امام فقیہ النفس فخرالدین خانیہ میں فرماتے ہیں: رجل اٰجردارہ کل شہر بدرھم وسلم ثم باعھا من غیرہ وکان المشتری یاخذ اجرۃ الدارمن ھذا المستاجر ومضی علی ذلک زمان وکان المشتری وعدالبائع انہ اذارد علیہ الثمن یرد دارہ ویحتسب ماقبض من المستاجر من ثمن الدار فجاء البائع بالدراھم و اراد ان یجعل الاجر محسوبا من الثمن قالوا لیس للبائع ان یجعل ذلک من الثمن وماقال المشتری للبائع کان وعداً فلایلزم الوفاء بذلک حکما فان نجز وعدہ کان حسنا والافلا شئی علیہ۱؎ اھ ملخصا۔
ایک شخص نے اپنا مکان ہر ماہ فی درہم کرایہ پر دیا پھر اس نے وہ مکان اس کے غیر کو فروخت کردیا اور اب کرایہ دار سے یہ مشتری کرایہ ایک زمانہ تک وصول کرتا رہا جبکہ مشتری نے بائع سے یہ وعدہ کررکھا تھاکہ جب آپ مکان کی قیمت واپس کردیں گے تو میں مکان واپس آپ کو دے دوں گا اور قیمت میں سے وصول شدہ کرایہ آپ کو منہا کردوں گا، اب ایک مدت بعد بائع نے آکر مشتری کو مکان کی قیمت واپس کردی اور اس نے کرایہ کی رقم میں منہا کرنا چاہی تو اس پر فقہا کرام نے فرمایا کہ بائع کو کرایہ کی رقم قیمت میں شمار کرکے منہا کرنے کا اختیار نہیں، اور مشتری نے جو یہ وعدہ کیاتھا وہ وعدہ تھا جس کی وفا مشتری پرلازم نہیں ہے، ہاں اگر مشتری اپنے طور پر وعدہ کو پورا کردے تو بہترہے ورنہ اس پر حکماً لازم نہیں ہے اھ ملخصا (ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الاجارات فصل فی الاجارۃ الطویلۃ نولکشور لکھنو ۳/۴۲۳)
ہندیہ میں ظہیریہ سے اسی صورت خانیہ میں ہے:
ان انجز وعدہ کان حسنا والا فلا یلزمہ الوفاء بالمواعید ۲؎۔
اگر وہ وعدہ پورا کردے تو بہتر ہے ورنہ وعدوں کی وفا لازم نہیں ہے۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتا ب الاجارۃ الباب السابع نورانی کتب خانہ پشاور ۴/۴۲۷)
خیریہ میں ہے:
ایک شخص کو قاضی نے اس کی اہلیت کی بناء پر وظیفہ مقرر کرکے ایک کام سپر د کیا تو اس نے ایک معاوضہ کے بدلے وہ کام آگے ایک دوسرے کے سپرد کردیا اورقاضی نے بھی اس کو منظور کرلیا جبکہ دوسرے شخص نے یہ عہد کیاتھا کہ اگر پہلے مقررہ شخص مجھ سے وصول کردہ کے برابر مجھے واپس کردے تو میں اس کے حق میں اس کام سے دستبردار ہوجاؤں گا۔ اس سوال کے جواب میں کہ اس دوسرے شخص پر اپنے عہدکی پابندی ضروری شرعاً ہے تو جواب میں فرمایا کہ عہد کی وفا لازم نہیں ہے کیونکہ عہد کی وفا چند شرطوں کے بغیر لازم نہیں جویہاں مفقود ہیں، چنانچہ قاضی عہد کرنے والے شخص پر ایفائے عہد کے لزوم کا فیصلہ نہیں کرے گا۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریہ کتاب الوقف دارالمعرفۃ بیروت ۱/۵۸۔ ۱۵۷)
میرے آقا والد صاحب نے فرمایا کہ شرعاً وعدہ کی وفالازم نہیں ہے۔ (ت)
(۲؎ قرۃ العیون کتاب العاریہ دارالکتب العربیہ الکبرٰی مصر ۲/۳۰۰)
اسی طرح اور کتب میں ہے
وتمام تحقیق المسألۃ حسب ماارانا اﷲ تعالٰی فی تعلیقنا المذکور
(اور مسئلہ کی پوری تحقیق بتوفیق الہٰی ہمارے مذکورہ حاشیہ میں ہے۔ ت) بہر حال یہاں ایجاب قضاء کی گنجائش نہیں تو نہ امینہ کوا س پر مطالبہ جبری پہنچتا ہے نہ حاکم جبراً مکان دلاسکتاہے،
خیریہ میں ہے:
ھذا اذا ذکر علی سبیل انہ من المھر وان ذکر علی سبیل العدۃ فھو غیر لازم بالکلیۃ الاان یتبرع الزوج ۳؎۔
یہ تب ہے جب خاوند نے اس کو مہر میں سے قرار دیا ہو، اور اگر وعدہ کے طور پر ذکرہو تو بالکل لازم نہیں ہاں اگر بطور عطیہ دے دے تو درست ہے۔ (ت)
(۳؎ فتاوٰی خیریہ کتاب النکاح باب المہر دارالمعرفۃ بیروت ۱/۳۰)
ہاں اگر معلوم ہو کہ وہ بھی علٰی جہۃ المہرمشروط اور عاقدین کو عقد میں اس کی طرف لحاظ تھا تو حکم وہی ہے جو اوپرگزرا کہ اگر مکان دے گا تو باقی مہر مسمی بھی بدستور لازم ورنہ مہر مثل کہ اس مقدار مسمی سے کم نہ ہو کما اسلفنا عن الامام محمد رحمہ اﷲ تعالٰی (جیسا کہ امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی سے ہم نےپہلے نقل کردیا ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۱: ۲۳ ربیع الآخر ۱۳۱۱ ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسماۃ ہندہ رضا مند زید کوتھی اور جابر نے جبر کیا بلارضا مندی ہندہ اور بغیر رضامندی ولیوں کے عمرو سے فرضی مہر مقرر کرکے ایجاب وقبول کرایا اور وقت ایجاب کے مسماۃ آہ وزاری اور فریاد واویلا انکار کرتی تھی، مسماۃ کے اس انکار آہ وزاری شور واویلا کو اذن قراردے کر دولھا سے ایجاب قبول کراکے نکاح مشہور کر کے شیرینی تقسیم کردی، ایسا نکاح نزدیک علمائے حقانی جائز ہے یا ناجائزـ؟ اگر ناجائز ہو یا جائز ہو تو ادلّہ مع آیات اور حدیث کے تحریر فرمائیے، بینوا توجروا۔
الجواب : صورت مستفسرہ میں اگر ہندہ نا بالغہ تھی جب تو اس کا انکار اقرار کوئی چیز نہ تھا اس کے ولی سے اجازت لینی تھی اور اگر بالغہ تھی تو اگرچہ اذن لیتے وقت اس کا انکار بلکہ صحیح مذہب پر صرف آواز اور فریاد سے رونا ہی ردِ استیذان کے لیے کافی ہو مگر اس کا حامل اس قدر نکاح کرنے والے کی وکالت صحیح نہ ہوئی، بہرحال یہ نکاح فضولی ہوا کہ درصورت بلوغ ہندہ خود اس کی وجہ اس کے ولی کی اجاز ت پر موقوف رہا، اگر بعد نکاح جب خبر نکاح پہنچے رد کیا جائے گا رد ہوجائے گا ا وراجازت دی جائیگی تو جائز ہوجائے گا۔
فی ردالمحتار عن الذخیرۃ بعضھم قالو ان کان مع الصیاح والصوت فھو رد والافھو رضی وھو الاوجہ وعلیہ الفتوی ا؎ اھ تمامہ فیہ فی الدرالمختار لواستاذ نھا فی معین فردت ثم زوجہا منہ فسکتت صح فی الاصح ۲؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
ردالمحتار میں ذخیرہ سے منقول ہے کہ بعض نے کہا ہے کہ اگر لڑکی کا رونا چیخ وپکار کے طور پرہو تو یہ نکاح سے انکار ہوگا ورنہ وہ رضا ہے اور یہی درست ہے اور اسی پر فتوٰی ہے اھ، اور پوری بحث ردالمحتار میں ہے، اور درمختار میں ہے کہ اگر لڑکی سے معین شخص کے ساتھ نکاح کی اجازت طلب کی تو لڑکی نے انکار کردیا۔ اس کے بعد پھر اس کا نکاح اسی شخص سے کیاا ورلڑکی خاموش رہی تو نکاح صحیح ہوگا اصح قول میں واللہ تعالٰی اعلم (ت)
(۱؎ ردالمحتار باب الولی داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۹۹)
(۲؎ درمختار باب الولی مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۲)
مسئلہ ۱۲: از پیلی بھیت محلہ بشیر خاں متصل مکان مدینہ شاہ مرسلہ نظام الدین ۲۹ رمضان ۱۳۱۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ نکاح قبولیت سے جائز ہے یا کوئی اور بات ؟ اور قاضی کا ہو نا ضروری ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب : نکاح کے لیے فقط مرد وعورت کا ایجاب وقبول چاہئے اور دو مرد یا ایک مرد دوعورتوں کا اسی جلسہ میں ایجا ب وقبول کو سننا اور سمجھنا کہ یہ نکاح ہو رہا ہے،بس اسی قدر درکار ہے، اس سے زیادہ قاضی وغیرہ کی حاجت نہیں،
فی الدرالمختار ینعقد بایجاب وقبول وشرط حضور شاھدین حرین ا وحر وحرتین مکلفین سامعین قولھمامعاً علی الاصح فاھمین انہ نکاح علی المذھب بحر۱؎ اھ ملخصا، واﷲ تعالٰی اعلم۔
درمختار میں ہے کہ دومردوں یا ایک مرد دو عورتوں کی موجودگی میں جو کہ عاقل بالغ اور حرہوں اور انھوں نے لڑکے لڑکی کاایجاب وقبول ایک مجلس میں سنا ہو تو نکاح ہوجائیگا بشرطیکہ ان گواہوں نے اس کو نکاح سمجھاہو، مذہب یہی ہے، بحر، اھ ملخصا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)