Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
21 - 1581
نہ کہ خاص دینی شرعی کام میں اس سے مدد لینا،
قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انا لانستعین بمشرک ۱؎۔ اخرجہ احمد وابوداؤد و ابن ماجۃ عن ام المومنین الصدیقۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا بسند صحیح۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ہم مشرک سے مدد لینا ناپسند کرتے ہیں، اس کو صحیح سند کے ساتھ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے احمد، ابوداؤد اورا بن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ (ت)
(۱؎ سنن ابی داؤد    کتا ب الجہاد            آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/۱۹)
مگر پڑھائے گا تو نکاح صحیح ہوجائے گا کہ اگر وہ صرف الفاظ ایجاب وقبول کہلوانے والا ہے، کہنے والے خود عاقدین یا ان کے اولیاء یا وکلاء جب توظاہر کہ اسے عقد سے کوئی علاقہ نہیں، تو اس کے کفر واسلام یا بلوغ یا عدمِ بلوغ سے عقد پر کیا اثر ہوسکتا ہے اور اگر وکیل بھی ہوکہ خود ہی ایجاب یا قبول کرے گا تاہم  صحتِ وکالت کے لیے اسلام خواہ بلوغ شرط نہیں، عاقل ہونا درکار، وہ حاصل ہے،
ہندیہ میں ہے:
تجوز وکالۃ المرتدبان وکل مسلم مرتدا وکذا لوکان مسلما وقت التوکیل ثم ارتد فھو علی وکالتہ الا ان یلحق بدار الحرب فتبطل وکالتہ کذا فی البدائع ۲؎۔
مسلمان نے کسی مرتد کو وکیل بنایا مرتد کی وکالت جائز ہوگی، اور یوں ہی کسی مسلمان کو وکیل بنایا پھر وہ وکیل مرتد ہوگیا تو اس کی وکالت باقی رہے گی مگر وہ دارالحرب بھاگ جائے تو پھر اس کی وکالت باطل ہوجائے گی، بدائع میں اسی طرح ہے (ت)
 ( ۲؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الوکالۃ الباب الاول    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/۵۶۲)
اسی میں ہے:
لاتصح وکالۃ المجنون و الصبی الذی لایعقل واما البلوغ والحریۃ فلیسا بشرط لصحۃ الوکالۃ ۳؎۔
مجنون اورناسمجھ بچے کی وکالت صحیح نہیں ہے تاہم بالغ ہونا اور آزاد ہونا وکالت کے لیے شرط نہیں ہے۔ (ت)
 (۳؎فتاوٰی ہندیہ    کتاب الوکالۃ الباب الاول    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/۵۶۲)
اسی طرح اگر بے توکیل کسی مرد یا عورت بالغ وبالغہ خواہ صبی وصبیہ کا نکاح اس نے پڑھا دیا اور اس نابالغ کا کوئی ولی شرعی موجود ہے اگرچہ حاکم شرع ماذون بالتزویج یا سلطان اسلام ہی سہی، جب بھی صحیح ومنعقد ہوگیا کہ اس تقدیر پر یہ فضولی تھاا ور فضولی کا عقد ہمارے نزدیک باطل نہیں اجازت پرموقوف رہتا ہے تو جس کانکاح بے اجازت معتبرہ شرعیہ اس نے پڑھایا اگر وہ خود بالغ یا بالغہ ہے تو خود اس کے ورنہ اس کے ولی مذکور کی اجاز ت پر موقوف رہے گا اگر اس نے جائز رکھا جائز ہوجائے گا۔
فان الاجازۃ اللاحقۃ  کالوکالۃ السابقۃ وقد کان یصلح لھذہ فکذا لتلک۔
بعد کی ازجازت بھی پہلے کی وکالت کی طرح ہے جب وکالت میں یہ صلاحیت ہے توبعد والی اجازت بھی ایسی ہی ہے۔(ت)
اور رد کردیا تو باطل کما ھو شان عقد الفضولی (جیسا کہ عقد فضولی کا مقام ہے۔ ت) اور اگر ان عورات کے افعال حد کفر تک نہیں یا ہیں مگر یہ ان پرر اضی نہیں جب تومسلمان ہے، صُوَرِ مذکورہ میں اس سے نکاح پڑھوا نے میں اصلاً مضائقہ نہیں، ہاں اگر کوئی مرتد یا صبی نابالغ اپنے بیٹے بیٹی، بہن بھائی، خواہ کسی اورنابالغ نابالغہ کا نکاح اگرچہ بزعم ولایت پڑھائے اوران کا مسلمان باپ یا جوان مسلمان بھائی، چچا، خواہ کوئی اور ولی شرعی مرتد عورت یہاں تک کہ وہاں سلطان اسلام یا اس کی طرف سے کوئی حاکم شرع ماذونِ بالا نکاح بھی ہو تو البتہ اس صورت میں یہ نکاح باطل محض ہوگا کہ مرتد یا نابالغ صالح ولایت نہیں تو عقد عقد فضولی ہوا، اور ایسی حالت میں صدورپایا کہ شرعا اس کا کوئی اجازت دینے والا نہیں،
وکل عقد  صدر من فضولی ولامجیز لہ فھو باطل۱؎ کما فی الدر وغیرہ وفی الھندیۃ لا ولایۃ لصغیرکذا فی الحاوی  ولا للمرتد علی احد لا علی مسلم ولا علی کافر ولا علی مرتد مثلہ کذا فی البدائع ۲؎ (ملخصاً) واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
فضولی کا ہر وہ عقد جس کو کوئی جائز کرنے والا نہ ہو تو وہ باطل ہوتا ہے جیسا کہ در وغیرہ میں ہے، اور ہندیہ میں ہے کہ نابالغ کو ولایت حاصل نہیں جیساکہ حاوی میں ہے ا ورنہ مرتد کو  مسلم وکافر پر اور نہ ہی اس کو اپنے جیسے مرتد پر ولایت ہے، بدائع میں ایسے ہی ہے (ملخصا) واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم (ت)
(۱؎ درمختار        کتاب البیوع     فصل فی الفضولی    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/۳۱)

(۲؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب النکاح    الباب الرابع فی الاولیاء    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۲۸۴)
مسئلہ ۱۰: ۲۲ رجب ۱۳۰۹ ھ از کٹھور ضلع سورت مرسلہ مولوی محمد عبدالحق صاحب

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیا ن شر ع متین زادھم اللہ تعالٰی شرفا وتعظیما لدیہ،اس مسئلہ میں کہ سبحان خان نے اپنی دختر عاقلہ بالغہ مسماۃ امینہ بی بی کا خطبہ یعنی منگنی نورالدین عاقل بالغ سے بے کسی شرط واقرار کے کردی، جب نکاح کے چند روز رہے نورالدین سے کہا کہ مخطوبہ کے نام ایک مکان خرید دوتو نکاح کردوں ورنہ تین برس نہ کروں گا، اس نے کہا پہلے تم نکاح کردو تو برس چھ مہینے کے بعد ہاتھ پہنچنے سے میں مکان خرید دوں گا۔ سبحان خاں راضی ہوگیا اور پانچ چھ دن بعد نکاح کرکے دوسرے دن وداع کردی، دو تین مہینے تک زن وشو ہمبستر رہے، اب سبحان خان نے امینہ کو اپنے یہاں روک رکھا اور کہتا ہے نکاح بوجہ شرطِ مکان فاسد ہوا حالانکہ عورت نے وقت توکیل بالنکاح یا اس سے پہلے سوا ایک سو ساٹھ روپے مہر کے کوئی شر ط مکان وغیرہ کی نہ کی، نہ بعد وداع کوئی گفتگو زبان پر لائی اورمکان بھی مجہول ہے کہ پختہ  و خام کی کوئی تصریح نہ ہوئی، نورالدین کا اقرار بھی معلق تھا کہ پہلے نکاح کردو تو بعد کو خرید دوں گا، پس یہ نکاح بلاشرط ہوا یا معلق بالشرط الصحیح یا با لشرط الفاسد، اور اقرار مذکور نورالدین معلق بالشرط ہے اور اقرار معلق بالشرط باطل ہے یا نہیں، بہر تقدیر شرعاً ا س نکاح میں کوئی خلل نورالدین سے مکان دلوانا واجب ہے یا نہیں ؟
بینوا بیانا شافیا للمذھب الحنفی من الکتب المعتبرۃ المتداولۃ بین العلماء العظام والفقہاء الکرام تو جروا اجرکم اللہ تعالٰی اجرا وافیا۔
الجواب: نکاح مذکور صحیح وبے خلل، اورگمان فساد محض باطل وپرزلل۔
اولاً :تقریر سوال سے واضح کہ مکان دینا کلام سبحان خاں میں شرط تعجیل نکاح تھا بالآخِر وہ بھی نہ رہی نہ شرط فی  النکاح۔
ثانیاً: علی التسلیم زوج پر ایجاب مال للزوج مقتضیات عقد نکاح سے ہے نہ اس کے خلاف
"ومثلہ لایفسد البیع فکیف بالنکاح"
(اس طرح سے بیع فاسد نہیں ہوتی چہ جائیکہ نکاح فاسد کرے۔ ت) اگر واقعی مہر وشرط بھی نہ صرف بروجہ وعدہ اس قرارداد کا ذکر خود اصل عقد میں آتا تاہم اصلا خلل نہ لاتا نہ جہالت مکان سے کوئی نقصان آتا، کہ وہ بحالت ایفا بالشرط خود متعین ہو کر مجہول نہ رہتا اور بے ایفا الزام مہر مثل ہوتا۔
کماحققہ المولی المحقق الشامی قدس سرہ السامی فی رد المحتار ،قال فقد صرح  فی النھر بانہ فی المبسوط بعد ان ذکر عبارۃ محمد لوتزوجھا علی الف وکرامتھا اویھدی لھا ھدیۃ فلھا  مہر مثلھا لاینقص عن الالف قال ھذہ المسألۃ علی وجہین ان اکر مھا واھدی لھا ھدیۃ فلھا المسمی والافمھر المثل اھ وفی البدائع لو شرط مع المسمٰی شیئا مجھولا کأن تزوجہا علی الف درھم وان یھدی لماھدیۃ فاذا لم یف بالھدیۃ یجب تمام مھرالمثل اھ وجہالۃ الھدیۃ والاکرام ترتفع بعد وجودھا ۱؎ اھ ملخصا وتمامہ فیہ۔
جیسا کہ محقق شامی قدس سرہ السامی نے ردالمحتار میں اس کی تحقیق کرتے ہوئے فرمایا کہ نہر میں تصریح ہے کہ مبسوط میں امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کی عبارت نقل کرنے کے بعد فرمایا اگر کسی شخص نے عورت سے ہزار اور اعزاز پر یا ہزار اور  ہدیہ دینے کے شرط پر نکاح کیا تو اس کا مہر مثل ہو گا جوہزار سے کم نہ ہو، علامہ شامی نےفرمایا کہ اس مسئلہ کی دوصورتیں ہیں، اگر اس نے وعدہ کے مطابق کوئی اعزازیہ یا ہدیہ دیا تو پھر مہر مقررہ ہزار ہی ہوگا ورنہ مہر  مثل ہوگا اھ، بدائع میں ہے کہ اگر مقررہ مہر کے ساتھ کوئی مجہول شیئ ذکر کی مثلایوں کہا کہ ایک ہزار درہم اور کوئی ہدیہ دے گا۔ تواگر ہدیہ کا وعدہ پورا نہ کیا تو پورا مہر مثل واجب ہوگاا ھ، ہدیہ اور اعزاز یہ دینے کے بعد اس کی جہالت ختم ہوجائے گی اھ ملخصا، مکمل بحث ردالمحتار میں ہے۔ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار         باب المہرمطلب تزوجہا علی عشرۃ دراھم وثوب    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۳۴۹)
Flag Counter