ ان یرد بالقرن والرتق و یفسخ النکاح فان رد قبل الدخول یسقط کل المھر والامھر المثل کماھو حکم الفسخ ۲؎ انتھی مع التلخیص، واﷲ تعالٰی اعلم۔
فتاوٰی قاضی خاں میں ہے کہ رَتَق، خلوت کے لیے مانع ہے کیونکہ یہ جماع کے لیے مانع ہے، اور اصل (مبسوط) کی بحث طلاق کے بیان میں ہے کہ رتقا، عورت پر عدت واجب ہے اور اس کے لیے نصف مہر ہوگا اھ اور اصل کی بحث اختیارات نکاح میں ہے کہ خیار عیب جس کو عیب کی وجہ سے حقِ فسخ کہتے ہیں، ہمارے ہاں نکاح کے باب میں ثابت نہیں، لہذا کسی عیب کی وجہ سے عورت کو رَد نہیں کیاجائے گا۔ اور امام شافعی نے فرمایا کہ قرن اور ر تق والےعیب کی وجہ سے مرد کو فسخ کا اختیار ہے پس اگر قبل از خود دخول رَد یافسخ کردے توتمام مہر ساقط ہوجائے گاورنہ پورا مہرمثل عورت کا حق ہے جیساکہ فسخ کا حکم ہے اھ ملخصا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)