Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
19 - 1581
وان کان یترا ای لی ان لقائل ان یقول لعل لاینعقد فیہ بمعنی لاینفذ فانہ ان لم یملک کان توکیل فضولی فکان ماذا الا تری ان الفضولی لایملک التزویج ولو زوج لحصل الزواج ولو موقوفا فکذا ینبغی ان تحصل بتوکیلہ الوکالۃ وان توقف نفاذہ علی تنفیذ من لہ التنفیذ قال فی البحر من البیوع الظاھر من فروعھم ان کل ماصح التوکیل بہ فانہ اذا باشرہ الفضولی یتوقف الا الشراء بشرطہ ۲؎ اھ
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس پر کوئی معترض یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ جب نکاح کا وکیل دوسرے کو وکیل نہیں بناسکتا تودوسرا فضولی قرار پائے گا، اورفضولی کا عقد نافذ نہیں ہوتا اگرچہ عقد کی حد تک ہوجاتاہے تویہاں ''منعقد نہ ہوگا'' کامعنٰی ''نافذ نہ  ہوگا'' ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ فضولی کو نکاح کردینے کا اختیار نہ ہونے کے باوجود اگر وہ نکاح کردے تو اس کا نفاذ موقوف رہتا ہے تو یہا ں بھی وکیل کی توکیل موقوف ہوکر نافذ کرنے والے کی اجازت سے نافذ ہوجائے گی، بحر کے بیوع میں کہا ہے کہ فقہاء کرام کے بیان کردہ جزئیات سے ظاہر ہے کہ وہ امور جن میں توکیل جائز ہے اگران امور کو فضولی از خود سرانجام دے تو یہ امور موقوف رہیں گے ماسوائے کسی شرط کے ساتھ خرید کے اھ،
 (؎ البحرالرائق        فصل فی بیع الفضولی    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶/۱۵۱)
ومعلوم ان التوکیل ممایصح بہ التوکیل فالظاھر الانعقاد موقوفا وان ارید عدمہ اصلا مالم یقل الوکیل قبلت فالتعلیل الصحیح الواضح ماافاد العلامۃ الفھامۃ علی المقدسی ان قول الوکیل ھب ابنتک لفلان ظاھر فی الطلب وانہ مستقبل لم یرد بہ الحال والتحقق لم یتم بہ العقد بخلاف زوجنی بنتک بکذا بعد الخطبۃ ونحوھا فانہ ظاھر فی التحقق والاثبات الذی ھو معنی الایجاب ۱؎ اھ
توظاہر ہے کہ وکیل بنانا بھی ان امور میں سے ہے جن میں توکیل جائز ہے، توظاہر ہوا یہاں بھی فضولی کا تصرف جائز ہونا موقوف ہوگا، اگر وکیل کی قبولیت کے بغیر باپ کے ''دے دی'' کہنے سےبالکل نکاح نہ ہونا مراد ہو تو پھر اس کی واضح وجہ وہ ہےجس کو علامہ مقدسی نے بیان فرمایا ہے کہ وکیل کا لڑکی کے باپ کو ''اپنی فلاں کو دے'' کہنا امر اور طلب ہے جو کہ مستقبل کا صیغہ ہے اورفی الحال تحقق مراد نہیں، لہذا عقدتام نہ ہوگا، اس کے خلاف ہے وہ صورت جس میں خود مرد نے کہا کہ ''تو اپنی لڑکی مجھے نکاح کردے'' تو یہاں منگنی وغیرہ کے بعد، یہ کلام اثبات وتحقق میں ظاہر ہے اور یہی ایجاب ہوتا ہے اھ
 (۱؎ ردالمحتار بحوالہ العلامۃ المقدسی    کتاب النکاح    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۲۶۴)
ویعینہ عیناما فی البحر عن الظھیریۃ لوقال ھب ابنتک لابنی فقال وھبت لم یصح مالم یقل ابوالصغیر قبلت ۲؎ اھ فلا مساغ ھٰھنا لزعم ان الاب لایملک التوکیل۔
بحر میں ظہیریہ سے نقل میں اسی وجہ کومعین کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک نے کہا کہ ''تو اپنی بیٹی میرے بیٹے کو دے'' دوسرے نے کہا ''میں نے دی'' تو اس وقت نکاح صحیح نہ گا بلکہ لڑکے کے باپ کوا س کے بعد ''میں نے قبول کی'' کہنا ضروری ہوگا اھ تویہا ں لڑکے کے باپ کے بارے میں یہ خیال کرنا درست نہیں کہ یہ وکیل بنانے کا مالک نہیں ہے (ت)
(۲؎ البحرالرائق           کتاب النکاح       ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۳/۸۲)
مگرنظر فقہی  حاکم ہے کہ یہ امر بالاتفاق مفید ایجاب اور ان دقتوں سے برکراں ہو،
فانہ امر بالقبول والقبول یطلق ویراد بہ الرضا وھو المحمل فی قول الفضولی المذکور للمخطوبۃ لعدم ارادتھم اذ ذٰلک الااستبانۃ رضا ھا من دون تتمیم العقد کما قدمنا، ویرادبہ احد رکنی العقد وھوالمراد ھھنا حیث المراد تحقیق العقد وھذا القبول وجود لہ الاتلو الایجاب فی ردالمحتاراشار الی ان المقدم من کلام العاقدین ایجاب سواء کان المتقدم کلام الزوج اوکلام الزوجۃ والمتاخر قبول،
کیونکہ یہ قبول کرنے کی درخواست ہوتی ہے اور جواب میں قبول سے مراد رضا مندی ہوتی ہے، اور فضولی شخص اگر لڑکی کو کسی کے لیے نکاح کی درخواست کرے تو یہاں بھی یہی مقصود ہوتا ہے کیونکہ اس کارروائی کا مقصد صرف لڑکی کی رضا حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ نکاح مکمل کرنا ہوتا ہے جیساکہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے، اور جہاں مجلس نکاح میں یہ بات کہی جائے توا س سے نکاح کا ایک  رکن مرادہوتا ہے جیسا کہ زیر بحث مسئلہ میں ہے، قبول کا لفظ یہاں پر ایجاب کا جواب ہوتا ہے، ردالمحتار میں یہ اشارہ دیا کہ عاقدین میں سے پہلے کا کلام ایجاب اور دوسرے کا قبول کہلائے گا، خواہ مرد کا پہلا کلام ہو یاعورت کا۔
 (۱؎ ردالمحتار    کتا ب النکاح        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۲۶۳)
اب منح کے قو ل کہ ''قبول پہلے متصور نہیں ہوسکتا الخ تواس پر قبول کرنے کی درخواست اقتضاءً ایجاب پر مشتمل ہے جیسا کہ کوئی کہے کہ تو میری طرف سے ایک ہزار کے بدلے میں اپنا غلام آزاد کردے، تو یہ قول ضمنا بیع پر مشتمل ہے (یعنی مجھے فروخت اور پھر آزاد کر) اور جیسا کہ کوئی غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس پر مالک اس کو کہے ''تو رجعی طلاق دے'' تو مالک کایہ کہنا موقوف نکاح کو جائز قرار دینا ہے جیساکہ درمختارمیں ہے، کیونکہ رجعی طلاق نکاح کے بعد ہی ہوسکتی ہے لہذا رجعی طلاق کا حکم، نکاح کی اجازت متصور ہوگا، جیسا کہ ردالمحتار میں ہے، یہ مجھے بالکل واضح معلوم ہوا ہے، اور اگر یہ قول قابل قبول نہ بھی ہو تو ایجاب والے قول کے بارے میں فتح کایہ کہنا کہ ''یہ احسن ہے'' اس کے لیے ترجیح اور تصحیح قرار پائے گا جیسا کہ آپ جان چکے ہیں۔ (ت)
 (۲؎ درمختار    باب نکاح الرقیق    مجتبائی دہلی            ۱/۲۰۴)

(۳؎ ردالمحتار   باب نکاح الرقیق       داراحیاء الترا ث العربی بیروت    ۱/۳۷۳)
بہر کیف یہاں آکر اس نکاح کے منعقد ہوجانے میں شبہ نہیں مگر از آنجا شخص مذکور فضولی تھا اجازت مخطوبہ پر موقوف رہا، اب اگر بعد وقوع نکاح اس کی خبر پاکر قبل اس کے کہ مخطوبہ سے کوئی قول یا فعل دلیل رد وابطال صادر ہو قولاً یا فعلاً یا سکوتاً اجازت پائی گئی تونکاح صحیح وتام ونافذ ہوگیا۔ اجازت قولی یہ کہ مثلاً مخطوبہ کہے میں راضی ہوئی مجھے منظور ہے یا اچھا کیا الحمد للہ،اورفعلی یہ کہ مثلاً بے جبر واکراہ شوہرکو خلوت میں اپنے پاس آنے دے یا اس سے مہر یانقد طلب کرے یاا ور  کوئی فعل کہ دلیل رضا ہو، اورسکوتی یہ کہ خودولی یااس کا رسول یا ایک ثقہ پر ہیزگار جس کی عدالت معلوم متحقق ہو یا دو مستورالحال جن کافسق معلوم نہ ہو مخطوبہ کو نکاح کی اطلاع دیں اور وہ شوہر کو پہچانتی ہو اوروہ اس کا کفو بھی ہو یعنی دین یا نسب یا پیشے یا چال چلن وغیرہ میں ایسی کمی نہ رکھتاہو کہ اس سے نکاح اولیاء مخطوبہ کے لیے عارہو، اس صورت میں مخطوبہ یہ خبر سن کر خاموش ہو رہے تو یہ سکوت بھی اجازت سمجھا جائے گا وقد فصلنا القول فی کل ذلک فی فتاوٰنا (اس تمام بحث کو ہم اپنے فتاوٰی میں بیان کرچکے ہیں۔ ت) با لجملہ یہ صورت رائجہ دقت سے خالی نہیں خصوصا بعد استماع خبر اظہار نفرت واقع ہو جیسا کہ بلاد ہندوستان میں اکثر دختران دوشیزہ کا معمول ہے جب تو نکاح صاف رد ہوجائے گا کہ پھر مخطوبہ کے جائز کئے بھی جائز نہیں ہوسکتا لہذا اس طریقے کی تبدیلی ہی واجب ومناسب ہے یا تو شخص متوسط پہلے خاطب سے اذن و وکالت حاصل کرکے جائے اور وہاں جو کلام مخطوبہ سے کہتا ہے اس سے تحقیق عقد مقصود رکھے کہ مخطوبہ سے اسی قدر گفتگو پر نکاح تام ونافذ ہوجائے، یا مخطوبہ سے یہ الفاظ نہ کہے بلکہ اپنے لیے اذن و وکالت لے کہ تونے فلاں ابن فلاں ابن فلاں کے ساتھ اتنے مہر پر اپنا نکاح کرنے کے لیے مجھے وکیل کیا۔ مخطوبہ کہے ہاں، پھر وہاں سے آکر خود یہی شخص خاطب سے کہے میں نے فلانہ بنت فلاں بن فلاں کو اتنے مہر پر تیرے نکاح میں دیا تو نے قبول کیا، خاطب کہے ہاں، یا یہی الفاظ رکھنا چاہیں تواول ہی مخطوبہ سے جو گفتگو کی جاتی ہے اسے مجلس توکیل وطلب رضا نہ سمجھیں بلکہ اسی کو مجلس عقد سمجھیں، اور شخص مذکور وہ الفاظ بقصد تحقیق عقد ہی مخطوبہ سے کہے کہ نکاح وہیں منعقد ہوجائے پھر خاطب کا قبول اس کی تنفیذ قرار پائے۔
Flag Counter