فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
قال شیخ الاسلام خواھر زادہ ھذا اذا ذکر لفظا ھواصیل فیہ امااذا ذکر لفظا ھونائب فیہ فلایکفی، فان قال تزوجت فلانۃ کفی وان قال زوجتھا من نفسی لایکفی لانہ نائب فیہ وعبارۃ الھدایۃ وھی ماذکرناہ اٰنفاصریحۃ فی نفی ھذا الاشتراط وصرح بنفیہ فی التجنیس ایضا، فی علامۃ غریب الروایۃ والفتاوی الصغری ۱؎ الخ۔
شیخ الاسلام خواہر زادہ نے کہا ہے کہ یہ اس وقت جائز ہوگا جب وہ اپنے اصیل ہونے کو تعبیر کرے، یعنی ''میں نے نکاح کرلیا'' کہے، لیکن اگر اس نے نائب ہونے کو تعبیر کیااور ''نکاح کردیا'' کہا تو یہ کافی نہیں، پس اگر اس نے ''فلاں عورت سے نکاح کرلیا'' کہا، تو وہ کافی ہے اور اگر یوں کہا کہ ''میں نے فلاں عورت کا اپنے ساتھ نکاح کردیا'' تو کافی نہ ہوگا کیونکہ اس کہنے میں وہ نائب ہے۔ اور ہدایہ کی وہ عبارت جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے وہ اس بات کی نفی میں صریح ہے اور تجنیس میں بھی اس کی نفی پر تصریح، غریب الروایۃ اور فتاوٰی صغرٰی کے حوالے سے کی ہے الخ (ت)
(۱؎ فتح القدیر فصل فی الوکالۃ بالنکاح المکتبۃ النوریۃالرضویۃ سکھر ۳/۱۹۷)
قلت وعلٰی ھذا عول فی الدر وغیرہ من المعتبرات وافاد البحر وغیرہ ضعف خلافہ۔
قلت (میں کہتاہوں۔ ت) کہ دُر وغیرہ معتبرہ کتب میں اسی کو معتمد علیہ قراردیا ہے۔ اور بحر وغیرہ نے اس کے خلاف کو ضعیف ظاہر کیا ہے۔ (ت)
البتہ مشہود کے سامنے منکوحہ کا متمیز ہوجانا ضرور ہے۔
حتی لوکان حاضرۃ متنقبۃ کفت الاشارۃ وان کان الاحوط کشف الوجہ۔
حتی کہ اگر وہ عورت نقاب پہنے مجلس میں حاضر ہو تو نکاح میں اس کی طرف اشارہ کافی ہے اگرچہ زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ وہ چہرہ کُھلارکھے۔ (ت)
پس اگر بحالتِ غیبت صرف بنتِ عمی یا فلانۃ یابنتِ عمی فلانۃ یا ان کے مثل جس لفظ سے شہود اسے متمیز کرلیں تو اس قدر کافی، ورنہ ذکرِ اب وجد یعنی فلانہ بنتِ فلاں بن فلاں کہنا ضروری ہے۔
خلافا للامام الخصاف ومنتقی الامام الحاکم الشھید والامام شمس الائمۃ السرخسی۔
امام خصاف نے اور منتقی میں امام حاکم شہید اور امام شمس الائمہ سرخسی نے اس کے خلاف قول کیا ہے۔ (ت)
ردالمحتار میں ہے:
فی البحر لابد من تمییز المنکو حۃ عند الشاھدین لتنتفی الجھالۃ، فان کانت حاضرۃ متنقبۃ کفی الاشارۃ الیھا والاحتیاط کشف وجھھا فان لم یرواشخصھا وسمعوا کلامھا من البیت ان کانت وحدھا فیہ جاز ولو معھا اخری فلالعدم زوال الجھالۃ وان کانت غائبۃ ولم یسمعوا کلامھا بان عقد لھا وکیلھا فان کان الشھود یعرفونھا کفی ذکر اسمھا اذا علموا انہ ارادھا وان لم یعرفوھا لابدمن ذکر اسمھا واسم ابیھا وجدھا وجوز الخصاف النکاح مطلقا حتی لو وکلتہ فقال بحضرتھما زوجت نفسی من موکلتی اومن امرأۃ جعلت امرھا بیدی فانہ یصح عندہ قال قاضی خان والخصاف کان کبیرا فی العلم یجوز الاقتداء بہ وذکر الحاکم الشھید فی المنتقی کما قال الخصاف اھ قلت وفی التتارخانیۃ عن المضمرات ان الاول ھوالصحیح وعلیہ الفتوی وکذا قال فی البحر فی فصل الوکیل والفضولی ان المختار فی المذھب خلاف ماقالہ الخصاف وان کان الخصاف کبیرا ۱؎ اھ مافی ردالمحتار ملخصا۔
بحر میں ہے کہ گواہوں کے نزدیک منکوحہ کا ممتاز ہونا ضروری ہے تاکہ کسی قسم کی جہالت ولاعلمی نہ رہے، پس اگر مجلس میں نقاب پہن کر حاضر ہوتو نکاح میں اس کی طرف اشارہ کافی ہے اگرچہ چہرہ کُھلا رکھنے میں احتیاط ہے۔ اگر مجلس والے اس عورت کی شخصیت کو نہ دیکھ پائیں اور کمرے میں سے اس کی آواز سن رہے ہوں اگر وہ کمرے میں اکیلی ہو تو نکاح جائز ہے اور اگر اس کے ساتھ کمرے میں کوئی عورت بھی ہو تو جائز نہیں، کیونکہ لاعلمی باقی ہے۔ اور اگر وہ عورت مجلس میں موجود نہیں اور اس کی آواز بھی سنی نہیں جاسکتی اس کی طرف سے اس کا نکاح وکیل کر رہا ہو تو اگر گواہ اس عورت کو جانتے ہیں تو نکاح میں عورت کا نام ذکر کردینا کافی ہے جبکہ گواہوں کو علم ہو کہ وکیل کی مراد وہی عورت ہے۔ اور اگر گواہ اس کو نہ پہچانتے ہوں تو عورت، اس کے والد اور دادا کانام ذکرکرنا ضروری ہے۔ اور امام خصاف نے نام ذکر کئے بغیر بھی جائز کہا ہے مثلاایک عورت نے نکاح کرنے والے کو گواہوں کے سامنے اپنا وکیل بنایا ہو تو اس سے نکاح کرنے والا یوں کہہ دے کہ میں نے ان گواہوں کی موجودگی میں اپنی مؤکلہ کا نکاح اپنے ساتھ کردیا یا یوں کہہ دے کہ جس عورت نے مجھے اپنے نکاح کا اختیار دیا ہے میں نے اس کا نکاح اپنے ساتھ کردیا، تو اس طرح بھی امام خصاف کے قول پر نکاح صحیح ہوگا، امام قاضی خاں نے فرمایا کہ خصاف کا علم میں بڑا مقام ہے اس کی بات پرعمل جائز ہے۔ اور حاکم شہید نے بھی منتقٰی میں خصاف جیسا قول کیا ہے اھ قلت اور تتارخانیہ میں مضمرات کے حوالے سے ہے کہ پہلاقول صحیح ہے اورا سی پر فتوٰی ہے۔ بحر میں فضولی اور وکیل کی فصل میں یونہی اس کو مذہب میں مختار قرار دیا ہے جو کہ خصاف کے قول کے خلاف ہے اگرچہ خصاف کا بڑا علمی مقام ہے اھ یہاں ردالمحتار کی عبارت کا خلاصہ ختم ہوا۔1
(۱ردالمحتار کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۷۲)
اقول وما عزافی البحر للامام قاضیخان فانما نقلہ قاضی خان عن الامام شمس الائمۃ السرخسی اما ھوبنفسہ فقد قدم عدم الصحۃ ومعلوم انہ انما یقدم مایعتمدہ۔
اقول (میں کہتا ہوں۔ ت) بحر میں جو کچھ امام قاضی خاں کی طرف منسوب کیا اس کو قاضی خاں نے امام شمس الائمہ سرخسی سے نقل کیا ہے لیکن خود ان کا موقف عدم صحت ہے جس کو انھوں نے پہلے ذکر کیا ہے اور یہ بات معلوم شدہ ہے کہ وہ اپنے معتمد علیہ کو پہلے ذکر کرتے ہیں۔ (ت)
اور اگر بنتِ عم نابالغہ کے لیے ولی اقرب موجود ہے "ای غیر غائب بغیبۃ منقطعۃ" (یعنی لمبے سفر پر غائب نہ ہو۔ ت) یا بالغہ سے خاص اپنے ساتھ نکاح کرلینے کا اذن نہ لیا اگرچہ اس نے مطلق تزویج کا اذن دیا ہو، تو ان صورتوں میں یہ ابن العم ایک جانب سے فضولی ہوگا اور جو کسی طرف سے فضولی ہو اُس کے لیے "تولی شطری النکاح" جانز نہیں اگرچہ ایجاب وقبول دو عبارتوں جداگانہ میں ادا کرے ھوالحق الصواب خلاف لما فھم من بعض الکتب (یہ حق اور صحیح ہے بعض کتب سے جو سمجھا گیا ہے وہ اس کے خلاف ہے۔ ت) یہاں تک کہ تنہا اس کا عقد کرلینا امام اعظم وامام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہما کے نزدیک باطل محض ہے کہ اس کے بعد اجازت ولی یا بالغہ سے بھی نافذ نہ ہوگا۔
خلافا للامام الثانی حیث جعلہ من الموقوف فان اجاز من لہ الاجازۃ جاز والاّ لا۔
امام ثانی (یعنی امام یوسف) نے اس کے خلاف اس نکاح کو موقوف قرار دیا ہے کہ اگر صاحب اجازت اس کو جائز قرار دے تو جائز ہوگا ورنہ نہیں۔ (ت)