مسئلہ ۱۳: از مدراس محلہ چک منڈی مسیت مکہ مرسلہ مولوی عبدالرزاق صاحب امام مسجد غرہ محرم الحرام ۱۳۱۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مبین ومفتیان شرع متین کثر ھم اللہ تعالٰی، ایک شخص عمرو نے اپنی برادری کو دعوت منگنی کی دے دی اور وہ اسباب جوفی زماننا دولھا کی جانب سے دئے جاتے ہیں، مثلاً ساڑھی اور انگیا اور زیور وغیرہ حاضر کیا، اہل برادری نے ولی سے باز پرس کی کہ ہم طلبی کی کیا وجہ تھی، تو اس نے جواب دیا کہ عبداللہ صاحب نے اپنی لڑکی مسمی بہ ہندہ میرے لڑکے مسمی بہ زید کو دے دی ہے لیکن چونکہ مجھے یہ مقصود تھا کہ یہ بات علی رؤس الاشہاد متحقق ہوجائے لہذا میں نے آپ کو تکلیف دی ہے علٰی ھذا القیاس ولی صغیرہ سے دریافت کیا گیا کیا تم نے اپنی لڑکی مسمی بہ ہندہ زید کو دی ہےــ؟ اس نے کہا ہاں میں نے دی ہے اور آپ کی تکلیف دہی کی یہی وجہ ہے، تو ایسی صورت میں نکاح صغیروصغیرہ منعقد ہوا یا نہیں؟
ا ورجو درمختار کتا ب النکاح میں مذکور ہے:
وکذا انا متزوجک وجئتک خاطبا لعدم جریان المساومۃ فی النکاح ۲؎۔
ا وریوں ہی کہ تجھ سے نکاح کرتاہوں اور میں تجھے نکاح کا پیغام دینے آیا ہوں کیونکہ نکاح بھاؤ چکانا نہیں ہوتا۔ (ت)
(۲؎ درمختار کتا ب النکاح مجتبائی دہلی ۱/۸۶۔ ۱۸۵)
آیا اس عبارت منقولہ سے منگنی نکاح ہوسکتی ہے؟ اگر ہوسکتی ہے تو فہو المراد والااس عبارت کا کیا مطلب؟
الجواب : ارشادات علمائے کرام میں نظر سے واضح کہ کلمات مذکورہ فی السوال انعقاد نکاح کے لیے اصلا کافی نہیں، عمر و عبداللہ دونوں کے کلام صراحۃً اخبار ہیں کہ ہماری زبان میں صیغہ ماضی مقرون بلفظ ہے خاص امر واقع شدہ سے خبر دینے کے لیے ہے نہ امر غیر واقع کے انشاء وایجاد کو، پھر کلام عمر وسخن ا بتدائی نہیں، اہل برادری کے اس باز پرس کا جواب ہے کہ ہماری طلبی کی کیا وجہ تھی، پُر ظاہر کہ اس سوال کا جواب اخبار ہوگا۔ نہ کہ انشائے ایجاب یوں ہی کلام عبداللہ کا سیاق بھی کہ ہاں دی ہے، اورآپ کی تکلیف دہی کی یہی وجہ ہے صاف صاف اسی معنٰی اخبار وبیان وجہ جمع کی تاکید کرر ہا ہے کما لایخفی علی العارف باسالیب الکلام (جیسا کہ کلام کے اسلوب کو سمجھنے والے پرمخفی نہیں۔ت) اور شک نہیں کہ وقوع نکاح سے خبردینا انشائے عقد سے بالکل مبائن وغیرمؤثرہے، اگربنظرظاہر کہئے تو حسب تصحیحات جمہورائمہ واختیارات خبر دینا انشائے مذہب مذیل بآکد الفاظ اور نظر وثیق لیجئے تو امثال مقام میں بالاجماع بلانزاع،
کما حققنا ذٰلک بتوفیق اﷲ تعالٰی فی رسالتنا ''عباب الانوار ان لانکاح بمجرد الاقرار'' من فتاوٰنا ولنقتصر ھٰھنا علی الاشارۃ الٰی بعض عبارات الافتاء تنزلاً الی الطریقۃ الاولٰی۔
جیسا کہ ہم نے اس کو اللہ تعالٰی کی توفیق سے اپنے رسالہ ''عباب الانوار ان لانکاح بمجرد الاقرار'' میں محقق کیا ہے اور یہاں ہم صرف فتوٰی کی بعض عبارات کی طرف اشارہ کرینگے، پہلے طریقہ پر۔ (ت)
مرد وعورت نے گواہوں کی موجودگی میں اقرار کیا تو اس سے مختار قول کے مطابق نکاح منعقد نہ ہوگا، اور بعض نے کہا کہ ہوجائے گا۔ لیکن پہلا قول صحیح اور اسی پرفتوٰی ہے۔ (ت)
(۱؎ جواہرالاخلاطی کتاب النکاح قلمی نسخہ ص۴۸)
اصلاح وایضاح میں ہے:
النکاح اثبات وھذا اظھار والاظھار غیر الاثبات ذکرہ فی التخییر وقال فی مختارات النوازل ھوالمختار ۱؎۔
اقرار اظہار کا نام ہے جبکہ نکاح اثبات کا نام ہےا ور ا ظہار و اثبات دو مختلف چیزیں ہیں، اس کو تخییر میں ذکر کیا ہے، اور مختارات النوازل میں کہا کہ یہی مختار ہے۔ (ت)
(۱؎ اصلاح وایضاح)
ہندیہ میں ہے :
الصحیح انہ لایکون نکاحا کذا فی الظہیریہ ۲؎
(صحیح یہی ہے کہ نکاح نہ ہوگا جیسا کہ ظہیریہ میں ہے، ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب النکاح نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۷۲)
وجیز کردری میں ہے:
لاینعقد فی المختار الصحیح ۳؎
(مختار اور صحیح قول کے مطابق نکاح منعقد نہ ہوگا۔ (ت)
(۳؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش ہندیہ کتاب النکاح نورانی کتب خانہ پشاور ۴/۱۰۹)
علاوہ بریں دینا، عطا، ہبہ، یہ الفاظ خودہی نکاح میں صریح نہیں کنایہ ہیں اور عقد و وعد دونوں کو محتمل، منگنی ہونے پر بھی عرف شائع میں کہا جاتا ہے کہ فلاں نے اپنی بیٹی فلاں کو دی، ولہذا علماء تصریح فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ بہ نیت خطبہ کہے جائیں تو خطبہ ہی ٹھہرے گا مجلس وعد میں صادر ہوں تو وعدہ ہی قرار پائے گا۔
درمختار میں ہے:
لفظ ترویج ونکاح صریح وماعداھما کنایۃ وھو کل لفظ وضع لتملیک عین کاملۃ فی الحال کھبۃ وتملیک وصدقۃ وعطیۃ بشرط نیۃ اوقرینۃ وفھم الشھود المقصود ۴؎ اھ ملتقطا۔
نکاح میں لفظ "ترویج" اور" نکاح" صریح ہیں۔ ان کے علاوہ باقی سب کنایہ ہیں، اور کنایہ کے لئے وہ تمام الفاظ ہیں جو بروقت کسی کامل چیز کی تملیک کے لیے ہوں، مثلا ہبہ، صدقہ، عطیہ اور تملیک کے الفاظ جب نکاح کی نیت سے استعمال ہوں یا اس پر قرینہ موجود ہو اور اس سے گواہ بھی مقصد کو سمجھ سکیں اھ ملتقطا (ت)
(۴؎ درمختار کتاب النکاح مجتبائی دہلی ۱/۱۸۶)
خانیہ میں ہے:
اذا قال لاب البنت وھبت ابنتک منی فقال وھبت فقال قبلت قالوا ان کان ھذا القول من الخاطب علی وجہ الخطبۃ ومن الاب ایضا علی وجہ الاجابۃ لاعلی وجہ العقدلم یکن نکاحا ۱؎اھ ملخصا۔
جب ایک لڑکے نے لڑکی کے باپ کو کہا کہ آپ نے اپنی لڑکی مجھے ہبہ کی تو باپ نے جواب میں کہا کہ میں نے ہبہ کی، اس کے بعد پہلے نے کہا میں نے قبول کی، فقہاء کرام نے فرمایا اگر منگنی کرنے والے اور باپ نے مذکورہ الفاظ منگنی اوراس کے جوا ب کے طور پر استعمال کئے اور عقد نکاح مقصود نہ ہو تو نکاح نہ ہوگا اھ ملخصا (ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب النکاح الفصل الاول نولکشور لکھنؤ ۱/۱۵۰)
شرح طحاوی پھر مجتبٰی پھر مجموعہ علامہ انقروی وواقعات علامہ قدری افندی وغیرہا میں ہے:
قال لہ ھل اعطیتنیھا فقال اعطیت فان کان المجلس للوعد فوعدوان کان لعقد النکاح فنکاح ۲؎۔
کسی نے لڑکی کے باپ کو کہا تو نے مجھے لڑکی دی، توباپ نے کہادی، تو مجلس نکاح میں نکاح اور منگنی کی مجلس ہو تو منگنی ہوگی۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی انقرویہ کتاب النکاح دارالاشاعۃ العربیۃ قندھار افغانستان ۱/۳۳)
سوال سے ظاہر کہ یہ مجلس منگنی ہی کی تھی ا ورکوئی قرینہ واضحہ ایسا نہ پایا گیا جو ان الفاظ کو انشائے عقد کے لیے متعین کرے تو یوں بھی منگنی ہی ٹھہرے گی نہ نکاح، واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔