اذا قال لغیرہ دختر خویش مرادہ، فقال دادم، ینعقد النکاح وان لم یقل الخاطب پذیر فتم، ولو قال مرادادی فقال دادم، لاینعقد النکاح مالم یقل الخاطب پذیر فتم الا اذا اراد بقولہ دادی التحقیق دون السوم ۱؎۔
جب دوسرے کوکہا کہ توا پنی لڑکی مجھے دے۔ تو دوسرے نے کہا ''دی'' تو اس سے نکاح منعقد ہوجائے گا اگرچہ پہلا ''میں نے قبول کی'' نہ کہے ا وراگر پہلے نے کہا ''تو نے بیٹی مجھے دی'' تو دوسرے نے جواب میں کہا ''میں نے دی'' تو جب تک پہلا اس کے بعد ''میں نے قبول کی'' نہ کہے نکاح منعقد نہ ہوگا۔ ہاں اگر اس صورت میں دوسرے نے ''میں نے دی'' سے مراد نکاح کا تحقق لیاا ور خواہش اور مرضی کا اظہار مراد نہ لیا تونکاح ہوجائے گا۔ (ت)
( ۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب النکاح الباب الثانی فیما ینعقد النکاح نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۷۱)
اسی طرح بزازیہ میں ہے ___ ردالمحتار میں شرح علامہ مقدسی سے نقل فرمایا:
انما توقف الانعقاد علی القبول فی قول الاب ا والوکیل ھب ابنتک لفلان اولابنی ا واعطھا مثلاً لانہ ظاھر فی الطلب وانہ مستقبل لم یرد بہ الحال والتحقق فلم یتم بہ العقد بخلاف زوجنی بنتک بکذا بعد الخطبۃ ونحوھا فانہ ظاھر فی التحقق والاثبات الذی ھو معنٰی الایجاب ۲؎۔
لڑکے کے باپ یا وکیل نے لڑکی کے باپ کو کہا کہ تو اپنی بیٹی فلاں کو یا میرے لڑکے کو ہبہ کریا عطا کر، تو اس میں نکاح کا انعقاد لڑکی کے باپ کے دے دینے کے بعد لڑکے کے باپ یا وکیل کے قبول کرلینے پر موقوف رہے گا، کیونکہ یہ الفاظ ظاہر طور پر طلب کے لیے ہوتے ہیں جس میں مستقبل ہوتا ہے۔ تحقق ا ور حال مرادنہیں ہوتا، لہذا عقد تام نہ ہوگا، اس کے برخلاف اگر یہ کہا ہو کہ ''تو اپنی بیٹی مجھے بیاہ دے'' ا ور یہ کہنا مہر طے کرنے ا ورمنگنی کے بعد ہو تو یہ الفاظ تحقق اور اثبات میں ظاہر ہیں جو کہ ایجاب کہلاتا ہے۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب النکاح الباب الثانی فیما ینعقد النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۶۴)
شرح طحاوی سے گزرا کہ ھل اعطیتنیھا (کیا تونے بیٹی مجھے عطا کی۔ ت) مجلس عقد میں مفید عقد ہے ا ور جلسہ وعد میں طلب وعد بالجملہ الفاظ محتملہ میں مدار قرینہ پر ہے۔ پھر الفاظ مذکورہ عمر و وعبداللہ تو مساومت وتحقیق دونوں سے مہجور اور خاص اخبار میں متعین ہیں تو انھیں اس عبارت سے بھی کچھ علاقہ نہیں کما لایخفٰی (جیسا کہ مخفی نہیں ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۴، ۱۵: از ملک آسام ضلع جورہاٹ ڈاکخانہ کٹنگا مقام سرائے بہی مرسلہ سید محمد صفاء الدین صاحب ۱۱ ربیع الاول شریف ۱۳۱۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں:
سوال اول: ایک عدیم البصر عالم وفاضل اور ایک نگہبان بھی اس کے پاس موجود تھا اس نے نکاح پڑھایا، نکاح جائزہے یا نہ؟
الجواب : بلاشبہہ جائز ہے کہ نکاح پڑھانے میں آنکھوں کا کیا کام، بلکہ جب وہ عالم ہے تو وہی انسب و اولٰی، خود گواہان نکاح جن کے بغیر نکاح اصلاً صحیح نہیں اگر نابینا ہوں کچھ مضائقہ نہیں ۱؎۔
کمانص علیہ فی المتون کا لکنز والوقایۃ والاصلاح والمختار والہدایۃ والملتقی والتنویر وغیرھا۔
جیسا کہ کنز، وقایہ، اصلاح، مختار، ہدایہ، ملتقی اور تنویر وغیرہ متون میں اس پر تصریح موجود ہے۔ (ت)
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب النکاح مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۸۷)
تونکاح پڑھانے والے کی بینائی کیا ضرورکہ وہ خود ہی نکاح کے لیے ضروری نہیں، عاقدین کا آپ ایجاب وقبول کافی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
سوال دوم: اگر عدیم البصر عالم نہ ہو اور نگہبان بھی موجود نہ ہوا س صورت میں اس نے نکاح پڑھایا، آیا جائز ہے یا نہ؟ بینوا توجروا۔
الجواب : اب بھی جائز ہے جبکہ ٹھیک پڑھائے، بے نگاہی یا بے نگاہ بانی کچھ نکاح پڑھانے میں مخل نہیں، ہاں جاہل ہونا مخل ہوسکتا ہے کہ جب مسائل نکاح سے آگاہ نہیں تو ممکن کہ وہ صورت کردے جس سے نکاح صحیح نہ ہواور زوجین بھی بوجہ جہل اس سے غافل رہیں تومعاذاللہ عمر بھر حرام میں مبتلا ہوں، لہذا نکاح میں بہت احتیاط لازم، عقد کرنے والادیندار، متقی، مسائل نکاح سے واقف ہو کہ جاہل سے نادانستہ وقوع مخل کااندیشہ تھا، فاسق بددیانت پر اعتماد نہیں، جب وہ خود حلال وحرام کی پروانہیں رکھتا تواوروں کے لیے احتیاط کی کیا امید،
بحرالرائق و درمختار وفتح اللہ المعین وغیرہا میں ہے:
دُرکے الفاظ ہیں، نکاح کا اعلان، اس سے پہلے خطبہ مسجد میں ہونا ، جمعہ کا دن ہونا اور نکاح کرنیوالا صاحب رشد یعنی صاحب علم وعمل ہونا مستحب ہے الخ۔ (ت)
( ۱ ؎ درمختار کتاب النکاح مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۸۵)
اقول الرشد ینتظم العلم والعمل
(رشد علم اور عمل دونوں کو جامع ہے۔ ت) ا س زمانہ جہل وفسا د میں اکثر وہ صورت رائج ہے کہ اگر اہل علم حاضر جلسہ نہ ہوں تو نکاح میں سخت خلل واقع ہونے کا اندیشہ ہے یعنی دولھن سے زیدکے لیے صرف وکالت نکاح لی، یہ تصریح نہ کرائی کہ اسے دوسرے کو وکیل کردینے کا بھی اختیار ہے۔ اب زید وکیل جو شرعاً صرف نکاح پڑھانے کا مجاز ہوا وہ خودنہیں پڑھاتا بلکہ قاضی کوئی اور صاحب باہر بیٹھے ہیں ان سے آکرکہتاہے مجھے فلاں عورت نے اپنے نکاح کا وکیل کیا، دو گواہ گواہی دیتے ہیں،وہ تو اتنا کہہ کر الگ ہوگیا، اب قاضی جی نے نکاح پڑھایا، یہ نکاح ہر گز نہ ہوا کہ نہ خود عورت نے ایجاب وقبول کیا نہ اس کے وکیل ماذون نے بلکہ ایک اجبنی شخص نے کہ اول تو وکیل کا اپنی وکالت سے خبر دینا اس قاضی کو اپنی طرف سے وکیل کرنا نہیں، اور ہو بھی تو صحیح مذہب میں وکیل نکاح کو دوسرے کے وکیل کرنے کا بے اذن موکل اختیار نہیں۔
فی الدر عن البحر لیس للوکیل (ای فی النکاح) ان یؤکل بلااذن ۲؎ وفی وکالۃ غمزالعیون عن الولوالجیہ لووکل رجلافی نکاح فوکل الوکیل غیرہ ذکرہ محمد فی الاصل انہ لایجوز فانہ قال اذا فعل الثانی بحضرۃ الاول لم یجز وھوا لصحیح ۳؎اھ ملخصاً۔
نکاح کے وکیل کو جائز نہیں کہ وہ بغیر اجازت اس میں کسی دوسرے کو وکیل بنائے، یہ بحر کے حوالے سے دُر میں مذکور ہے اھ غمز العیون کی وکالت کی بحث میں ولوالجیہ سے منقول ہے کہ اگرایک نے کسی کونکاح کا وکیل بنایا تو وکیل نے کسی دوسرے کو از خود وکیل بنالیا توا مام محمد رحمہ اللہ تعالٰی نے اصل یعنی مبسوط میں ذکر کیا کہ یہ جائز نہیں، انھوں نے فرمایا کہ پہلے کی موجودگی میں دوسرے وکیل نے کارروائی کی توجائز نہیں ہوگی، یہی صحیح ہے اھ ملخصا (ت)
(۲؎ درمختار باب الولی مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۲)
(۳ غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر کتاب الوکالۃ ادارۃ القرآن کراچی ۲/۱۲۔ ۴۱۱)
تویہ نکاح نکاحِ فضولی ہوا اور اجازت زنِ بالغہ پر موقوف رہا، اگر خبر پر نفرت وکراہت ظاہر کی، جیساکہ اکثر دخترانِ دوشیزہ سے ایساہی واقع ہوتا ہے، جب تو ڈھول سے کھال بھی گئی، اب وہ نکاح یکسر باطل ہوگیاکہ آئندہ اجازت سے بھی جائز نہیں ہوسکتا۔