Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
25 - 1581
جواب سوال دوم: نکاح عقد ہے اور منگنی وعد عقد ووعد کاتباین بدیہی، تو منگنی کو نکاح ٹھہرانا بداہۃً باطل اور اجماعاً غلط، ابھی کلمات علماء سے عقد و وعد کا تفرقہ گزرا، اس کے نصوص کے نقل بدیہی پراستدلال ہے جئتک خاطبا سے انعقاد نکاح نہ اس وجہ سے ہے کہ خطبہ عقد ہو بلکہ الفاظ مذکورہ خود الفاظِ عقدہی قرار پائے ہیں  یعنی جبکہ نیت وقرینہ متحقق ہو
لما علمت ان ماعدا التزویج والنکاح کنایۃ تفتقر الیھما
(جیسا کہ آپ نے معلوم کرلیا کہ تزویج اورنکاح کے الفاظ کے علاوہ باقی کنایہ ہیں جو کہ نیت اور قرینہ کے محتاج ہیں۔ ت) ولہذا علماء انھیں الفاظ ایجاب کے ساتھ شمارفر ماتے ہیں،
وجیز کردری میں ہے:
کتاب النکاح تسعۃ عشر فصلا الاول فی الاٰلۃ کل لفظ یفید ملک الرقبۃ انعقد بہ کقولہ بعت و تزوجت و انکحت و ملکتک  ووھبت وتصدقت وجئتک خاطبا وجعلت نفسی لک ۳؎۔
کتاب النکاح میں انیس بحثیں ہیں، پہلی آلہ میں وہ ہر لفظ جو رقبہ کی ملکیت کے لیے مفید ہوا س سے نکاح منعقد ہوگا، جیسے میں نے فروخت کیا، نکاح کردیا، تجھے مالک بنایا، ہبہ کیا۔ صدقہ کیا، میں رشتہ لینے آیا ہوں، میں نے اپنا نفس تجھے دیا۔ (ت)
 (۳؎ فتاوی بزازیہ علٰی ہامش فتاوٰی ہندیہ     کتاب النکاح        نورانی کتب خا نہ پشاور        ۴/۱۰۸)
خلاصہ و خزانۃ المفتین میں ہے:
ینعقد بقول تزوجت وانکحت وملکتک و وھبت وتصدقت وجئتک خاطبا وجعلت نفسی لک وبعت ۱؎۔
نکاح منعقد ہوجاتا ہے ان الفاظ سے: میں نے نکاح کردیا، تجھے مالک بنادیا، ہبہ کیا، صدقہ کیا، میں رشتہ لینے آیاہوں، میں نے اپنا نفس تجھے دیا، فروخت کیا۔ (ت)
 (۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب النکاح  مکتبہ حبیبیہ کانسی روڈ کوئٹہ ۲/۲)
اقول وباللہ التوفیق فقہ اس میں یہ ہے کہ جئتک خاطبا (میں رشتہ لینے آیا ہوں۔ ت) کسی خطبہ متقدمہ سے اخبار نہیں بلکہ انشائے طلب وتزویج ہے اور انشائے طلب عین حاصل امر، تو جئتک خاطبا بمعنٰی زوجنی ہے۔ ولہذابزازیہ میں ان دونوں کا ایک حکم رکھا۔
حیث قال جاء رجل فقال زوجنی بنتک ا وجئتک خاطبا ا وجئتک تزوجنی بنتک فقال زوجتک فالنکاح واقع لازم ولیس للخاطب ان لایقبل ۲؎۔
جیسا کہ انھوں نے ذکر کیا کہ ایک آدمی نے آکر کہا کہ تواپنی بیٹی مجھے نکاح کردے یا میں آپ کے پاس رشتہ لینے آیا ہوں، یا، میں اس لیے آیاہوں کہ آپ مجھے اپنی بیٹی بیاہ دیں، تو باپ نے کہا میں نے بیاہ دی، تو ان الفاظ سے لازمی نکاح ہوجائے گا، اب رشتہ طلب کرنے والے کوقبول  نہ کر نے کی کوئی گنجائش نہیں۔ (ت)
 (۲؎ فتاوٰی بزازیہ علٰی ہامش فتاوٰی ہندیہ    کتاب النکاح    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/۱۱۱)
ا ور "زوجنی" الفاظ مفیدہ عقد سے ہے
توکیلا ا و ایجابا علٰی اختلاف قولین والاولی عہ اظھر عندی کما بیناہ فیما علقناہ علی ہامش ردالمحتار تو اسی  طرح جئتک خاطبا۔
وکیل بناتے ہوئے یا ایجاب کے طور پر دونوں اقوال کے اختلاف پر، اور پہلا یعنی وکیل بناتے ہوئے میرے نزدیک اظہر ہے، جیسا کہ ہم نے اس کو ردالمحتار کے حاشیہ پربیان کیا ہے تو اسی طرح، میں تیرے پاس رشتہ لینے آیا ہوں۔ (ت)
عہ  انظرہ مع ما اذکرہ ۲ ۱منہ (م)
بالجملہ لفظ خطبہ باضافت بیانیہ بعد تحقق نیت وقیام قرینہ الفاظ عقد سے ہے نہ الفاظ خطبہ باضافت لامیہ یعنی وہ الفاظ کہ شرعاً خطبہ قرار پائیں نہ کہ وہ الفاظ کہ صراحۃً اخبارہوں اور معنٰی انشاء سے منزلوں دور کما لایخفی علی ذی شعور (جیسا کہ اہل شعور پر مخفی نہیں۔ (ت)
رہا نکاح میں عدم جریان مساومت اقول وباللہ التوفیق اس کا منشاء خود یہی ہے کہ عادۃ نکاح سے پہلے منگنی وغیرہ مقدمات ہوچکتے ہیں تو ان کے بعد الفاظ مجلس عقدکو مساومت پر حمل نہیں کرسکتے بخلاف بیع کہ نہ وہاں ایسا تقدم، نہ اس کے لیے کوئی مجلس قرینہ قصدعقد،
فتح القدیر پھر بحرالرائق پھر ردالمحتار میں ہے :
النکاح لایدخل المساومۃ لانہ لایکون الابعد مقدمات ومراجعات فکان للتحقیق بخلاف البیع ۱؎۔
نکاح میں بھاؤ لگانا نہیں ہوتا کیونکہ نکاح کئی مقدمات اور آمدورفت کے بعد ہواکرتا ہے تو کنایہ الفاظ اس موقعہ پر نکاح کے تحقق کے لیے ہوتے ہیں بخلاف بیع کے۔ (ت)
 ( ۱؎ ردالمحتار         کتاب النکاح    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۲۶۴)
تحقیق مقام یہ ہے کہ عبارت مذکورہ سوال کے معنٰی اگر یہ ٹھہریں کہ امثال الفاظ بعد قیام قرینہ قصد مثل جلسہ نکاح بعد خطبہ وقرأت خطبہ وغیرہما بحکم دلالت ظاہرہ جانب عقد متصرف ہوں گے نہ کہ سوئے مساومت کہ یہاں کوئی محل مساومت نہیں، تو بیشک صحیح ہے۔ اور یہی معنٰی مقصودومراد۔
الاتری ان الکلام  فی الکنایۃ ولاانعقاد بھا الاعند قیام القرینۃ کما علمت۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ گفتگو کنایہ کے بارے میں ہے ا وران میں قرینہ کے بغیر نکاح منعقد نہ ہوگا جیسا کہ آپ معلوم کر چکے ہیں۔ (ت)
مگر اس بنا پر ہر منگنی یا الفاظ مذکورہ عمر و و عبداللہ کو نکاح نہیں ٹھہراسکتے کما بینا (جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں۔ ت) ا وراگر یہ معنٰی لیں کہ جو کچھ الفاظ خاطب ومخطوب الیہ میں جاری ہوں خواہی نخواہی نکاح ٹھہریں گے اگرچہ معنٰی مساومت وطلب وعد کو محتمل اور قرینہ معینہ قصد عقد سے عاری تومحض باطل، نہ ہر گز یہ مراد علماء، علماء صاف تصریحات فرماتے ہیں کہ احتمال مساومت واستیعاد یعنی صورت واقعہ میں معنٰی استیام وطلب وعد کا احتمال ہونا مانع انعقاد نکاح ہے۔
خزانۃ المفتین برمز ظ فتاوٰی امام ظہیر الدین مرغینانی سے ہے:
لو قال بالفارسیۃ دختر خویش مرادادی فقال دادم لاینعقد النکاح لان ھذا استخبار واستیعاد فلایصیر وکیلا الا اذا ارادبہ التحقیق دون الاستیام ۲؎۔
اگر ایک نے فارسی میں کہا کہ تونے اپنی بیٹی مجھے دی، تو دوسرے نے جواب میں ''دادم'' کہا تو اس سے بغیر ارادہ نکاح متحقق نہ ہوگا، کیونکہ یہ الفاظ حقیقتاً خبر معلوم کرنے اور وعدہ لینے کے لیے ہوتے ہیں اس لیے دوسرا وکیل نہ بنے گا۔ (ت)
 (۲؎ خزانۃ المفتین    کتاب النکاح     قلمی نسخہ (غیر مطبوعہ)        ۱/۷۶)
Flag Counter