ثالثاً: بفرض باطل اسے شرط فاسد بھی مانیے تاہم پر ظاہر کہ وقت عقد اس کا کوئی ذکر نہ ہوا وہ صرف ایک گفتگو پیش ا ز عقد تھی جس کا طے ہونا باعث علی التزوج ہو ا نہ کہ ماخوذ فی التزویج اورشرط مذکور قبل العقد مبادلات مالیہ میں بھی ملتحقق بالعقد نہیں ہوتی مالم یتفقا علی المواضعۃ علیہ حین العقد (میاں بیوی جب تک کمی پر متفقہ طورپہ راضی نہ ہوں گے اس وقت تک خاوند پر نکاح کے وقت ذکر شدہ مہر لازم رہے گا۔ ت) نہ کہ امثال نکاح میں،
جامع الفصولین میں ہے:لو شرطا شرطا فاسداً قبل العقد ثم عقدا لم یبطل العقد ۲؎۔
اگر نکاح سے پہلے کوئی فاسد شرط ذکر کی ہو تو اس کے بعد کا نکاح باطل نہ ہوگا۔ (ت)
(۲؎ جامع الفصولین الفصل الثامن عشر فی بیع الوفاء الخ اسلامی کتب خانہ کراچی ۱/۲۳۷)
رابعاً :التحاق بھی سہی یعنی مان لیجئے کہ وہ شرط فی النکاح ہی تھی اورفاسد بھی تھی اورنفس عقد میں ملحوظ اورماخوذ بھی رہی تو نکاح ان عقود میں نہیں کہ شروط فاسدہ سے فاسد ہوسکے بلکہ وہ شرط ہی خود فاسد ہوتی اور نکاح صحیح وبے خلل رہتا ہے اورجہالت بدل کا علاج مہر مثل ہے۔
خلاصہ میں ہے:
فی شرح الطحاوی العقود ثلثۃ عقد یتعلق بالجائز من الشرط وھوذ کر البدل والفاسد من الشرط یفسدہ کالبیع والاجارۃ والقسمۃ والصلح عن مال وعقد لایتعلق بالجائز من الشرط والفاسد من الشرط لایبطلہ کالنکاح والخلع والصلح عن دم العمد والعتق عن مال فھذہ العقود تصح بغیر ذکرہ البدل وتجوز بالبدل المجھول الخ وفی زیادات القاضی ا لامام فخر الدین العقود التی یتعلق تمامھا بالقبول اقسام ثلثۃ قسم یبطلہ الشرط الفاسد وجھالۃ البدل وھی مبادلۃ المال کالبیع والاجارۃ وقسم لایبطلہ الشرط الفاسد ولاجھالۃ البدل وھو معاوضۃ المال بمالیس بما ل کالنکاح والخلع ۱؎ اھ ملخصاً۔
شرح الطحاوی میں ہے کہ عقد تین قسم پر ہیں، ایک وہ کہ جس میں جائز شرط موثر ہو مثلاً بدل کا ذکر، اور فاسد شرط بھی موثر ہویعنی اس کو فاسد کردے، جیسے عقد اجارہ بیع، تقسیم، مال پرصلح، اور دوسرا وہ کہ اس میں کوئی شرط خواہ جائز ہو یا فاسد موثر نہ ہو، جیسے نکاح، خلع،قتل عمد پر صلح اور عتق علی المال، یہ عقو دبدل کو متعین کئے بغیر بھی صحیح ہوتے ہیں اوربدل مجہول پر بھی جائز ہوتے ہیں الخ، قاضی امام فخر الدین کی زیادات میں ہے کہ وہ عقود جو صرف قبول کرلینے سے مکمل ہوجاتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں ایک وہ کہ جن کو فاسد شرط اور بدل کی جہالت فاسد کردیتی ہے اوریہ مالی عقود ہیں جیسے بیع اور اجارہ وغیرہ، دوسری وہ جن کو فاسد شرط اور جہالت بد ل فاسدنہیں کرتی، جیسے وہ عقود جن میں غیر مال کے بدلے مال ہو، مثلا نکاح اور خلع اھ ملخصا (ت)
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی الفصل الخامس فی البیع اذاکان فیہ شرط مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۳/۵۲ و ۵۱)
بیان حکم نکاح میں یہی وجہ کافی ووافی تھی مگر اسئلہ سائل کا استیفائے جواب ذکر وجوہ سابقہ پر حامل ہوا، وباللہ التوفیق، بالجملہ صورت مستفسرہ میں نکاح کو فاسد خیال کرنا سخت جہالت بے معنی ہے، رہا مکان تقریر سوال سے ظاہر ہے کہ وہ بطور مہر نہ مانا گیا۔ نہ عاقدین نے اسے بدل بضع قرار دینے پر لحاظ کیا بلکہ نورالدین کی طرف سے بدرخواست سبحان خاں ایک وعدہ تھا جس پر رضا مندی ہوکر تزویج ایک جدامہر مسمی پر واقع ہوئی اس صور ت میں وہ مکان دینا بیشک مکارم اخلاق سے ہے اور ایفائے وعدہ شرعا محبوب اور خلف وعدہ ناپسند ومکروہ۔ تو نورالدین کو بھی چاہئے کہ بشرط دسترس (جس کی تصریح وہ اصل وعدہ کرچکا ہے) امینہ کو ایک مکان خرید دے، اقرار اگرچہ تعلیق بالشرط کی صلاحیت نہیں رکھتا، سیدنا امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ مبسوط کی کتاب الاقرار میں فرماتے ہیں:
وہ امور جو فاسد شرط سے باطل ہوجاتے ہیں اوران کی کسی شرط سے تعلیق بھی صحیح نہیں ہوتی، ایسے امور کی تعداد تیرہ ہے، ان میں بیع، تقسیم، اجارہ،اور اقراربھی ہے۔ (ت)
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی الفصل الخامس فی البیع مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۳/۵۵، ۵۴)
مگر پر ظاہر کہ یہ اقرار مصطلح فقہی نہیں،
فانہ اخبار من حق کائن علیہ ھذا ھوالتحقیق عندی او ھذا اخبار من وجہ وانشاء منجز من وجہ کما لھج بہ کثیرون۔
کیونکہ وہ پہلے سے موجود حق سے خبر دینا ہے، میرے نزدیک یہی تحقیق بات ہے، یامن وجہ خبر اور من وجہ پورا کرنے کا انشاء ہے جیسا کہ بہت سے علماء نے بیان کیا ہے۔ (ت)
بلکہ وعدہ ہے اور وعدے کی تعلیق بالشرط جائز بلکہ بعض علماء فرماتے ہیں وعدہ تعلیق پاکر واجب ہوجاتا ہے،
قنیہ میں ہے ایک شخص نے وعدہ کیا کہ میں آؤں گا، تو وہ نہ آیا، گنہگار نہ ہوگا، اور وعدہ صرف وہی لازم ہوتا ہے جوکسی شرط سے معلق ہو، جیسا کہ بزازیہ کی کفالت کی بحث میں ہے، اور بیع الوفاء بھی وعدہ کی یہی قسم ہے جیسا کہ امام زیلعی نے ذکر فرمایا۔ (ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر کتاب الحظروالاباحۃ ادارۃا لقرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۲/۱۱۰)
وجیز کردری میں ہے:
المواعید باکتساء صورالتعلیق تکون لازمۃ ۳؎۔
جن وعدوں میں تعلیق ذکر کی جائے وہ لازم ہوتے ہیں۔ (ت)
تو ظاہر اطلاق عبارات مذکورہ سے صورت دائرہ میں بھی نورالدین پر جس نے وعدہ معلقہ بتقدیم نکاح کیا تھا اور شرط تقدیم متحقق ہوئی بحال دسترس وجوب وفا مستفاد ہوسکتا ہے مگر بعد احاطہ کلمات ائمہ نظر غائر استظہار کرتی ہے کہ یہ وجوب ہوبھی تو دیانۃ ہے قضاءً وفائے وعدہ پر جبر نہیں۔
ۤ الا فی الکفالۃ وفی بیع الوفاء علی قول وقدذکرنا الوجہ فیھما فیما علقنا علی ردالمحتار۔
صرف کفالت اور بیع الوفاء میں ایک قول کے مطابق وفالازم ہے جس کی وجہ ہم نے ان دونوں مقام پر ردالمحتار کے حاشیہ میں ذکرکردی ہے۔ (ت)