فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
یہ سب تفصیل کہ مذکور ہوئی اس صورت میں ہے کہ مخطوبہ جلسہ خاطب سے اتنی دور بیٹھی ہو کہ اس کا کلام یہاں والے نہ سنیں یا وہ قبول کیا کہہ کر اٹھ جائے اس کے بعد خاطب سے گفتگو آئے یاجب مخطوبہ نے قبول کیا کہہ لیا اس کے بعد خاطب اٹھ کھڑا ہو پھر اس سے کہا گیا کہ ان صورتوں میں مجلس متبدل ہوگی یا شہود ان دونوں کا کلا م معاً نہ سنیں گے اور اگر وہ اس قدر بیٹھی ہے کہ اہل جلسہ خاطب نے اس کا قبول کیا، کہنا سنا اور ابھی خاطب ومخطوبہ ویسے ہی بیٹھے ہیں کہ خاطب سے آکر بیان کیا گیا اورا س نے قبول کیا کہا کہ مجلس واحد میں دونوں کا کہنا حاضرین میں کم ازکم دو مردوں یا ایک مرد دوعورتوں نے معاًسنا اور سمجھا تو نکاح کی صحت وتمامی میں اصلاً کلام نہیں، اب یہ بیچ کا شخص محض لغو وفضولی ہوگا اور خاطب ومخطوبہ ہی کاکلام ایجاب وقبول ہوگا
وذٰلک ماقدمنا عن الاصلاح والایضاح والذخیرۃ والھندیہ من قول قائل للمرأۃ دادی فقالت داد ثم للزوج پذیر فتی فقال پذیرفت۱؎
اس کو ہم پہلے اصلاح، ایضاح، ذخیرہ اور ہندیہ سے نقل کرچکے ہیں کہ اگر کوئی شخص عورت کو کہے کہ تو نے فلاں کو اپنا نکاح دیا؟ تو عورت نے دادم کی بجائے داد کہا، پھر اس شخص نے مرد کو کہا کہ تونے قبول کی ؟ تو اس نے ''میں نے قبول کی'' کے بجائے صرف ''قبول کی'' کہا تونکاح صحیح ہوگا،
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب النکاح الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۷۱)
وفی الوقایۃ وشرحھا لصدر الشریعۃ اذا قیل للمرأٰۃ خویشتن را بزنی فلاں دادی فقالت داد ثم قیل للزوج پذیر فتی فقالت پذیرفت بحذف المیم یصح النکاح کبیع وشراء ای اذا قیل للبائع فروختی فقال فروخت ثم قیل للمشتری خرید فقا ل خرید یصح البیع ۲؎اھ
وقایہ اور اس کی شرح صدر الشریعۃ میں ہے کہ جب عورت کو کہا جائے کہ تونے فلاں کو بیوی ہونا دیا، تو عورت نے صرف ''دیا'' کہا اور پھر خاوند کو کہا گیا تو نے قبول کی، تو اس نے بھی صرف ''قبول کی'' کہا تو نکاح صحیح ہے جیساکہ بیع کی صورت میں بائع کو کہا گیا کہ تونے بیچی، تو اس نے جواب میں ''بیچی'' کہا ہو اور ''میں نے بیچی'' نہ کہا، پھر خریدار کے ساتھ بھی یہی سوال وجواب ہواتو بیع ہوجائے گی اھ (ت)
(۲؎ شرح وقایہ کتاب النکاح الباب الثانی مجتبائی دہلی ۲/۷)
اور عورت کا پردے میں ہونا تغایر مجلس کا مقتضی نہیں، نہ صحت نکاح میں مخل ہوسکے جبکہ مخطوبہ دو شاہدوں کو عیناً یا تسمیۃً معلوم ہو۔
فی الھندیۃ عن الذخیرۃ عن فتاوی ابی اللیث، رجل قال لقوم اشھد وا انی تزوجتہ ھذہ المرأۃ التی فی ھذا البیت فقالت المرأۃ قبلت فسمع الشھود مقالتھا ولم یرواشخصھا فان کانت فی البیت وحدھا جاز النکاح ۳؎ الخ
ہندیہ میں ذخیرہ سے اورانھوں نے فتاوٰی ابی اللیث کے حوالے سے ذکر کیا کہ ایک شخص نے لوگوں کو کہاکہ گواہ ہوجاؤ کہ میں نے اس کمرہ میں موجود عورت سے نکاح کیا اور عورت نے اندر سے جواب دیا کہ ''میں نے قبول کیا'' گواہوں نے عورت کی یہ بات سن لی اورعورت کو دیکھا نہیں، اگر عورت اس کمرہ میں اکیلی تھی تو نکاح ہوجائے گا الخ
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب النکاح الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۶۸)
قلت فافا دان الحجاب لایغیر المجلس وانما اشترط کونھا وحدھالانہ لم یسمھا وتعریف الغائب عند الاحتمال انما یکون بالتسمیۃ وفی الھندیۃ ایضاً عن محیط السرخسی ان کانت حاضرۃ متنقبۃ ولایعرفھا الشہود جاز النکاح وھو الصحیح۱؎۔
قلت (تو میں کہتا ہوں) حجاب مجلس کو تبدیل نہیں کرتا، صرف شرط یہ ہے کہ وہاں عورت اکیلی ہو کیونکہ مرد نے اس کا نام ذکر نہیں کیا جبکہ شبہ کی صورت میں عورت غائبانہ کی پہچان اس کے نام سے ہوتی ہے اورہندیہ میں محیط سرخسی سے بھی منقول ہے کہ اگر وہ نقاب اوڑھے مجلس میں حاضر ہو اور گواہ نام نہ جانتے ہوں تو بھی نکاح جائز ہوگا، یہی صحیح ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب النکاح الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۶۸)
اسی طرح قبول خاطب میں اپنا وقفہ کہ شخص مذکور وہاں سے اُٹھ کر یہاں آیا اور قاضی سے وہ گفتگو ہوئی، گواہیاں لی گئیں، اس کے بعد خاطب سے کہا گیا تو اس نے قبول کیا کچھ مضر نہیں جبکہ مجلس متبدل نہ ہو کہ قبول فوراً ہوناضرور نہیں
فی ردالمحتار عن البحر اما الفور فلیس من شرطہ ۲؎
(ردالمحتار میں بحر سے منقول ہے لیکن فوراً ہونا ضروری شرط نہیں ا ھ۔ ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۲؎ ردالمحتار کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۶۶)
مسئلہ ۹: مرسلہ حضرت نور العارفین دام ظلہم المبین از سیتا پور تامسن گنج ۱۸ ربیع الاول شریف ۱۳۰۹ھ بخدمت عالمان متبحر التماس ہے مثلاً کوئی لڑکا کہ عمر اس کی تیرہ چودہ برس کی ہے اور نابالغ ہے اپنے گھر کے عورات کو لے کر میلہ ہنود میں جاتا ہے اور عورتیں اس کے گھر کی، پرستش رسم ہنود کی کرتیں ہیں، ایسا لڑکا اگر کسی کا نکاح پڑھائے تو جائز ہے یا نہیں؟ بیّنوا توجروا۔
الجواب : اگر فی الواقع اس کے یہاں کی عورات غیر خدا کو پوجتی ہیں یعنی حقیقۃً دوسرے کی عبادت کہ شرک حقیقی ہے (نہ صرف وہ بعض رسوم جاہلیت یا افعال جہالت کہ حد فسق وگناہ سے متجاوز نہیں، گو اہل تشدد انھیں بنام شرک وپرستش غیر تعبیر کریں) اور وہ اس شرک حقیقی پرمطلع اور اس پر راضی ہے تو خود کافر ومرتد ہے فان الرضا بالکفر کفر (کیونکہ کفر پررضا بھی کفر ہے۔ ت) اس تقدیر پر اس سے نکاح پڑھوانا ہر گز نہ چاہئے کہ مرتد کے پاس تک بیٹھنا شرعا معیوب ہے۔
قال تعالٰی فلاتقعد بعد الذکرٰی مع القوم الظٰلمین ۳؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: یاد آنے پر ظالم لوگوں کی مجلس میں مت بیٹھو۔ (ت)
(۳؎ القرآن ۶/۶۸)